ووٹ گواہی ہے۔۔۔۔نجم ولی خان

ان انتخابات میں وہ بہت کچھ نہیں جس کی آئین کی بالادستی اور جمہوریت کا تسلسل چاہنے والوں کو تلاش ہوتی ہے مگررجائیت پسندوں کو کچھ نہ کچھ تو ایسا ملتا ہے جس کی تعریف ہو سکتی ہے،وہ یوں ہے کہ ماضی کے بڑے بڑے انقلابی اس مرتبہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جو جمہوریت کو حرام سمجھا کرتے تھے اور اسلامی انقلاب کے نعرے لگایا کرتے تھے ۔ ان میں ایک طرف سب سے بڑا اور معتبر نام پروفیسر حافظ محمد سعید کا ہے تو دوسری طرف قبلہ حضرت خادم حسین رضوی ہیں، اول الذکر کا انتخابی نشان کرسی ہے تو موخرالذکر کاکرین ہے۔

ہم اپنا لٹریچر اٹھا کے دیکھیں تو ہمیں جمہوریت کے حرام ہونے کا سبق کثرت اورشدت کے ساتھ ملتا ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہر کی بیشتر مساجد کے باہر تحریک خلافت کے کارکن اپنے ہینڈ بل لے کر کھڑے ہوتے تھے جس میں اکثریت کی حکمرانی کو مختلف احکامات اورروایات کی مدد سے کفر قرار دیا جاتا تھا۔ ہمارے سامنے سورۃ انعام کی آیت رکھی جاتی تھی جس میں کہا گیا، ’اور اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کی بات ماننے لگے جوزمین میں رہتے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادیں گے، وہ تو اپنے خیال پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں‘۔ یہ آیت اپنے مفہوم میں واضح ہے مگر کیا اسے اس کلمہ گواکثریت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جو اپنے لئے حکمران کا انتخاب کر رہی ہو۔ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔ ایسی ریاست میں تو ہرگز نہیں جہاں آئین اللہ رب العزت کی حاکمیت اعلیٰ کی ضمانت دیتا ہو اور جس ریاست کو حاصل ہی اس لئے کیا گیا ہو کہ وہاں اسلام کو بطور دین نافذ کیا جائے گا۔ جب تیسرے خلیفۂ راشد کا چناو ہو رہا تھا تو اس وقت حضرت عبدالرحمان خود کو حاصل مینڈیٹ کے تحت گھروں اور گلی کوچوں میں جا کے ایک ایک فرد سے رائے پوچھ رہے تھے ۔ حضر ت عثمانؓ غنی کی خلافت کا فیصلہ ہی اس بنیاد پر ہوا تھا کہ لوگوں کی اکثریت کی یہ رائے تھی ورنہ حضرت علیؓ کے مقام اور رتبے سے کون انکاری تھا؟

ووٹ کا نظام مشاورت کا نظام ہے جس میں کسی بھی ریاست میں رہنے والوں سے ان کا مشورہ طلب کیا جاتا ہے۔سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہوا، ’ اور ( اہل ایمان وہ ہیں) جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا فیصلہ باہم مشورے سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے اسے خرچ کرتے ہیں‘۔اسلام اجتماعیت کا داعی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی سب سے اہم عبادت نماز بھی باجماعت ادا کرنے میں ہی فضیلت کی حامل ہے، اس عبادت میں بھی ایک سردار ( یعنی امام ) ہوتا ہے اور وہ نمازیوں کی رائے سے مقرر ہوتا ہے۔ ہم نے شورائیت کو جمہوریت جیسا ہی قرار دیا تواس کی وجہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’ جب تم میں سے بہتر لوگ تم میں امیر ہوں، تمہارے دولت مند بڑے دل والے ہوں اور تمہارے معاملات تمہارے درمیان مشورے سے طے ہوں توزمین کا اوپر کا حصہ تمہارے حق میں اس کے نیچے کے حصے ( یعنی قبر ) سے بہتر ہو گا‘۔

ووٹ کو مشاورت کے علاوہ شہادت قرار دیا گیا ہے یعنی ہم گواہی دیتے ہیں کہ ملک کا انتظام و انتصرام چلانے کا بہتر اہل اور حقدار کون ہے۔ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ ووٹ دینا لازمی نہیں ہے لیکن اگر اسے گواہی کے معنوں میں ہی لیا جائے تو سورۃ بقرہ کی آخری آیات میں سے ایک آیت ہے، ’ اور تم گواہی کو چھپایا نہ کرو اور جو شخص گواہی چھپا تا ہے تو یقیناًاس کا دل گنہگار ہے‘ ، سورۃ بقرہ میں ہی ارشاد ہوا، ’ اور حق کو باطل کے ساتھ مت ملاو اور حق کو مت چھپاو اگر جانتے ہو‘۔ اب سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دیا جائے اور کس کو نہ دیا جائے تواس کا فیصلہ امانت اور دیانت کے اصولوں کے تحت ہی کیا جا سکتا ہے کہ ہماری نظر میں کون سا شخص ایسا ہے جو اس بار کو اٹھانے کا زیادہ اہل ہے، اس کا کردار معاشرتی برائیوں کا شکار تو نہیں اورہمیں گواہی دیتے ہوئے اپنی رشتے داریوں اور مفادات کو سامنے نہیں رکھنا۔ سورۃ النساء میں فرمایا گیا، ’ اے ایمان والو تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے، محض اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہوجاو خواہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین یا تمہارے رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو چاہے جس کے خلاف گواہی ہے وہ مالدار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے‘۔ اسی مضمون کو سورۃ النساء میں ہی اس طرح بھی بیان کیاگیا کہ’ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں‘۔ اسی موضوع پر کہ ووٹ یعنی رائے کا اظہار مطالبے پر بھی نہ کیا جائے تو اس بارے حکم ملتا ہے، ’ کیا میں تمہیں نہ بتاوں کہ بہترین گواہ کون ہے، بہترین گواہ وہ شخص ہے جو گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کر دے‘۔

کیاابھی وہ موجود ہیں جو جمہوریت کو اکثریت کی اتباع کرنے کے نام پرگناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، وہ اسے اللہ رب العزت کاحاکمیت میں مقابلہ سمجھتے ہیں مگر ہیں تو اسی طرح کی خام خیالی اور فکری مغالطے کا شکار ہیں جس طرح یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمارا آجر ہی ہمارا رب ہے کہ وہ ہمیں تنخواہ دیتا ہے جس سے ہم اپنا گھر چلاتے ہیں، ہم ایسا نہیں سمجھتے تو ہمیں مشاورت اور شہادت کے نظام کے بارے فکری مغالطے پیدا کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دینی رہ نما اور دانشور اس سلسلے میں قوم کی بہتر رہ نمائی کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن بھی اپنے بے پناہ اختیارات اور بجٹ کے ساتھ اس مہم میں اپنا کردارادا کر سکتا ہے کہ اگر فیملی پلاننگ ڈپیارٹمنٹ کی طرف سے ایک مہم چلائی جا سکتی ہے تو ووٹ بارے کنفیوژن بھی معروف علمائے کرام کو اسی طرح سکرین پر لا کے دور کی جا سکتی ہے۔ہمارے دوستوں نے تصویر اور ویڈیو پر اجتہاد کر کے رائے بدلنے کی راہ نکالی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو جمہوریت کو حرام قرار دیتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو خود کش حملوں میں قتل کرتے تھے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کا بھی محض نام استعمال ہو رہا ہے، خیبرپختونخوا کے بم دھماکوں میں اے این پی اور تحریک انصاف کے دونوں امیدواروں کے قتل ہونے پر ان کے سیاسی و ذاتی لواحقین نے انکشاف کیا ہے کہ اس میں جمہوریت کو کفر کہنے والا دھڑا شریک نہیں، انہیں ’ اپنوں‘ نے ہی نقاب پہن کرقتل کیا ہے۔ یہ ایک صورتحال ہے جس کا ووٹ کی شرعی حیثیت اور مذہب کے اختلافی نکتے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ریاست میں اسلام کو خطرے میں نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ہے جہاں کلمہ گوغالب اکثریت میں ہیں۔آپ اپنے آئین کا مطالعہ بھی کریں تو وہ اللہ رب العزت کے اقتدار اعلیٰ کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔ خرابی ہمارے آئین اور نظرئیے میں نہیں اعمال میں ہے جہاں بہت سارے لوگ اختیارات کے زعم میں خدائی دعوے کرنے لگتے ہیں اور حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ ہمیں ووٹ کے ذریعے گواہی دینی ہے کہ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں چاہے اس کے پاس جتنی مرضی طاقت اور اختیارات ہی کیوں نہ ہوں، ہمارا آئین ان نمائندوں کو ہی اس اقتدار اعلیٰ کے استعمال کا عارضی اختیار دیتا ہے جنہیں ہم مشاورت اور شہادت کے اصولوں کے تحت منتخب کرتے ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply