پیچیدہ عائلی زندگی کے منفی اثرات اور تدارک

چند دن قبل حضرو شہر کے نواح میں لرزہ خیز واردات ہوتی ہے،ایک ماں اپنے ہاتھوں سے اپنے تین معصوم بچوں کو کنویں میں پھینک کر موقع پرخود بھی کنویں میں چھلانگ لگا دیتی ہے ماں اور ایک بیٹی زندہ بچا لی جاتی ہے جبکہ دو معصوم بچے اپنی ماں کے ہاتھوں ظلم کی بھینٹ چڑھ کر موت کی ابدی نیند سو جاتے ہیں ۔یہ ایک واقعہ نہیں ہے ،اس جیسے متعدد واقعات ہمارے معاشرے میں آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ایک ماں کیونکر اتنی ظالم ہوسکتی ہے ؟ اس واقعےکی بنیاد پر مختلف قسم کی قیاس آرائیاں ہوتی ہیں. کچھ لوگ غربت کو وجہ قرار دیتےہیں. بچوں کا باپ رکشا ڈرائیور تھا عید قریب تھی اور شاپنگ کے لیئے جھگڑا ہوا تھا، ایک طبقہ گھریلو ناچاکی، ساس کا رویہ ،شوہر کی تو تکار اس سانحے کی وجہ قرار دیتا ہے جبکہ کچھ لوگ اس خونی اقدام کا سبب دیورانی جیٹھانی کی روایتی چپقلش قرار دیتے ہیں.کچھ خبریں مذکورہ عورت کے ذہنی توازن پر سوالیہ نشان اٹھا تی ہیں جبکہ عورت کا خاوند اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ اس کی بیوی کبھی ذہنی معذور بھی تھی۔

ان سانحات کی وجوہات کچھ بھی ہوں بات ختم ایک نقطے پر ہوتی ہے اور وہ ہے ہمارا پیچیدہ معاشرتی ڈھانچہ اور اس سے جڑے مشترکہ خاندانی نظام کے مضمرات. ہم سماجی طور پر ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں صحت مندانہ مکالمے کی شدید کمی ہے لوگ اندر ہی اندر گھٹ کر جذبات کچلنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ وہ کسی مناسب پلیٹ فارم پر اپنے مسائل کا تدارک کریں.ہماری سوسائٹی میں جب ایک شادی ہو جاتی ہے ،لڑکا لڑکی جنہوں نے اس بندھن سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں، نہ ایک دوسرے کی عادتوں سے واقف، نہ مزاج کا علم ،بس دو خاندان آپس میں بیٹھے اور یوں رشتہ طے ہو گیا . اب اس کے بعد اس جوڑے کے لیے لازم ہے کہ وہ عمر بھر ساتھ نبھائے .اگر تو ان میں مطابقت پائی جاتی ہے ذہنی ہم آہنگی ہے اور شادی راس آجاتی ہے ایسی صورت میں گویا شادی ایک لاٹری ہے ،ٹرافی ہے، اور زوجین کے سکون کی گارنٹی ہے، بصورت دیگر شادی کو اپنا نصیب سمجھ کر چپ سادھ لی جاتی ہے ،کیونکہ علیحدگی کی صورت میں وسوسے آن گھیرتے ہیں گھر اجڑ جائے گا ، خاندان کی ناک کٹ جائےگی ،بچے بکھر جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔ اب جیسا بھی ہے بی بی گزارا کرو!ما بعد از طلاق زندگی عورت کے لیے ویسے بھی کلنک کا ٹیکہ ہے.

دریں اثنا گھریلو سطح پرمشرقی عورت کی زندگی اجیرن ہے ایک وقت میں مختلف کردار ادا کرنے والی محیر العقول حیثیت کم و بیش عورت کو چڑ چڑے پن کا شکار کر کے ہذیانی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔کھانا وقت پہ کیوں نہیں پکا، بچے اسکول تاخیر سے کیوں پہنچے، شوہر کو کپڑے استری نہیں ملتے، ساس کی خدمت نہیں ہو پاتی، لازم یہ بھی ہے کہ شوہر کے جملہ رشتہ داروں سے بیوی کے مراسم مثالی نوعیت کے ہوں وہ ایک اچھی بھابھی ،ممانی، چچی اور دیورانی کی حیثیت سے سب کا خیال رکھے مشین کی طرح کام کرے اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے.یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مٹی کے پتلے میں جذبات و احساسات نہ ہوں ایک حد تک تو ظلم سہ کر خاموش ہو جائے گی مگر تکلیف سہتے سہتے مسلسل خاموشی کسی بڑے طوفان کو دعوت دے گی .فرائض اور حقوق کا عدم توازن کسی خونی بگاڑ کو جنم دے سکتا ہے. اگر بیوی باوجود کوشش کے شوہر کی منظور نظر نہیں بن پاتی اور شوہر باوجود کوشش کے بیوی کی شکایتیں دور نہیں کر پاتا تو پھر خرابی کہاں ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

چلو! بیماری کی تشخیص ہو گئی، تاہم مرض لادوا کا علاج کیا ہو گا؟جو معاملات درست نہیں ہوسکتے انہیں کسی موڑ پر اچھا انجام دے کر خلاصی کرنے میں مضائقہ کیا ہے؟اگر ہر قیمت پر ایک بے جوڑ رشتے کو چلاتے رہیں گے مسائل سے قطع نظر انھیں دبادیا جائے گا تو پھر کسی ماں کو نفسیاتی مریض بننے میں دیر نہیں لگتی۔۔۔لہذا قبل از وقت کسی بہتر حل کا جرات مندانہ انتخاب کر لینا چاہیے ! مبادا کل پھر کوئی ماں اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں سے مسل ڈالے۔

Facebook Comments

سلیم حسن شاہ
ایم فل سکالر پیشہ کے لحاظ سے ٹریفک وارڈن ہیں جو سماجی نا ہمواریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply