ملبے کا مالک – موہن راکیش (ہندی افسانہ)

ساڑھے سات سال کے بعد وہ لوگ لاہور سے امرتسر آئے تھے۔ ہاکی کا میچ دیکھنے کا تو بہانہ تھا، انہیں زیادہ چاؤ ان گھروں اور بازاروں کو پھر سے دیکھنے کا تھا جو ساڑھے سات سال پہلے ان کے لیے پرائے ہو گئے تھے۔ ہر سڑک پر مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی ٹولی گھومتی نظر آ جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں اس انہماک کے ساتھ وہاں کی ہر چیز کو دیکھ رہی تھیں جیسے وہ شہر عام شہر نہ ہو کر ایک اچھا خاصا مرکزِ ثقل ہو۔تنگ بازاروں میں سے گزرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو پرانی چیزوں کی یاد دلا رہے تھے۔۔۔ دیکھ۔۔ فتح دینا، مصری بازار میں اب مصری کی دکانیں پہلے سے کتنی کم رہ گئی ہیں! اُس نکڑ پر سُکھّی بٹھیارن کی بھٹی تھی، جہاں اب وہ پان والا بیٹھا ہے۔ ۔۔ یہ نمک منڈی دیکھ لو، خان صاحب! یہاں کی ایک ایک لالائن وہ نمکین ہوتی ہے کہ بس۔۔!​

بہت دنوں کے بعد بازاروں میں طرے دار پگڑیاں اور لال ترکی ٹوپیاں نظر آ رہی تھیں۔ لاہور سے آئے مسلمانوں میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہیں تقسیم کے وقت مجبور ہو کر امرتسر سے جانا پڑا تھا۔ ساڑھے سات سال میں آئی ناگزیر تبدیلیوں کو دیکھ کر کہیں ان کی آنکھوں میں حیرانی بھر جاتی اور کہیں افسوس گھِر آتا۔۔ واللہ! کٹرا جئے مل سنگھ اتنا چوڑا کیسے ہو گیا؟ کیا اس طرف کے سب کے سب مکان جل گئے؟۔۔۔ یہاں حکیم آصف علی کی دکان تھی نا؟ اب یہاں ایک موچی نے قبضہ کر رکھا ہے۔​اور کہیں کہیں ایسے بھی جملے سنائی دے جاتے۔۔ ولی، یہ مسجد جوں کی توں کھڑی ہے؟ ان لوگوں نے اس کا گوردوارا نہیں بنا دیا؟​جس راستے سے بھی پاکستانیوں کی ٹولی گذرتی، شہر کے لوگ تجسس سے اُس طرف دیکھتے رہتے۔ کچھ لوگ اب بھی مسلمانوں کو آتے دیکھ کر خوف زدہ سے راستے سے ہٹ جاتے، جبکہ دوسرے آگے بڑھ کر ان سے بغل گیر ہونے لگتے۔ زیادہ تر وہ آنے والوں سے ایسے ایسے سوال پوچھتے کہ آج کل لاہور کا کیا حال ہے؟ انارکلی میں اب پہلے جتنی رونق ہوتی ہے یا نہیں؟ سنا ہے، شاہالمی گیٹ کا بازار پورا نیا بنا ہےِ؟ کرشن نگر میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی؟ وہاں کا رشوت پورہ کیا واقعی رشوت کے پیسے سے بنا ہے؟ کہتے ہیں، پاکستان میں اب برقع بالکل اڑ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے؟۔۔۔ ان سوالوں میں اتنی اپنائیت جھلکتی تھی کہ لگتا تھا، لاہور ایک شہر نہیں، ہزاروں لوگوں کا سگا رشتے دار ہے، جس کے حال جاننے کے لیے وہ متجسس ہیں۔ لاہور سے آئے لوگ اُس دن شہر بھر کے مہمان تھے جن سے مل کر اور باتیں کر کے لوگوں کو خواہ مخواہ خوشی کا احساس ہوتا تھا۔​

بازار بانساں امرتسر کا ایک اجڑا سا بازار ہے، جہاں تقسیم سے پہلے زیادہ تر نچلے طبقے کے مسلمان رہتے تھے۔ وہاں زیادہ تر بانسوں اور شہتیروں کی ہی دکانیں تھیں جو سب کی سب ایک ہی آگ میں جل گئی تھیں۔ بازار بانساں کی وہ آگ امرتسر کی سب سے بھیانک آگ تھی جس سے کچھ دیر کے لیے تو سارے شہر کے جل جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔ بازار بانساں کے آس پاس کے کئی محلوں کو تو اُس آگ نے اپنی لپیٹ میں لے ہی لیا تھا۔ خیر، کسی طرح وہ آگ قابو میں آ گئی تھی، پر اُس میں مسلمانوں کے ایک ایک گھر کے ساتھ ہندوؤں کے بھی چار چار، چھ چھ گھر جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ اب ساڑھے سات سال میں اُن میں سے کئی عمارتیں پھر سے کھڑی ہو گئی تھیں، مگر جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر اب بھی موجود تھے۔ نئی عمارتوں کے بیچ بیچ وہ ملبے کے ڈھیر ایک عجیب ماحول پیش کرتے تھے۔​۔۔۔۔بازار بانساں میں اُس دن بھی چہل پہل نہیں تھی کیونکہ اُس بازار کے زیادہ تر باشندے تو اپنے مکانوں کے ساتھ ہی شہید ہو گئے تھے، اور جو بچ کر چلے گئے تھے، اُن میں سے شاید کسی میں بھی لوٹ کر آنے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ صرف ایک دبلا پتلا بڈھا مسلمان ہی اُس دن اُس ویران بازار میں آیا اور وہاں کی نئی اور جلی ہوئی عمارتوں کو دیکھ کر جیسے بھول بھلیاں میں پڑ گیا۔ بائیں ہاتھ کو جانے والی گلی کے پاس پہنچ کر اس کے پیر اندر مڑنے کو ہوئے، مگر پھر وہ ہچکچا کر وہاں باہر ہی کھڑا رہ گیا۔ جیسے اسے یقین نہیں ہوا کہ یہ وہی گلی ہے یا نہیں، جس میں وہ جانا چاہتا ہے۔ گلی میں ایک طرف کچھ بچے کیڑا کیڑا کھیل رہے تھے اور کچھ فاصلے پر دو عورتیں اونچی آواز میں چیختی ہوئی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہی تھیں۔​

سب کچھ بدل گیا، مگر بولیاں نہیں بدلیں۔۔۔ بڈھے مسلمان نے دھیمی آواز میں اپنے سے کہا اور چھڑی کا سہارا لیے کھڑا رہا۔ اُس کے گھٹنے پاجامے سے باہر کو نکل رہے تھے۔ گھٹنوں سے تھوڑا اوپر شیروانی میں تین چار پیوند لگے تھے۔ گلی سے ایک بچہ روتا ہوا باہر آ رہا تھا۔ اُس نے اسے پچکار کر پکارا، اِدھر آ، بیٹے، آ اِدھر! دیکھ، تجھے چِجّی دیں گے، آ!۔۔۔۔ اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اسے دینے کے لیے کوئی چیز ڈھونڈنے لگا۔ بچہ پل بھر کے لیے چپ کر گیا، لیکن پھر اس نے ہونٹ بسور لیے اور رونے لگا۔ ایک سولہ سترہ برس کی لڑکی گلی کے اندر سے دوڑتی ہوئی آئی اور بچے کی بانہہ پکڑ کر اُسے گھسیٹتی ہوئی گلی میں لے چلی۔ بچہ رونے کے ساتھ ساتھ اب اپنی بانہہ چھڑانے کے لیے مچلنے لگا۔ لڑکی نے اسے بانہوں میں اٹھا کر اپنے ساتھ چپکا لیا اور اس کا منہ چومتی ہوئی بولی، چپ کر، میرا ویر! روئے گا تو تجھے وہ مسلمان پکڑ کر لے جائے گا، میں واری جاؤں، چپ کر!​

بڈھے مسلمان نے بچے کو دینے کے لیے جو پیسا نکالا تھا، وہ واپس جیب میں رکھ لیا۔ سر سے ٹوپی اتار کر اس نے وہاں تھوڑا کھجایا اور ٹوپی بغل میں دبا لی۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور گھٹنے ذرا ذرا کانپ رہے تھے۔ اس نے گلی کے باہر کی بند دکان کے تختے کا سہارا لے لیا اور ٹوپی پھر سے سر پر لگا لی۔ گلی کے سامنے، جہاں پہلے اونچے اونچے شہتیر رکھے رہتے تھے، وہاں اب ایک تین منزلہ مکان کھڑا تھا۔ سامنے بجلی کے تار پر دو موٹی موٹی چیلیں بالکل بے حرکت ہو کر بیٹھی تھیں۔ بجلی کے کھمبے کے پاس تھوڑی دھوپ تھی۔ وہ کئی پل دھوپ میں اڑتے ہوئے ذروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے منہ سے نکلا،یا مالک!​

ایک نوجوان چابیوں کا گچھا گھماتا ہوا گلی کی جانب آیا اور بڈھے کو کھڑے دیکھ کر اس نے رک کر پوچھا،۔۔۔کہیے، میاں جی، یہاں کس لیے کھڑے ہیں؟​
بڈھے مسلمان کی چھاتی اور بانہوں میں ہلکی سی کپکپی ہوئی اور اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر نوجوان کو دھیان سے دیکھتے ہوئے پوچھا،
بیٹے، تیرا نام منوری ہے نا؟
​نوجوان نے چابیوں کا گچھا ہلانا بند کر کے مٹھی میں لے لیا اور تعجب کے ساتھ پوچھا،آپ کو میرا نام کیسے پتا ہے؟
​ساڑھے سات سال پہلے تُو بیٹے، اتنا سا تھا۔۔۔ کہہ کر بڈھے نے مسکرانے کی کوشش کی۔​
​آپ آج پاکستان سے آئے ہیں؟منوری نے پوچھا۔​
​ ہاں، مگر پہلے ہم اسی گلی میں رہتے تھے، بڈھے نے کہا،میرا لڑکا چراغ دین تم لوگوں کا درزی تھا۔ تقسیم سے چھ مہینے پہلے ہم لوگوں نے یہاں اپنا نیا مکان بنایا تھا۔​
او، غنی میاں!۔۔۔۔ منوری نے پہچان کر کہا۔​
​ہاں، بیٹے، میں تم لوگوں کا غنی میاں ہوں۔ چراغ اور اس کے بیوی بچے تو نہیں مل سکتے، مگر میں نے کہا کہ ایک بار مکان کی صورت ہی دیکھ لوں! اور اس نے ٹوپی اتار کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آنسوؤں کو بہنے سے روک لیا۔​
​آپ تو شاید کافی پہلے ہی یہاں سے چلے گئے تھے، منوری نے آواز میں ہمدردی لا کر کہا۔​
​ہاں، بیٹے، یہ میری بدبختی تھی کہ پہلے اکیلا نکل کر چلا گیا۔ یہاں رہتا، تو ان کے ساتھ میں بھی۔۔۔اور کہتے کہتے اُسے احساس ہو آیا کہ اُسے ایسی بات نہیں کہنی چاہیے۔ اُس نے بات منہ میں روک لی، مگر آنکھ میں آئے ہوئے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا۔​
​چھوڑو غنی میاں، اب بیتی باتوں کو سوچنے میں کیا رکھا ہے؟ منوری نے غنی کی بانہہ پکڑ کر کہا،چلو، تمہیں تمہارا گھر دکھا دوں۔​​

گلی میں خبر اس روپ میں پھیلی تھی کہ گلی کے باہر ایک مسلمان کھڑا ہے، جو رام داسی کے لڑکے کو اٹھانے جا رہا تھا۔۔۔ اس کی بہن اسے پکڑ کر گھسیٹ لائی، نہیں تو مسلمان اسے لے گیا ہوتا۔ یہ خبر پاتے ہی جو عورتیں گلی میں پیچھے پیڑھے بچھا کر بیٹھی تھیں، وہ اپنے اپنے پیڑھے اٹھا کرگھروں کے اندر چلی گئیں۔ گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں کو بھی ان عورتوں نے پکار پکار کر گھروں میں بلا لیا۔ منوری جب غنی کو لے کر گلی میں آیا، تو گلی میں ایک پھیری والا رہ گیا تھا، یا رکھّا پہلوان جو کنوئیں پر اُگے پیپل کے نیچے بکھر کر سویا تھا۔ ہاں، گھروں کی کھڑکیوں میں سے اور کواڑوں کے پیچھے سے کئی چہرے گلی میں جھانک رہے تھے۔ منوری کے ساتھ غنی کو آتے دیکھ کر ان میں ہلکی ہلکی چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ داڑھی کے سب بال سفید ہو جانے کے باوجود چراغ دین کے باپ عبد الغنی کو پہچاننے میں لوگوں کو دقت نہیں ہوئی۔​

وہ تھا تمہارا مکان،۔۔۔۔۔ منوری نے دور سے ایک ملبے کی طرف اشارہ کیا۔ غنی پل بھر ٹھٹک کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس طرف دیکھتا رہا۔ چراغ اور اس کے بیوی بچوں کی موت کو وہ کافی پہلے قبول کر چکا تھا۔ مگر اپنے نئے مکان کو اس شکل میں دیکھ کر اسے جو جھرجھری ہوئی، اس کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔ اس کی زبان پہلے سے اور خشک ہو گئی اور گھٹنے بھی زیادہ کانپنے لگے۔​
وہ ملبہ؟۔۔۔۔ اس نے بے یقینی کے ساتھ پوچھ لیا۔​
منوری نے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ کو دیکھا۔ اس کی بانہہ کو تھوڑا اور سہارا دے کر ٹھہری ہوئی آواز میں جواب دیا،۔۔۔۔تمہارا مکان اُنہیں دنوں جل گیا تھا۔​
غنی چھڑی کے سہارے چلتا ہوا کسی طرح ملبے کے پاس پہنچ گیا۔ ملبے میں اب مٹی ہی مٹی تھی جس میں جہاں تہاں ٹوٹی اور جلی ہوئی اینٹیں باہر جھانک رہی تھیں۔ لوہے اور لکڑی کا سامان اس میں سے کب کا نکالا جا چکا تھا۔ صرف ایک جلے ہوئے دروازے کا چوکھٹ نہ جانے کیسے بچا رہ گیا تھا۔ پیچھے کی طرف دو جلی ہوئی الماریاں تھیں جن کی کالک پر اب سفیدی کی ہلکی ہلکی تہہ ابھر آئی تھی۔ اس ملبے کو پاس سے دیکھ کر غنی نے کہا،۔۔۔۔یہ باقی رہ گیا ہے، یہ؟۔۔۔۔ اور اس کے گھٹنے جیسے جواب دے گئے اور وہ وہیں جلے ہوئے چوکھٹ کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پل بھر بعد اس کا سر بھی چوکھٹ سے جا لگا اور اس کے منہ سے بلکنے کی سی آواز نکلی،۔۔۔۔ہائے اوئے چراغ دینا!​
جلے ہوئے کواڑ کا وہ چوکھٹ ملبے میں سے سر نکالے ساڑھے سات سال کھڑا تو رہا تھا، پر اس کی لکڑی بری طرح بھربھرا گئی تھی۔ غنی کے سر کے چھونے سے اس کے کئی ریشے جھڑک کر آس پاس بکھر گئے۔ کچھ ریشے غنی کی ٹوپی اور بالوں پر آ گرے۔ ان ریشوں کے ساتھ ایک کینچوا بھی نیچے گرا جو غنی کے پیر سے چھ آٹھ انچ دور نالی کے ساتھ ساتھ بنی اینٹوں کی پٹری پر اِدھر اُدھر سرسرانے لگا۔ وہ چھپنے کے لیے سوراخ ڈھونڈتا ہوا ذرا سا سر اٹھاتا، پر کوئی جگہ نہ پا کر دو ایک بار سر پٹکنے کے بعد دوسری طرف مڑ جاتا۔​

کھڑکیوں سے جھانکنے والے چہروں کی تعداد اب پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔ ان میں چہ مگوئیاں چل رہی تھیں کہ آج کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔۔۔ چراغ دین کا باپ غنی آ گیا ہے، اس لیے ساڑھے سات سات پہلے کا وہ سارا واقعہ آج اپنے آپ کھل جائے گا۔ لوگوں کو لگ رہا تھا جیسے وہ ملبہ ہی غنی کو ساری کہانی سنا دے گا کہ شام کے وقت چراغ اوپر کے کمرے میں کھانا کھا رہا تھا جب رکھّے پہلوان نے اسے نیچے بلایا۔ کہا کہ وہ ایک منٹ آ کر اس کی بات سن لے۔ پہلوان ان دنوں گلی کا بادشاہ تھا۔ وہاں کے ہندوؤں پر ہی اس کا کافی دبدبہ تھا، چراغ تو خیر مسلمان تھا۔ چراغ ہاتھ کا لقمہ بیچ میں ہی چھوڑ کر نیچے اتر آیا۔ اس کی بیوی زبیدہ اور دونوں لڑکیاں، کشور اور سلطانہ، کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے لگیں۔ چراغ نے ڈیوڑھی سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ پہلوان نے اسے قمیض کے کالر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور گلی میں گرا کر اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ چراغ اس کا چھرے والا ہاتھ پکڑ کر چلایا، ۔۔۔۔نا، رکھّے پہلوان، مجھے مت مار! ہائے، کوئی مجھے بچاؤ! زبیدہ! مجھے بچا!۔۔۔۔ اور اوپر سے زبیدہ، کشور اور سلطانہ بھی مایوس آواز میں چلائیں اور چیختی ہوئی نیچے ڈیوڑھی کی طرف دوڑیں۔ رکھّے کے ایک شاگرد نے چراغ کی جدوجہد کرتی بانہیں پکڑ لیں اور رکھّا اس کی رانوں کو اپنے گھٹنوں سے دبائے ہوئے بولا، چیختا کیوں ہے، بھیَن کے۔۔۔ تجھے میں پاکستان دے رہا ہوں، لے پاکستان! اور جب تک زبیدہ، کشور اور سلطانہ نیچے پہنچتیں، چراغ کو پاکستان مل چکا تھا۔​

آس پاس کے گھروں کی کھڑکیاں تب بند ہو گئی تھیں۔ جو لوگ اس منظر کے گواہ تھے، انہوں نے دروازے بند کر کے اپنے کو اس واقعے کی جوابدہی سے آزاد کر لیا تھا۔ بند کواڑوں میں بھی انہیں دیر تک زبیدہ، کشور اور سلطانہ کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ رکھّے پہلوان اور اس کے ساتھیوں نے انہیں بھی اسی رات پاکستان دے کر وداع کر دیا، مگر دوسرے طویل راستے سے۔ ان کی لاشیں چراغ کے گھر میں نہ مل کر بعد میں نہر کے پانی میں پائی گئیں۔۔۔۔۔​
​دو دن چراغ کے گھر کی چھان بین ہوتی رہی تھی۔ جب اس کا سارا سامان لوٹا جا چکا، تو نہ جانے کس نے اس گھر کو آگ لگا دی تھی۔ رکھّے پہلوان نے تب قسم کھائی تھی کہ وہ آگ لگانے والے کو زندہ زمین میں گاڑ دے گا کیونکہ اس مکان پر نظر رکھ کر ہی اس نے چراغ کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے اس مکان کو پاک کرنے کے لیے ہَوَن کا سامان بھی لا رکھا تھا۔ مگر آگ لگانے والے کا پتا نہیں چل سکا، اسے زندہ گاڑنے کی نوبت تو بعد میں آتی۔ اب ساڑھے سات سال سے رکھّا اس ملبے کو اپنی جائیداد سمجھتا آ رہا تھا۔ جہاں نہ وہ کسی کو گائے بھینس باندھنے دیتا تھا اور نہ ہی خوانچہ لگانے دیتا تھا۔ اس ملبے سے بنا اس کی اجازت کے کوئی ایک اینٹ بھی نہیں نکال سکتا تھا۔​

لوگ امید کر رہے تھے کہ یہ ساری کہانی ضرور کسی نہ کسی طرح غنی تک پہنچ جائے گی۔۔ جیسے ملبے کو دیکھ کر ہی اسے سارے واقعے کا پتا چل جائے گا۔ اور غنی ملبے کی مٹی کو ناخنوں سے کھود کھود کر اپنے اوپر ڈال رہا تھا اور دروازے کے چوکھٹ کو بانہہ میں لیے ہوئے رو رہا تھا،
بول، چراغ دینا، بول! تو کہاں چلا گیا، اوئے؟ او کشور! او سلطانہ! ہائے، میرے بچے اوئے! غنی کو پیچھے کیوں چھوڑ دیا، اوئے!​
​اور بھربھرے کواڑ سے لکڑی کے ریشے جھڑتے جا رہے تھے۔​
پیپل کے نیچے سوئے ہوئے رکھّے پہلوان کو جانے کسی نے جگا دیا، یا وہ خود ہی جاگ گیا۔ یہ جان کر کہ پاکستان سے عبد الغنی آیا ہے اور اپنے مکان کے ملبے پر بیٹھا ہے، اسے گلے میں تھوڑا جھاگ اٹھ آیا جس سے اسے کھانسی آ گئی اور اس نے کنوئیں کے فرش پر تھوک دیا۔ ملبے کی طرف دیکھ کر اس کی چھاتی سے دھونکنی کی سی آواز نکلی اور اس کا نچلا ہونٹ تھوڑا باہر کو پھیل آیا۔​
غنی اپنے ملبے پر بیٹھا ہے،۔۔۔۔ اس کے شاگرد لچھّے پہلوان نے اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔​
​ملبہ اُس کا کیسے ہے؟ ملبہ ہمارا ہے! پہلوان نے جھاگ سے گھرگھرائی آواز میں کہا۔​
​مگر وہ وہاں بیٹھا ہے،لچھے نے آنکھوں میں ایک پراسرار اشارہ لا کر کہا۔​
​بیٹھا ہے، بیٹھا رہے۔ تو چلم لا!۔۔۔۔ رکھّے کی ٹانگیں تھوڑی پھیل گئیں اور اس نے اپنی ننگی رانوں پر ہاتھ پھیرا۔​
​منوری نے اگر اسے کچھ بتا وتا دیا تو۔۔۔؟ لچھے نے چلم بھرنے کے لیے اٹھتے ہوئے اسی پراسرار ڈھنگ سے کہا۔​
​منوری کی کیا شامت آئی ہے؟۔۔۔​
​لچھا چلا گیا۔​
​کنوئیں پر پیپل کی کئی پرانی پتیاں بکھری تھیں۔ رکھّا ان پتیوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں مسلتا رہا۔ جب لچھے نے چلم کے نیچے کپڑا لگا کر چلم اس کے ہاتھ میں دی، تو اس نے کش کھینچتے ہوئے پوچھا،اور تو کسی سے غنی کی بات نہیں ہوئی؟​
​نہیں۔۔۔۔۔
لے،۔۔۔۔ اور اس نے کھانستے ہوئے چلم لچھے کے ہاتھ میں دے دی۔ لچھے نے دیکھا کہ منوری غنی کی بانہہ پکڑے ملبے کی طرف سے آ رہا ہے۔ وہ اکڑوں ہو کر چلم کے لمبے لمبے کش کھینچنے لگا۔ اس کی آنکھیں آدھے پل رکھّے کے چہرے پر ٹکتیں اور آدھے پل غنی کی طرف لگی رہتیں۔​
​منوری غنی کی بانہہ تھامے اس سے ایک قدم آگے چل رہا تھا۔ جیسے اس کی کوشش ہو کہ غنی کنوئیں کے پاس سے بنا رکھّے کو دیکھے ہی نکل جائے۔ مگر رکھّا جس طرح بکھر کر بیٹھا تھا، اس سے غنی نے اسے دور سے ہی دیکھ لیا۔ کنوئیں کے پاس پہنچتے نہ پہنچتے اس کی دونوں بانہیں پھیل گئیں اور اس نے کہا،۔۔۔۔۔
رکھّے پہلوان!​

رکھّے نے گردن اٹھا کر اور آنکھیں ذرا چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔ اس کے گلے میں مبہم سی گھرگھراہٹ ہوئی، پر وہ بولا نہیں۔​
​رکھّے پہلوان، مجھے پہچانا نہیں؟ غنی نے بانہیں نیچی کر کے کہا،۔۔۔۔میں غنی ہوں، عبد الغنی، چراغ دین کا باپ!​​
پہلوان نے مشکوک نظر سے اس کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا۔ عبد الغنی کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر ایک چمک سی آ گئی تھی۔ سفید داڑھی کے نیچے اس کے چہرے کی جھریاں بھی کچھ پھیل گئی تھیں۔ رکھّے کا نچلا ہونٹ پھڑکا۔ پھر اس کی چھاتی سے بھاری سی آواز نکلی، سنا، غنیا!​
غنی کی بانہیں پھر پھیلنے کو ہوئیں، پر پہلوان پر کوئی ردِ عمل نہ دیکھ کر اسی طرح رہ گئیں۔ وہ پیپل کے تنے کا سہارا لے کر کنوئیں کی سِل پر بیٹھ گیا۔​
​اوپر کھڑکیوں میں چہ مگوئیاں تیز ہو گئیں کہ اب دونوں آمنے سامنے آ گئے ہیں، تو بات ضرور کھلے گی۔۔ پھر ہو سکتا ہے دونوں میں گالی گلوچ بھی ہو۔ ۔۔ اب رکھّا غنی کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اب وہ دن نہیں رہے۔۔۔ بڑا ملبے کا مالک بنتا تھا!۔۔ اصل میں ملبہ نہ اس کا ہے، نہ غنی کا۔ ملبہ تو سرکار کی ملکیت ہے! مردود کسی کو وہاں گائے کا کھونٹا تک نہیں لگانے دیتا!۔۔۔ منوری بھی ڈرپوک ہے۔ اِس نے غنی کو بتا کیوں نہیں دیا کہ رکھّے نے ہی چراغ اور اس کے بیوی بچوں کو مارا ہے!۔۔ رکھّا آدمی نہیں سانڈ ہے! دن بھر سانڈ کی طرح گلی میں گھومتا ہے!۔۔ غنی بے چارا کتنا دبلا ہو گیا! داڑھی کے سارے بال سفید ہو گئے ہیں!۔۔۔​

غنی نے کنوئیں کی سِل پر بیٹھ کر کہا،دیکھ رکھّے پہلوان، کیا سے کیا ہو گیا ہے! بھرا پورا گھر چھوڑ کر گیا تھا اور آج یہاں یہ مٹی دیکھنے آیا ہوں! بسے گھر کی آج یہی نشانی رہ گئی ہے! تو سچ پوچھے، تو میرا یہ مٹی بھی چھوڑ کر جانے کو جی نہیں کرتا! اور اس کی آنکھیں پھر چھلچھلا آئیں۔​
​پہلوان نے اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں اور انگوچھا کنوئیں کی منڈیر سے اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا۔ لچھے نے چلم اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ کش کھینچنے لگا۔​
​تُو بتا، رکھّے، یہ سب ہوا کس طرح؟ غنی کسی طرح اپنے آنسو روک کر بولا،۔۔۔۔تم لوگ اُس کے پاس تھے۔ سب میں بھائی بھائی کی سی محبت تھی۔ اگر وہ چاہتا، تو تم میں سے کسی کے گھر میں نہیں چھپ سکتا تھا؟ اُس میں اتنی بھی سمجھداری نہیں تھی؟​

ایسا ہی ہے،۔۔۔۔ رکھّے کو خود لگا کہ اس کی آواز میں ایک غیر فطری سی گونج ہے۔ اس کے ہونٹ گاڑھی رال سے چپک گئے تھے۔ مونچھوں کے نیچے سے پسینہ اس کے ہونٹ پر آ رہا تھا۔ اسے ماتھے پر کسی چیز کا دباؤ محسوس ہو رہا تھا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی سہارا چاہ رہی تھی۔​
پاکستان میں تم لوگوں کے کیا حال ہیں؟۔۔۔۔ اُس نے پوچھا۔ اُس کے گلے کی نسوں میں ایک تناؤ آ گیا تھا۔ اس نے انگوچھے سے بغلوں کا پسینہ پونچھا اور گلے کا جھاگ منہ میں کھینچ کر گلی میں تھوک دیا۔​
​میں کیا حال بتاؤں، رکھّے،۔۔۔۔ غنی دونوں ہاتھوں سے چھڑی پر بوجھ ڈال کر جھکتا ہوا بولا،میرا حال تو میرا خدا ہی جانتا ہے۔ چراغ وہاں ساتھ ہوتا، تو اور بات تھی۔ ۔۔ میں نے اسے کتنا سمجھایا تھا کہ میرے ساتھ چلا چل۔ پر وہ ضد پر اڑا رہا کہ نیا مکان چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ یہ اپنی گلی ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بھولے کبوتر نے یہ نہیں سوچا کہ گلی میں خطرہ نہ ہو، پر باہر سے تو خطرہ آ سکتا ہے! مکان کی رکھوالی کے لیے چاروں نے اپنی جان دے دی!۔۔ رکھّے، اُسے تیرا بہت بھروسا تھا! کہتا تھا کہ رکھّے کے رہتے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مگر جب جان پر بن آئی، تو رکھّے کے روکے بھی نہ رکی۔​

رکھّے نے سیدھا ہونے کی کوشش کی کیونکہ اس کی ریڑھ کی ہڈی بہت درد کر رہی تھی۔ اپنی کمر اور رانوں کے جوڑ پر اسے سخت دباؤ محسوس ہو رہا تھا۔ پیٹ کی انتڑیوں کے پاس سے جیسے کوئی چیز اس کی سانس کو روک رہی تھی۔ اُس کا سارا جسم پسینے سے بھیگ گیا تھا اور اُس کے پیروں کے تلوؤں میں چنچناہٹ ہو رہی تھی۔ بیچ بیچ میں نیلی پھلجھڑیاں سی اوپر سے اترتیں اور تیرتی ہوئی اس کی آنکھوں کے سامنے سے نکل جاتیں۔ اسے اپنی زبان اور ہونٹوں کے بیچ ایک فاصلہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے انگوچھے سے ہونٹوں کے کونوں کو صاف کیا۔ ساتھ ہی اس کے منہ سے نکلا،۔۔۔۔۔ہے پربھو سچیا، تو ہی ہے، تو ہی ہے، توہی ہے!

غنی نے دیکھا کہ پہلوان کے ہونٹ سوکھ رہے ہیں اور اس کی آنکھوں کے گرد دائرے گہرے ہو گئے ہیں۔ وہ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا، ۔۔۔۔جی ہلکا نہ کر، رکھّیا! جو ہونی تھی، سو ہو گئی۔ اُسے اب کوئی لوٹا تھوڑے ہی سکتا ہے! خدا نیک کی نیکی بنائے رکھے اور بد کی بدی معاف کرے! میں نے آ کر تم لوگوں کو دیکھ لیا، سو سمجھوں گا کہ چراغ کو دیکھ لیا۔ اللہ تمہیں صحت مند رکھے! جیتے رہو اور خوشیاں دیکھو!
اور وہ چھڑی کے سہارے اٹھ کھڑا ہوا۔ چلتے ہوئے اس نے کہا،اچھا رکھّے پہلوان، یاد رکھنا!​
​رکھّے کے گلے سے مدھم سی آواز نکلی۔ انگوچھا لیے ہوئے اُس کے دونوں ہاتھ جڑ گئے۔ غنی حسرت بھری نظر سے آس پاس دیکھتا ہوا دھیرے دھیرے گلی سے باہر چلا گیا۔​
​اوپر کھڑکیوں میں تھوڑی دیر چہ مگوئیاں چلتی رہیں کہ منوری نے گلی سے باہر نکل کر ضرور غنی کو سب کچھ بتا دیا ہوگا۔۔ غنی کے سامنے رکھّے کا تالو کس طرح خشک ہو گیا تھا!۔۔۔ رکھّا اب کس منہ سے لوگوں کو ملبے پر گائے باندھنے سے روکے گا؟ بے چاری زبیدہ! کتنی اچھی تھی وہ۔ کبھی کسی سے برا بول نہیں بولی۔۔ رکھّے مردود کا گھر، نہ گھاٹ، اِسے کس ماں بہن کا لحاظ تھا؟​

Advertisements
julia rana solicitors

تھوڑی دیر میں عورتیں گھروں سے گلی میں اتر آئیں۔ بچے گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنے لگے اور دو بارہ تیرہ سال کی لڑکیاں کسی بات پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئیں۔​رکھّا گہری شام تک کنوئیں پر بیٹھا کھنکھارتا اور چلم پھونکتا رہا۔ کئی لوگوں نے وہاں گذرتے ہوئے اس سے پوچھا،رکھّے شاہ، سنا ہے آج غنی پاکستان سے آیا تھا؟
ہاں، آیا تھا،۔۔۔۔رکھّے نے ہر بار ایک ہی جواب دیا۔​
​پھر؟
پھر کچھ نہیں۔ چلا گیا۔
رات ہونے پر رکھّا روز کی طرح گلی کے باہر بائیں طرف کی دکان کے تختے پر آ بیٹھا۔ روز وہ راستے سے گذرنے والے متعارف لوگوں کو آواز دے دے کر پاس بلا لیتا تھا اور اُنہیں سٹے کے گر اور صحت کے نسخے بتاتا رہتا تھا۔ مگر اس دن وہ وہاں بیٹھا لچھّے کو اپنی ویشنو دیوی کی اُس یاترا کا احوال سناتا رہا جو اس نے پندرہ سال پہلے کی تھی۔ لچھے کو وداع کر کے وہ گلی میں آیا، تو ملبے کے پاس لَوکُو پنڈت کی بھینس کو دیکھ کر وہ عادت کے مطابق اسے دھکے دے دے کر ہٹانے لگا، تت تت تت۔۔۔ تت تت!​​بھینس کو ہٹا کر وہ سستانے کے لیے ملبے کی چوکھٹ پر بیٹھ گیا۔ گلی اس وقت بالکل سنسان تھی۔ کمیٹی کی کوئی بتی نہ ہونے سے وہاں شام سے ہی اندھیرا ہو جاتا تھا۔ ملبے کے نیچے نالی کا پانی ہلکی آواز کرتا بہہ رہا تھا۔ رات کی خاموشی کو کاٹتی ہوئی کئی طرح کی ہلکی ہلکی آوازیں ملبے کی مٹی میں سے سنائی دے رہی تھیں۔ چیو چیو چیو۔۔۔ چک چک چک۔۔۔ کررر، رررر، ری ری ری ری ری، چِرررررر۔۔۔۔ ایک بھٹکا ہوا کوا نہ جانے کہاں سے اڑ کر اس چوکھٹ پر آ بیٹھا۔ اِس سے لکڑی کے کئی ریشے اِدھر اُدھر چھِترا گئے۔ کوے کے وہاں بیٹھتے نہ بیٹھتے ملبے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا کتا غرا کر اٹھا اور زور زور سے بھونکنے لگا۔۔ وؤ، اؤ، وؤ!
کوا کچھ دیر سہما سا چوکھٹ پر بیٹھا رہا، پھر پر پھڑپھڑاتا کنوئیں کے پیپل پر چلا گیا۔ کوے کے اڑ جانے پر کتا اور نیچے اتر آیا اور پہلوان کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگا۔ پہلوان اسے ہٹانے کے لیے بھاری آواز میں بولا،۔۔۔۔دُر دُر دُر۔۔ دُرے!​
مگر کتا اور پاس آ کر بھونکنے لگا۔ وؤ، اؤ، وؤ، وؤ، وؤ، وؤ۔۔!​
​پہلوان نے ایک ڈھیلا اٹھا کر کتے کی طرف پھینکا۔ کتا تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، پر اس کا بھونکنا بند نہیں ہوا۔ پہلوان کتے کو ماں کی گالی دے کر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دھیرے دھیرے جا کر کنوئیں کی سِل پر لیٹ گیا۔ اس کے وہاں سے ہٹتے ہی کتا گلی میں اتر آیا اور کنوئیں کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگا۔ کافی دیر بھونکنے کے بعد جب اسے گلی میں کوئی جاندار چلتا پھرتا نظر نہیں آیا، تو وہ ایک بار کان جھٹک کر ملبے پر لوٹ گیا اور وہاں کونے میں بیٹھ کر غرانے لگا۔​

(موہن راکیش)​

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply