“خبز الحساوی” کھجوروں کی روایتی لال روٹیاں ۔۔منصور ندیم

چند ماہ پہلے “رزالحساوی” یعنی الحساء کے لال چاول جو کہ دنیا کے سب سے مہنگے لال چاول ہیں، پر ایک مضمون لکھا تھا، الحساء سعودی عرب کا قدیم تہذیب و ثقافت کو بیان کرتا شہر ہے، الحساء میں آج بھی قدیم طریقہ کاشتکاری سے لے کر مقامی ڈشز یا لباس “الحساوی” سے ہی معروف ہیں، ان میں الحساء کے کھجوروں سے بننے والی لال روٹی “خبز الحساوی” اور الحساء کی کاشت ہوئی لال گاجریں “جزر الحساوی” بھی مقامی سطح پر خاصی معروف ہیں۔

“خبز الحساوی” کھجوروں کی لال روٹیاں :

الاحساء کی مقامی سطح پر مشہور گندم کی لال روٹی “خبز الحساوی” مقامی سطح پر اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہے۔ الاحساء میں یہ لال روٹی صدیوں پرانی روایت میں سے ایک ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ “خبز الحساوی” لال روٹی کی روایت پہلے جیسی تو نہیں رہی مگر اس کے باوجود یہ روٹی ابھی بھی زندہ ہے۔ یہ روٹیاں سعودی عرب کے مشرقی حصے الحساء میں ہی کاشت ہونے والی ان لال کھجوروں سے تیار کی جاتی ہے۔ الاحساء کی یہ سرخ کھجوریں مقامی سطح پر خاصی مقبول اور قدرے مہنگی بھی ہیں اور یہی اس روٹیوں کی تیاری میں اپنے لذیذ ذائقے اور منفرد خوشبو کی وجہ سے پہچان رکھتی ہیں۔

ان روٹیوں کو تیار کرنے کے لیے قدیم طرز کے پرانے تندور ہی ہوتے ہیں ، آج کل جدید طرز کے تندور بھی بن گئے ہیں جن میں آگ کو دہکانے کے لئے گیس سلنڈر ہی استعمال ہوتے ہیں ، مگر الحساء میں خبزالحساوی کے لئے وہی پرانے طرز کے لکڑیوں کے تندور ہی موجود ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ان تندوروں میں یہ زیادہ تر کھجور کی لکڑی یا پھر دوسری لکڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، خبز الحساوی کو پکانے کا یہ طریقہ یہاں صدیوں سے رائج ہے، الاحساء میں یہ صدیوں سے پکائی جاتی ہے، اور صدیوں سے لوگ اس روٹی کے ساتھ عشق کی حد تک محبت کرتے چلے آئے ہیں۔

خبزالحساوی “سرخ روٹی” کو پکانے کو بھی یہاں ایک فن مانا جاتا ہے، اور مقامی لوگ جو اسلام سے وابستہ ہیں انہیں یہ کام ورثے میں ملا ہے چونکہ امتداد زمانہ کی وجہ سے اب الاحساء میں جہاں کئی سہولتیں اور بین الاقوامی کھانوں کے مواقع آگئے ہیں، اب اس روایتی روٹی کا فن دم توڑ رہا ہے مگر بہت سے لوگ اب بھی اس کام سے وابستہ ہیں، اس “خبز الحساوی” لال روٹی کی تیاری میں مقامی سطح پر کاشت ہونے والی کھجور کے سوا اور کوئی چیز نہیں ڈالی جاتی۔ صرف عام آٹے میں کھجور کا پیسٹ استعمال کیا جاتا ہے، الحساء میں لال روٹیاں پورے علاقے میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہیں ان کی تیاری میں کوئی کیمیکل بھی شامل نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے اس کا ذائقہ خالص اور دوبالا ہوجاتا ہے۔ اور مقامی شہریوں میں ہی نہیں بلکہ مقیم غیرملکیوں اور سیاحت کے لئے آنے والوں میں بھی میں بھی اب یہ کافی مقبول ہوگئی ہے۔

جزر الحساوی “الحساء کی لال گاجریں”

جدید کاشتکاری کے آنے کے بعد سعودی عرب میں اب تو بہت ساری سبزیاں اور پھل پیدا ہو ہی رہے ہیں، مگر کچھ صدیوں پہلے تک سعودی عرب کا ایک بڑا حصہ ماسوائے کھجور انگور اور چند پھلوں اور سبزیوں کے لئے اتنا زرخیز نہیں تھا، سعودی عرب کے زرخیز اور زرعی علاقوں میں ‘الاحسا’ ایک ایساعلاقہ رہا ہے، جو صدیوں سے کاشتکاری کے لئے زرخیر رہا ہے اور پیٹرول کی دریافت سے پہلے تک یہاں سے تعلق رکھنے والی مقامی آبادی زرعی شعبے اور گھریلو صنعت کاری سے کسی نا کسی طرح وابستہ رہتے تھے اور یہی ان کی معیشت کا بڑا ذریعہ رہا تھا، یہاں آج بھی ایک کاشتکار خاندان نے الاحساء کے علاقوں میں صدیوں پہلے کاشت کی جانے والی ‘جزر الحساو ی احمر” یعنی ‘لال گاجر’ کی کاشت کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔

الحساء میں سردی کے موسم میں ہی گاجروں کی کاشت کا قدرتی موافق موسم ہے، اور ایک مقامی کاشتکار خاندان اس نایاب لال گاجروں کی کاشت سے ہی وابستہ ہے، یہ سرخ گاجریں ان گنت طبی فوائد سے مالا مال ہے، اس کی وجہ ان کا آرگینک organic ہونا ہے، کیونکہ یہ قدیم طریقہ کاشت پر ہی کاشت کی جاتی ہیں اس میں مصنوعی کھاد استعمال نہیں کی جاتی ، لیکن مجموعی طور پر اب الاحساء میں کاشت ہونے والی لال گاجر کی کاشت دم توڑ رہی ہے۔ مقامی ماہرین کوخدشہ ہے کہ گاجر کی یہ قسم نایاب ہی نہ ہوجائے تاہم شمالی الاحساء کے علاقے المطیر کے ایک رہائشی خاندان نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ خاندان معمول کے مطابق ہر سال اس کی کاشت کرتا ہے۔ سرخ گاجر کی کاشتکاری اس خاندان میں اجداد کا ورثہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سرخ گاجریں سعودی عرب کی منفرد اور نایاب زرعی پیداوار ہے۔ صدیوں سے اس کی کاشت اس مخصوص خاندان کی پہچان رہی ہے اور وہ اپنے اس پیشے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ سردی کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل اگست کے مہینے میں سرخ گاجروں کے بیج لگائے جاتے ہیں ، اس کے بعد ۳سے ۴ ماہ تک جب سردی تیز بڑھ جاتی ہے اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور آج کل کے دنوں میں یہ گاجر تیار ہوجاتی ہے، لیکن یہ صرف مقامی مارکیٹ تک ہی فروخت کے لئے جاتی ہے۔ کیونکہ اس کی بہت محدود کاشت ہوتی ہے۔

Facebook Comments