یُوسا۔۔۔۔۔قمرسبزواری / افسانہ

یوسف حسین نے ایک جھٹکے سے سائیکل سٹینڈ پر کھڑی کی۔ دودھ کے دونوں ڈول اتار کر نیچے رکھے اور حاجی کے ہوٹل کے باہر لگی چارپائیوں میں سے ایک خالی چارپائی کی طرف بڑھنے لگا۔

اوئے پیجی چائے لے آ ، یوسے نے ہوٹل کے چھوٹے کو آواز دی۔ ، ابھی لے آؤں چا چا یا چاچے نورے اور چاچے فیکے کو آنے دوں؟ نہیں اوئے فیکے کے بچے ابھی لے آ تجھے کہہ رہا ہوں۔ اُس کے سینے میں آگ لگی ہوئی تھی اور دماغ نے نمبردار کے پرانے وی سی آر کی طرح  فلم کو پھنسا کر ایک ہی سین بار بار چلانا شرو ع کر دیا تھا۔ اُس نے جیب سے ڈبیا نکال کر سگریٹ سلگائی اور لمبے لمبے کش لینے لگا۔ بنا فلٹر کی سگریٹ جتنا اُس کے منہ کو کڑوا کرتی اور حلق کو جلا رہا تھی وہ اتنے ہی لمبے کش لے رہا تھا۔

وہ دوبارہ ذہن میں پھنسی ہوئی فلم کی طرف متوجہ ہو گیا۔ پیلے گیٹ والے گھر کا اندرونی منظر پھر اُس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ اس گھر کی بیگم صاحبہ جسے وہ باجی کہتا تھا  ڈونگے میں دودھ ڈلوانے کے لئے جب جھکی تو  قمیض میں سے اُن کا  جسم جھول کر جیسے یوسے کی آنکھوں کے بالکل قریب آ گیا تھااب نہ تو وہ ہاتھ روک سکتا تھا اور نہ باجی برتن پھینک کر سیدھی ہو سکتی تھیں۔ یوسے کی پانچ چھ دِنوں بعد جیسے کھل کر حسرت پوری ہو ئی تھی۔ وہ ہر دروازہ کھلنے پر متلاشی ہوتا تھا مگر کچھ دِنوں سے بس گزارا ہی ہو رہا تھا۔ دودھ ڈونگے میں ڈلتا رہا اور یوسا  دودھ کے ڈولوں کو جی بھر کے دیکھتا رہا۔ اُس کے نتھنوں میں سے ہوتی ہوئی باجی کے پسینے اور مہندی کی ملی جلی خوشبو دماغ کو چڑھ رہی تھی۔ تھے تو یہ چند لمحے مگر جیسے پوری رات گزر گئی لیکن پھر یکدم سورج نکل آ یا، دودھ ڈونگے سے چھلکا تو یوسے نے شرمندہ ہو کر جھٹکے سے اپنا ہاتھ اور آنکھیں پیچھے کھینچ لیں۔ باجی کا پھولا ہوا بھدا چہرہ غصے اور شرم سے لال ہو گیا مگر اُس نے ڈھٹائی سے اپنی آنکھوں میں موجود نیند کے خمار کو کچھ مزید گہرا کر کے ایسے تاثر دیا جیسے وہ ابھی تک آدھی سوئی ہوئی ہے۔

یوسے کے کانوں میں دور سے آواز آئی، چا چا ۔۔۔چاء رکھ دی ہے، یوسے نے خیالوں کی دنیا سے نکل کر  ہڑبڑا کر پیجی کو جاتے ہوئے دیکھا اور پیالی اٹھا کر ہونٹو ں سے لگا لی۔ چائے کا گرم گرم گھونٹ لے کر اُس نے سڑک پر آگے پیچھے دور تک نگاہ دوڑائی مگر اُسے نہ فیکے کی سائیکل دکھائی دی اور نہ نورے کی ریڑھی۔ اُس نے پیالی میز پر رکھ کر سر نیچے جھکا لیا اور دوبارہ کھو گیا۔

باجی نے دروازہ بند کیا تو یوسے کو جیسے ایک دھچکا سا لگا تھا۔ جیسے گاؤں سے دودھ کے بھرے ڈول لاد کر لاتے ہوئے اچانک اُس کی سائیکل کے نیچے کوئی روڑا آ جاتا تھا   یا جیسے سردیوں میں  گرم بستر سے اٹھ کر اُسے اپنی  بھینسوں ماڑی اور بھوری کے باڑے میں جانا پڑتا تھا تو کمرے سے نکلتے ہوئے اسے جھٹکا لگتا تھا۔

لیکن بھینسوں کے اِس باڑے سے اُس نے پھر  اپنے خیالوں کی کھڑکی گرم کمرے کی طرف کھول لی، پیلے گیٹ والے گھر دودھ دے کر  سائیکل پر بیٹھتے ہی اُس کی آنکھوں کے آگے بیگم سلطانہ  جو پیلے گیٹ والے گھر کی مالکن تھیں کا   تازہ گوندھے ہوئے میدے کی طرح  کا چکنا  اور پلپلا جسم   تھل تھل کرنے لگا  ۔ پھر خیالوں ہی خیالوں میں اُن کا جسم یوسے کے گھر ڈول میں  پڑے مکن کے پیڑوں سے گڈ مڈ ہونے لگا  اور مکھن کے پیڑوں کا ذائقہ اُس کے منہ میں گھلنے لگا اُس نے دِل ہی دِل میں مکھن کے پیڑوں پر رکھی ہوئی شکر کی گولیاں  منہ میں رکھیں  تو  اُس کے منہ میں رال جمع ہونے لگی ، یوسے نے شکر کی گولیاں اپنی انگلیوں میں پکڑ لیں اور دھیرے دھیرے انھیں مکھن کے پیڑوں پر  دوبارہ ٹکانے لگا ۔ بس کے چنگھاڑتے ہارن نے یوسے کو دوبارہ حاجی کے ہوٹل پر پٹخ دیا۔

چائے کے دو تین گھونٹ پینے کے بعد اُس نے ایک اور سگریٹ سلگایا اور پھر سڑک کی طرف دیکھنے لگا ،پتہ نہیں میں جلدی آگیا ہوں آج یا یہ دونوں کہیں مر گئے ہیں ۔ یوسے کو یاد آیا کہ شکر اور مکھن میں لتھڑی انگلیاں چاٹتے ہوئے اُسے خیال ہی نہ رہا تھا کہ وہ بڑی کوٹھی تک پہنچ گیا تھا اور دو گھر جنہیں دودھ دینا تھا پیچھے ہی چھوڑ آیا تھا۔ اضطراری کیفیت میں اُس نے سائیکل پیچھے موڑی اور پہلے اُن گھروں میں دودھ دے کر پھر کوٹھی آنے کا سوچا۔ دوبارہ پیلا گیٹ اور اُس کا اندرونی منظر اُس کے دماغ پر چھانے لگا تو اُس نے سر جھٹک کر ایک چھوٹی سی آیت پڑھی اور اپنی بیوی کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی ، ناخنوں میں میل اور اوپلوں  کی بُو، سلیپروں کے ساتھ  گوبر ، چہرے پر چھائیاں ، فلالین کے گھسے ہوئے کپڑوں میں چھیچھڑوں کی طرح لٹکی ہوئی چھاتیاں سینے پر سجائے ، منہ بسورے بغل میں بہتی ناک والے اُس کے دو سالہ بیٹے کالو کولٹکائے اُس کی بیوی اُس کے خیالوں میں آ گئی، یوسے نے ایک واہیات سی گالی بیوی کو دے کر پھر  صبح والے واقعات  کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ۔

پیلے  گیٹ  کے بعد اور بڑی کوٹھی  سے پہلے جن دو گھروں میں اُس نے دودھ دیا وہاں اُس کی نظریں متلاشی رہیں مگر اُسے مایوسی ہوئی، اُس کا جی چاہ رہا تھا کے سب دروازوں پر عورتیں ہی دودھ لینے کے لئے آئیں اور سب نے کھلے گلوں والی  قمیضیں پہن رکھی ہوں۔ کاش کوئی ایسی بھی ہو جو اندر بستر سے ہی آواز دے کہ دروازہ کھلا ہے اندر آ جاؤ اور یہاں دودھ ڈال جاؤ۔ ایک عورت نے تو دوپٹہ چہرے کے گرد ایسے لپیٹا ہوا تھا کہ اُس کی ٹھوڑی سے نیچے نظر ہی نہ جاتی تھی، یوسے نے دِل ہی دِل میں اُس پر لعنت بھیجی اور اُس کے بازوؤں اور جھکنے کے طریقے پر غور کر کے اپنی بھڑاس نکالی۔

سڑک کی دوسری جانب کوٹھی کی طرف  جاتے ہوئے اُس نے محسوس کیا کہ اس کے پیٹ میں آگ کا ایک گولہ   گھومنے لگا ہے ۔ اُسے کوٹھی سے بہت سی امید وابستہ تھی۔ گیٹ کے ساتھ لگا کال بیل کا بٹن دبا کر وہ قمیض کو درست کئے بغیر سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ کوئی باہر نہ آیا، کچھ دیر بعد اُس نے دوبارہ گھنٹی بجائی، تیسری بار پھر ، مگر اندر جیسے کوئی تھا ہی نہیں۔ وہ وآپس لوٹنے لگا تو اندر کے دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی۔ حسبِ معمول گیٹ کھلنے پر وہ اندر داخل ہوا مگر سامنے بیگم صاحبہ نہیں بلکہ اُس کی بیٹی کھڑی جمائی لے رہی تھی۔ وہ کچھ ہچکچا گیا مگر دوسرے ہی لمحے جیسے اُس کے اندر ایک جنون  عود آیا۔ اُس نے بھر پور نظروں سے لڑکی کا جائزہ لیا۔ سولہ سترہ سال کی انتہائی موٹے جسم اور  بے تاثر چہرے والی  لڑکی تقریبا سوئی ہوئی ہی تھی، وہ اُسے اپنی بھوری کی طرح لگی۔ یوسے نے جگ ہاتھ میں لینے کی بجائے ڈول اوپر اٹھا کر آ گے کو جھکایا، لڑکی نے بند آنکھوں کے ساتھ جھک کر جگ نیچے کیا تو یوسے کی نظریں اُس  پر جم گئیں اُس نے ڈول کو آہستہ آہستہ نیچے کرنا شروع کیا ، کافی دیر بعد اُس نے مزید جھکنا روکا مگر اتنی دیر میں جگ بھر چکا تھا۔

مایوسی نے اس کے جذبات میں مزید گراوٹ پیدا کر دی۔

دودھ لے کر لڑکی واپس جانے کے لئے  مڑی تو جیسے یوسے کے سینے پر کسی نے شہتیر رکھ دیا ، اُس کا دم رک گیا۔ لڑکی کی لان کی قمیض  پسینے کی نمی کی وجہ سے جسم کے ساتھ پیاز کی جھلی کی طرح چمٹی ہوئی تھی۔ ایک لمحے کو اُس کے ہاتھ ڈول زمین پر رکھنے کو قدرے ڈھیلے پڑے۔ اُسے لگا جیسے اب وہ اپنے بس میں نہیں ہے وہ ابھی بھاگ کر اُس لڑکی کو پکڑ لے گا۔

لڑکی اتنی دیر میں اندر کے دروازے تک پہنچ چکی تھی، کتے کے بھونکے کی آواز سے یوسا چونکا اور کوٹھی سے باہر نکل آیا۔ ابھی مزید ایک دو گھروں میں دودھ دینا باقی تھا مگر نہ تو اُس سے سائیکل چل رہی تھی اور نہ دودھ بیچنے کا جی چاہ رہا تھا۔ وہ باقی گھر چھوڑ کر سیدھا اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا اور حاجی کے ہوٹل تک پہنچ کر ہی رکا۔

رفیق حسین اور نور محمد یعنی فیکا اور نورا یوسے کے یار تھے۔ وہ دونوں شہر کی اِس آبادی جہاں یوسف دودھ بیچنے آتا تھا سے ذرا باہر مضافات کی بستی میں رہتے تھے یوسف حسین صبح منہ اندھیرے گھر سے دودھ لے کر آٹھ میل کا رستہ سائیکل پر طے کر کے فیکے اور نورے کی بستی کے پاس سے ہوتا ہوا شہر میں دودھ دینے گھس جاتا اور جب سات بجے کے قریب وآپس آ کر حاجی کے ہوٹل پر اپنے دودھ کے ڈول رکھ کر اپنی نائب قاصد کی نوکری کے لئے دفتر جانے لگتا تو وہ دونوں بھی حاجی کے ہوٹل پر آ جاتے، فیکا اپنی سائیکل لے کر جس پر سلائی مشینیں اور پریشر ککر مرمت کرنے کا سامان تھا اور نورا اپنی ریڑھی لے کر جس پر سبزی یا کبھی کبھی پھل ہوتے۔

یوسا تیسرا سگریٹ سلگا رہا تھا کہ اُس کی گردن پر کسی نے ایک دھپا مارا۔ یوسا مڑا تو فیکا منہ دوسری طرف موڑے انجان بنا پیچھے کھڑا تھا اور نورا بھی دس قدم دور ریڑھی دھکیلتا آ رہا تھا۔ کیا بات ہے آج بڑی سویر ماری تو نے فیکا سامنے والی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے چائے کی خالی پیالی کو دیکھ کر بولا، نورا بھی اِس اثناء میں پاس آ چکا تھا، وہ بھی پیالی اور میز کے اوپر بجھائی گئی دو سگرٹوں کے ٹوٹے دیکھتے ہوئے بولا ، لگتا ہے کافی دیر سے آیا بیٹھا ہے یار ہمارا شاید آج پھر گرما گرم کہانی ہے کوئی۔

یوسے نے ایک لمبا کش لگا کر کہا سنگیو مجھ سے تو کسی دِن کچھ ہو کے رہے گا یا میں کسی کو گرا لوں گا اور یا پھر گھر والی کو فارغ کر کے اِدھر شہر میں ہی کوئی بیٹھک کرایے پر لے لوں گا۔ دیکھ یوسے ہوش کر ، تیری بیوی ہے، دو بیٹیاں ہیں ، بیٹا ہے اور بڑی بیٹی تو اب ماشاء اللہ تیرہ چودہ سال کی ہو رہی ہے کسی دِن خود بھی ذلیل ہو گا اور ہمارا بھی گاؤں میں داخلہ بند کرائے گا۔ نورے نے اُسے ڈانٹا۔ ساتھ ہی فیکا بولا ،ہمارے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے مگر وہ سب صرف شغل میلے کی حد تک رہے تو ٹھیک ہے، اصل میں تو اپنی گھر والی پر کچھ خرچہ کرے ، کوئی کپڑا لتہ، کوئی کھلانا پلانا، دوا دارو تو تیری یہ حالت ہو ہی نہ مگر ادھر سے تجھے پیسے جوڑنے کا بھی تو جنون ہے نا۔۔۔۔فیکے کی بات ابھی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ یوسے نے اُسے ٹوک دیا اور اُٹھ کر حاجی سے آج کچھ زیادہ بج جانے والے دودھ کی بات کرنے چلا گیا۔

شام کو یوسف حسین گھر کے قریب پہنچا تو اُس نے محسوس کیا کہ صبح والے واقعات اس کی رگوں میں کہیں سو گئے تھے جو اب گرم  لاوا بن کر  دوڑنے لگے ہیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی غسل خانے کے ساتھ بھینسوں کا برآمدہ نما کمرہ  تھا، پھر صحن اور پھر سونے کے دو کمرے اور باورچی خانہ۔ سائیکل کھڑی کر کے وہ بھینسوں کے پاس گیا ، ماندی کو اُس نے دیکھا اور دھکیل کر ایک طرف کر دیا، کم ذات کی ایسے ہڈیاں نکلی ہوئی ہیں جیسے کھانے کو کچھ ملتا ہی نہیں اِسے، پھر وہ بھوری کی طرف بڑھا، بھوری کا بھرا ہوا جسم دیکھ کر اُس کا جی خوش ہو جاتا تھا، اُس نے بھوری کی پیٹھ پر بڑے والہانہ انداز میں ہاتھ پھیرا، اُس کی رگوں کا لاوا دماغ کی طرف چڑھنے لگا، یوسے نے دونوں ہاتھ بھوری کی پیٹھ پر پھیرنے شروع کر دیئے پھر ناخنوں سے ہلکی ہلکی خراش کرنے لگا جیسے اوپر سے کوئی جھلی اُتار رہا ہو۔

بچے قرآن پڑھنے مسجد گئے ہوئے تھے، یوسف صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گیا، بیوی نے چائے کا پیالہ لا کر پکڑایا اور پائنتی پر چھڑھ کر بیٹھ گئی، یوسے نے چائے کے ایک  دو گھونٹ لئے مگر پھر پیالہ پاس پڑی تپائی پر رکھ کر چارپائی پر نیم دراز ہو گیا اور ٹانگیں پسار کر انھیں اکڑانے لگا  ۔ وہ پائنتی کی رسی میں پاؤں پھنسا کر کھینچنتا اور پھر گردن پیچھے لٹکا کر سینہ پھلاتا ۔

اس کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اس کی بیوی اس کی ران پر ہاتھ رکھے اور خود سے کوئی بات کرے، یوسے کا ہاتھ بار بار حرکت کرنے کو بے چین ہوتا لیکن   وہ اُسے روک کر پاؤں کے انگوٹھے سے پائنتی پر بیٹھی  بیوی کی ران کو چھوتا، اُس کے ذہن میں الفاظ گردش کرتے لیکن  وہ اپنی زبان کو روک کر بیوی کے بولنے کا انتظار کرنے لگا ۔

اُس کی ہیجانی کیفیت اور بے بسی نے اُس کی انا کے احساس کو چابک مار دیا تھا  زبان سے اقرار یا جسمانی حرکات سے اپنی شدید ضرورت کے اظہار کا خیال اُس کی انا کو مجروح کر کے اس کے شہوانی جذبات کو تذلیل کے رنگ میں رنگ رہا تھا۔

اُس کی بیوی نے اُس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ، اور چارپائی سے نیچے لٹکی ہوئی اپنی ٹانگ کو اٹھا کر اوپر رکھا، یوسے کے دل میں ابلتا لاوا پھٹنے کے قریب پہنچ گیا وہ  بیوی کے چہرے پر نظریں جما کر اس کے ہاتھ کا انتظار  کرنے لگا۔  دفعتا ً یوسے کے بیوی نے نظریں جھکا لیں اور چارپائی کے بان سے تنکا توڑتے ہوئے بولی  ، پہلے تو کوئی وزن اٹھاتے ہوئے پیٹ پر کھینچ پڑتی تھی مگر اب تو ایک ذرا سی جھکنے پر بھی ٹیس سی اٹھتی ہے اور پیشاب میں خون بھی آنے لگا ہے۔

تم شہر کے کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلو نہ مجھے کبھی ، جب سے طہری پیدا ہوا ہے اُس کرمو جلی دائی نے تو میرا سارا ’’اندر‘‘ ہی خراب کر کے رکھ دیا ہے۔

لگتا ہے جیسے ہڈیوں میں پانی پڑ گیا ہے۔ اب تو سوچ رہی تھی تم سے کہوں کہ دونوں نہیں تو کم سے کم ایک بھینس تو بیچ ہی دو، اب نہیں سنبھالی جاتیں مجھ سے ۔

یوسے کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب اُس کی ٹانگ پائنتی کی رسی سے چھوٹی اور کب  بیوی کی پسلیوں میں جا دھنسی، پھر دوسری تیسری اور پھر نہ جانے کتنی، اُسے تو ہوش اُس وقت آیا جب وہ چارپائی سے نیچے جا گری اور یوسا اُسے کراہتا ہوا چھوڑ کر باہر نکل گیا  گھر سے نکل کر اس نے اِدھر اَدھر دیکھا اور پھر چند قدم کے فاصلے پر لگے ٹاہلی  کے درخت کے نیچے جا بیٹھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیب سے دودھ کے حساب کی چھوٹی سی ڈائری نکال کر آج کے ناغے والے گھروں کا نشان لگاتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا۔ کیسی گھٹیا عورت ہے میرے کسی کام کی تو رہی  نہیں اب بھینسوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ انھیں بھی بیچ دو ، اوں ۔۔۔جو چار پیسے آتے ہیں اُن سے بھی جاؤں۔

Facebook Comments

قمر سبزواری
قمر سبزواری ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ عیسوی کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ملازت شروع کی جس کے ساتھ ثانوی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ صحافت میں گریجوئیشن کرنے کے بعد کالم نگاری اور افسانوی ااادب میں طبع آزمائی شروع کی۔ کچھ برس مختلف اخبارات میں کالم نویسی کے بعد صحافت کو خیر باد کہ کر افسانہ نگاری کا باقائدہ آغاز کیا۔ وہ گزشتہ دس برس سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “پھانے” کے نام سے شائع ہوا۔دو مزید مجموعے زیر ترتیب اور دو ناول زیر تصنیف ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply