عید منانے کا ڈیجیٹل انداز اور ہماری روایات

عید کے موقع پر
محمدخلیل الرحمن
ایک وقت تھا کہ عید سے قبل عید کارڈز کے سٹالز جا بجا لگ جاتے تھے . ہر عمر کے لوگ وہاں منڈلاتے رہتے تھے . اپنے ذوق و شوق اور کارڈز وصول کرنے والے کی عمر , اس کے ساتھ رشتہ اور اس کے ذوق و شوق کے پیش نظر عید کارڈز کا انتخاب عمل میں لایا جاتا . بچہ لوگ اپنا بجٹ بھی دیکھتے تھے ۔
پھر سب سے اہم مرحلہ ان پر کچھ لکھنے کا ہوتا تھا . اشعار کا انتخاب کیا جاتا تھا . تحریروں میں الفاظ کی چاشنی کے علاوہ کئی رنگ بھرے جاتے تھے . یہ کوشش کی جاتی کہ عید کارڈز بذریعہ ڈاک عید سے دس پندرہ روز پہلے ارسال کر دئیے جائیں تاکہ اپنے پیاروں کو عید سے پہلے مل جائیں . تا ہم پھر بھی یہ ہوتا کہ محکمہ ڈاک والوں پر کام کا بوجھ بڑھ جاتا اور عید کارڈز عید کے بعد بھی ملتے رہتے ۔پھر یہ رجحان فروغ پذیر ہوا کہ بڑے لوگوں نے اپنی طرف سے عید کارڈز چھپوانا شروع کر دئیے . نہ عید کارڈز کے انتخاب کا جھنجھٹ رہا اور نہ ان پر شعر و شاعری اور الفاظ کے چناوُ کا . انکی جلد اور یقینی ترسیل کیلئے ارجنٹ میل سروس اور کورئیر سروس شروع ہو گئی۔
پھر انکی جگہ ای کارڈز نے لے لی . پھر ایس ایم ایس . اور اب فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک میسج تمام عزیز و اقارب اور دوستوں میں عید کی مبارکباد پہنچا دیتا ہے . پہلے عید کے موقع پر ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا اور اب فیس بک پر ہی سب سے بات ہو جاتی ہے اور عید کا جوش و خروش یہیں اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے . اس طرح تہنیتی پیغامات اگر چہ یکسانیت کا شکار ہو گئے ہیں اور ان میں بایں طور وہ لطف نہیں رہا لیکن فائدہ یہ ہوا ہے کہ انکا دائرہ بہت وسیع اور ترسیل و تبادلہ بہت سہل اور سریع ہو گیا ہے ۔
اس سال ایک نیا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ویڈیو / آڈیو تہنیتی پیغامات بھی فیس بک پر عام ہو رہے ہیں . مباکبادیاں دینے کیلئے کچھ دیر کیلئے لائیو نمودار ہونے کا بھی آپشن آ چکا ہے . یہی وجہ ہے کہ عید کے موقع پر ہم رفتہ رفتہ گھر بلکہ اپنے بیڈ روم تک محدود ہوتے جارہے ہیں . ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد عیدیاں اور کیک و مٹھائیاں بھیجنے اور وصول کرنے کا بھی کوئی ڈیجیٹل بندوبست ہو جائے۔
یقیناً اس کا اپنا لطف ہو گا لیکن عید منانے کا یہ ڈیجیٹل انداز ہمیں عید کی حقیقی خوشیوں سے دور بھی کرتا جا رہا ہے کیونکہ عید کی حقیقی خوشیاں تب ہی نصیب ہوتی ہیں جب بندہ کسی کی مدد کر کے , بزرگوں کے پاس کچھ لمحات گذار کر دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کر کے اور انواع و اقسام کے کھانے بنا کر مہمانوں کی تواضع کرتا ہے یا کسی کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔
عید کی مصروفیات میں سے ایک مصروفیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم شہر ِ خموشاں میں آرام کرنے والے اپنے پیاروں کے پاس بھی حاضر ہوتے ہیں اور ان کے پاس بھی کچھ وقت گذارتے ہیں کیونکہ وہ ہماری زندگیوں کا ایک اہم حصہ رہے ہوتے ہیں اور ہم انکی جدائی کا داغ لے کر جی رہے ہوتے ہیں . اسی طرح جن اعزا و اقارب کا داغ مفارقت تازہ ہوتا ہے ان کے گھروں میں جا کر ان کے پس ماندگان کو پرسہ دیا جاتا ہے , کچھ وقت ان کے ساتھ گذارا جاتا ہے تاکہ انکا دل بہل سکے ۔
اب تو کچھ عرصہ سے عید اپنے ہی ہم وطنوں کے لہو سے رنگین ہو جاتی ہے . اس سال بھی پارا چنار اور کوئٹہ میں عید لہو لہو ہے . ایسے میں سمجھ نہیں آ تی کہ عید مبارک کا پیغام دوں یا ان مظلوموں کے ورثا کو پرسہ دوں ؟ خوشیاں بانٹوں یا دکھ اور غم کا اظہار کروں ؟ سچ بات تو یہ ہے کہ غم تو اور بھی بہت ہیں ۔ افغانستان ، شام ، یمن ، عراق ، لیبیا ، غزہ ، برما اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی بربادیوں کا غم لیکن ہماری روایت یہی ہے کہ اس موقع پر ہم پرسے بھی دیتے ہیں اور عید مبارک بھی کہتے ہیں کیونکہ عید غم و سوگواری کے عالم میں امیدوں کے چراغ بھی تو روشن کرتی ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو عید کی حقیقی خوشیاں نصیب فرمائے ۔ آمین

Facebook Comments

محمدخلیل الرحمن
بندہ دین کا ایک طالب علم ہے اور اسی حیثیت میں کچھ نہ کچھ لکھتا پڑھتا رہتا رہا ہے ۔ ایک ماہنامہ کا مدیر اعلیٰ ہے جس کا نام سوئے حجاز ہے ۔ یہ گذشتہ بائیس سال سے لاہور سے شائع ہو رہا ہے ۔ جامعہ اسلامیہ لاہور کا ناظم اعلیٰ ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا ممبر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply