احمد پور شرقیہ سے پارا چنار تک

آپ لاہورمیں کہیں سگنل پر رُکیں اور اپنی گاڑی کا بمپر اگلی گاڑی سے ٹچ کرنے جتنا قریب نہ رکھیں تو کوئی نہ کوئی موٹر بائک، رکشہ، ویگن یا دوسری گاڑی پیچھے سے آکر اس جگہ میں منہ گھسا دے گی۔ جن دنوں گیس کا بحران تھا، شدید لوڈ شیڈنگ جاری تھی اور ہفتے میں محض ایک یا دو دن گیس ملتی تھی، ایک آدھ چھوڑ کر ہر علاقے میں بیشتر سی این جی اٹیشنز بند کر دئیے گئے تھے، تو دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ نئی ہنڈا اور لینڈ کروزرز، رات تین بجے گیس بھروانے پہنچی ہوتی تھیں۔ احمد پور شرقیہ حادثے میں جلے ہوئے آئل ٹینکر کے ساتھ ہی جلی ہوئی نئی کرولا اور چند سوزوکی مہران بھی نظر آئیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ گاڑیاں دھماکے کے عین وقت وہاں سے گزر رہی تھیں یا پھر وہ بھی مفت کا پیٹرول حاصل کرنے یا محض تماشہ دیکھنے کے لیے رُکی ہوئی تھیں۔ مگر مندرجہ بالا دو حوالوں سے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یہ واقعہ محض معاشی بدحالی کا نتیجہ نہیں، اس میں موقع پرستی بھی شامل تھی۔ اور یہ مائنڈ سیٹ صرف جنوبی پنجاب میں ہی نہیں پایا جاتا، یہ کم بیش پورے پاکستان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہماری یاد داشتیں کمزور ہیں ورنہ ماضی میں بھی جب کہیں آئل ٹینکرز اُلٹے، وہاں یونہی بالٹیاں بھری گئیں۔
بہت سی باتیں اور اوصاف جنھیں ہم محض جہالت سے جوڑتے ہیں وہ پڑھے لکھوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں موقع شناسی اور مادہ پرستی کی بنیادیں بہت گہری ہیں۔ لوگ حکومت وقت سے شکوہ کر رہے ہیں، جہالت کا رونا رو رہے ہیں، مگر ہمیں ریاست سے شکایت ہے۔ اس ریاست سے جس نے مذہب ایسے عناصر کے ہاتھ میں دے رکھا ہے جن کا شعور ایک اوسط درجہ انسان کے برابر بھی نہیں۔ نصاب میں من و سلویٰ اور مال غنیمت کےبارے میں کیا سوچ کر پڑھایا جاتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ من و سلویٰ یا مال غنیمت کا ہاتھ لگنا براہ راست تصورات میں شامل ہے، استعارہ ہے یا محض تاریخ؟ اگر یہ تصورات ہیں تو ویرانے میں اُلٹا تیل کا ٹرک جس کا تیل بہر طور ضائع ہی ہونا تھا، اسے ایک عامیانہ ذہن مال غنیمت اور من و سلویٰ کیونکر تسلیم نہ کرتا؟ ٹینکر دھماکے سے نہ پھٹتا تو شاید حادثے کو مشیت الہٰی کا نام دیا جاتا اور تیل کی بالٹیاں جل مرنے والوں کے نزدیک غیبی امداد کے تحت عیدی تصور کی جاتیں۔ دوست اسے غلط طور پر لوٹ مار بیان کر رہے ہیں جبکہ یہ لوٹ مار نہیں تھی۔
ٹینکر حادثاتی طور پر اس جگہ اُلٹا کسی نے الٹایا نہیں۔ کھیتوں کھلیانوں میں جمع ہونے والا تیل نقصان اٹھانے والی کمپنی کی طرف سے دوبارہ جمع نہیں کیا جانا تھا۔ یہ حادثہ تھا اور کھیتوں کھلیانوں میں جمع ہونے والا تیل بارش کا پانی (حکومت اتنا ہی کر سکتی تھی کہ لوگوں کو جائے حادثہ کے قریب جمع ہونے سے روک دیتی جو وہ نہیں کر سکی اور یقیناً اسی حد تک وہ قصوروار بھی ہے)۔ آپ تاریخ پڑھاتے وقت جب من و سلوی ٰاور مال غنیمت کے واقعات کو گلوریفائی کر کے بچوں کے سامنے مزے لے، لے کر پڑھاتے، بتاتے ہیں تو اس سے زیادہ تفصیل کی ضرورت ان تصورات اور تاریخی واقعات کی وضاحت میں لکھے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اسکی اُمید آپ اُس ایوریج مذہبی سکالر سے نہیں کر سکتے کہ جسے کہیں داخلہ نہ ملا، جو پیسہ کمانے والے کسی دوسرے شعبے سے منسلک نہ ہو سکا۔ ستم یہ کہ اُسکے ہاتھ میں آپ نے مذہبی امُور دے دیے۔ وہ نصاب میں بنا سوچ بچار، معقول توجیحات اور وضاحتوں کے تاریخ درج کرتا چلا گیا۔
مذہب میں شامل ان سب گہری باتوں کو سرسری بتا کر ہم نے اپنے گرد ایک موقع شناس اور مفاد پرست معاشرہ تخلیق کر لیا ہے جس میں اخلاقیات بتدریج نظر انداز ہوتی چلی گئیں۔ ہم اپنے لوگوں کو موقع شناسی اور لالچ کا فرق بیان کرنے میں ناکام رہے۔ قطار میں کھڑا ہونا ہمارے لیے مجبوری اور پابندی کی حیثیت رکھتا ہے، سو جہاں کسی کو موقع ملے وہ ہاتھ بڑھا کر پہلے سے کھڑے لوگوں سے پہلے باری لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم نے طوطے کی طرح تاریخ رٹوانے کو ترجیح دی، مگر فکری گہرائی کیساتھ اخلاقیات پر خدا خوفی کا درس نہیں دیا۔ قابل گرفت جرائم کی بات کی، مگر اخلاقی جرائم پر بات کرنا ضروری نہ سمجھا۔ مجرم کی جزا سزا کی بات کی مگر جرم کے اسباب کا نہ سوچا۔
اگر اسلام ہر دور کا مذہب ہے تو یقیناً اسے ہر دور کے سکالرز کی نئی تشریحات کی ضرورت ہے۔ کلام پاک اللہ کے نبیؐ پر اترا۔ بزرگان دین محترم ہیں مگر ہر بات پر یہ کہنا کہ بزرگوں نے فرمایا یہی بات مذہب کے تصور کو محدود اور جمود کا شکار بناتی ہے۔ اخلاقیات معاشی، سماجی اور سائنسی ترقی کیساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مذہب کی تشریح کو محض آج سے چودہ پندرہ سو سال یا اسکے دو تین سو سال بعد کے معاشرے پر قید نہ رکھا جائے۔ کلام اللہ میں بیان کیے گئے استعاروں کو سمجھا جائے نہ کہ بزرگان دین جن پر وہی بھی نہ اتری تھی انکی باتوں کو ہر دور پر مسلط رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ کے نبیؐ کی حیات طیبہ ہمارے لیے استعارے کی شکل میں مشعل راہ ہے۔ اسکے زریں اصولوں کو لے کر آج کے معاشرے میں توجیحات اور تشریحات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ باب العلم کی حکمت سے فیضیاب ہونے کی ضرورت ہے۔ خلفائے راشدین کے دور خلافت سے جدید اور اعلی ٰمعاشرت کے اصول وضع کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس دور کی معاشرت کو نقل کرنے کی۔
جب تاریخ بیان کریں تو پہلے اسکے سوچ پر ہونے والے اثرات پر غور کریں اور اتنی تفصیل اسکے فلسفے پر ضرور بیان کریں کہ کوئی اس سے غیر ضروری نتائج اخذ نہ کرے۔ تاہم ان سب باتوں کیساتھ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لالچ اور خوف کا تعلق مذہب سے زیادہ بنیادی انسانی نفسیات سے ہے۔ذخیرہ اندوزی کے پس منظر میں بھی یہی محرکات کارفرما ہوتے ہیں جسکی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ یہ الگ بات کہ لوگ پھر بھی باز نہیں آتے۔ دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں بہتر معاشرے کے قیام کے لیے قوانین اور اخلاقی تربیت کی ضروت ہوتی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں مذہبی سکالرز، دانشوروں اور سماجی علوم کے ماہرین کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔
آج جو ہم سب مل کر اخلاقیات کا ایک اور قتل کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ پارا چنار میں بیس ہزار لوگ تین دن سے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں مگر سارا میڈیا آئل ٹینکر حادثے پر فوکسڈ ہے اور اس دانستہ قتال پر دانستہ اور منافقانہ خاموشی اختیار کیے بیٹھا ہے۔ مرنے والوں کی مذہبی، فکری و فقہی وابستگی کچھ بھی ہو، تھے تو انسان۔ مگر کسی کو یہ فکر نہیں کہ وہاں ابن آدم ہی ابن آدم کو ایک عرصہ سے قتل کر رہا ہے۔ ریاست تماشہ دیکھ رہی ہے۔ بلاگرز پر پریس کانفرنس کرنے والا وزیر داخلہ ایک سو چالیس سے زیادہ ہلاکتوں کے بعد اب تک غائب ہے۔ شاید مرنے والوں کا جرم تلاش کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ توجیحات پر غور کیا جا رہا ہوگا کہ اب کیا بتائیں کہ یہ ریاست کا قصور نہیں یہ سب انکی غلطی کی وجہ سے ہوا۔ پارا چنار کے لوگ ایک عرصہ سے وہاں کسی کرنل صاحب کے تبادلے کی بات کر رہے تھے، اب انکا مطالبہ ہے کہ کرنل صاحب کا کورٹ مارشل کیا جائے۔
سننے میں آیا ہے کہ کرنل صاحب کے حکم پر مسلسل دہشت گرد حملوں کے شکار مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی گئی ،جسکے نتیجے میں چار لوگ جان سے گئے جبکہ سات گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ جنرل ڈائر بھی اصل میں کرنل ہی تھا۔ تو یہ لوگوں کو کیا یاد دلانے کی کوشش کی گئی؟ بہر حال کورٹ مارشل کا مطالبہ کرنے والے شاید نہیں جانتے کہ یہاں ذمہ داری لینے اور غلطی تسلیم کرنے کی اخلاقیات عنقاہیں۔ یہاں تو کبھی کوئی سویلین بھی مرضی سے جواب دہ نہیں ہوا۔ اور وہ تو پھر مقدس لوگ ہیں، ان سے کون پوچھ سکتا ہے۔ سو اونچی آواز میں کمزور پر چڑھ دوڑنے والا وزیر داخلہ غائب اور پانامہ زدہ شیر دلیر وزیر اعظم بھی غائب۔ ہم جس گڑھے میں گر چکے ہیں اس سے صرف ہمیں ہمارا بھائی چارہ اور انسانیت نکال سکتی ہے۔ بلند اخلاقی اقدار والی قومی وحدت جو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب، مسلک اور مکتب فکر صرف انسانیت شناس ہو، جو سینے میں درد اور دل میں خوف خدا رکھتی ہو!

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply