موٹیویشنل اسپیکر

آپ یقین کریں یا نہ کریں دو جمع دو چار صرف ریاضی میں آتا ہے. یہ حساب کتاب جب زندگی میں لگانے بیٹھیں تو دو جمع دو صفر بھی ہو سکتا ہے. نیز محاورے کے دو جمع دو کے علاوہ آپ دیگر چھوٹی چھوٹی مثالیں دیکھ لیں. مثال کے طور پر شادی میں ایک جمع ایک کبھی دو نہیں آتا. انگریزوں میں یہ ایک جمع ایک تین سے چار اور ہمارے دیہاتوں میں ایک کرکٹ ٹیم بمع کوچ، ریفری، امپائر اور تھرڈ ایمپائر کے برابر بھی آ جاتا ہے. میں موٹیویشنل اسپیکرز کو اسی لیئے نہیں سنتی کہ ان میں سے اکثر بقول غالب کے” روز آ جاتے ہیں، سمجھاتے ہیں یوں ہے یوں ہے”۔۔۔۔ اسے آپ ان کی پیغمبرانہ صفت سمجھ لیں یا شیطانی وصف لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو جہنم کو ایسا بنا کے پیش کر سکتے ہیں کہ آپ باقاعدہ وہاں چھٹیاں گزارنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں. یقیناﹰ میری بات کو عالمگیر اصول نہیں بنایا جا سکتا مگر ان میں سے پچاسی فیصد محض اسپیکرز ہیں. یہ لوگ پہلے دن سے بس موٹیویٹ کر رہے ہیں. زندگی کی دھوپ سے گزرے بغیر یہ آپ کو بتائیں گے کہ دھوپ میں اپنا مزاج ٹھنڈا رکھیں اور سن بلاک لگانا نہ بھولیں. کسی طوفان کا شکار ہوئے بغیر یہ کہیں گے کہ دیکھیں یہ تو اچھا موسم ہے. آپ انجوائے کریں. کبھی ناکامی کا منہ دیکھے بغیر یہ آپ کو سمجھائیں گے کہ ناکامی سے کیا فرق پڑتا ہے. بس بےعزتی ہوتی ہے لیکن باقی پندرہ فیصد وہ ہیں جو سب موسم جھیل کر آپ کو بتاتے ہیں کہ دیکھو زندگی اچھی تو نہیں ہے لیکن بری بھی نہیں ہے، لیکن یہ پندرہ فیصد بھی میٹھے خربوزے اور لال تربوز کی طرح قسمت سے ہی ملتے ہیں.

میں نے ایم بی اے کرنا تھا. کرنا تو میں نے جانے کیا کیا تھا لیکن ابھی ہم ایم بی اے کا ذکر کرتے ہیں . پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے سامنے سے گزرتے ہوئے میرا وہی حال ہوتا جو اس لڑکی کا ہوتا ہے جو خوابوں کے شہزادے سے پوچھے بغیر اس کے گھر کو اپنا سسرال سمجھ بیٹھتی ہے. حالانکہ بیچارہ شہزادہ اسے جسٹ فرینڈ ہی سمجھتا ہے. کرنی خدا کی کہ بہت اچھے نتیجہ کے باوجود میں بہرحال سیلیکشن رینج میں نہیں آئی. ویسے اپنا مذاق اڑانا بہت مشکل ہے لیکن سچ ہے کہ اس وقت تو میں ایسے ہو گئی تھی جیسے آج کل کا نوجوان طبقہ بریک اپ کے بعد ہوتا ہے . زندگی کا مقصد نہیں رہا تھا. حتی کہ جینے کو دل نہیں چاہتا تھا. اب آپ اسے کسی موٹیویشنل تقریر کا مسروقہ حصہ سمجھ لیں یا اصل قصہ، جب کہ یہ ڈرامہ اپنے کلائمکس پر تھا میرے ساتھ ایک واقعہ ہوا. کہیں سے واپس گھر جاتے مجھے ایک اسکول کے باہر ایک بچہ نظر آیا. اسکول کے یونیفارم پہنے بچوں میں وہ بچہ اس لیئے الگ نظر آ رہا تھا کیونکہ اس کے کپڑے گندے اور پھٹے ہوئے تھے. شاید پیدائش سے اس دن تک وہ نہایا نہیں تھا. اس کے پاس جوتی نہیں تھی اور اس کا ہاتھ پھیلا ہوا تھا. مجھے نہیں معلوم ادراک کے لمحے ایسے غیر یقینی موقعوں پر ہی کیوں وارد ہوتے ہیں لیکن وہ ایک لمحہ تھا۔۔۔ جس نے زندگی کو لے کر میرا نظریہ بدل دیا. قیامت ایک دن ہی نہیں آنی بلکہ جس دن آپ کے اندر ترازو لگ جائے آپ کا روز حساب وہی ہے. اس لمحے میرا بھی میزان قائم ہو گیا. ایک پلڑے میں میں تھی. میرے دوسرے پلڑے میں وہ میرے گھٹنے تک آنے والا بچہ تھا. اس کی طرف کا پلڑا غموں کے بوجھ سے ایسا جھکا کہ آج تک مجھے اپنا کوئی غم بڑا نہیں لگا. اس دن کے بعد میں نے زندگی کا ماتم چھوڑ دیا.

زندگی خواب بننے اور خواب ٹوٹنے کا عمل ہے. اگر خواب ٹوٹنا بند ہو جائیں تو بننے کا عمل بھی متروک ہو جائے گا. تعمیر اور تخریب تو ازل کی ساتھی ہیں. مسائل تو آپ کے زندہ ہونے کی نشانی ہیں. مردوں کو کہاں مسائل درپیش ہوتے ہیں. لیکن بادی النظر میں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ مسائل صرف زندوں کے حل ہوتے ہیں. مرنے والوں کو تو قبر پر روشنی کے لیئے بھی چراغ جلانے آنے والوں کاانتظار رہتا ہے. یہ جو آپ کے ارد گرد اتنے مسائل ہیں یہ کیوں ہیں. کیونکہ آپ راضی نہیں ہیں. آپ لوگوں سے الجھ جاتے ہیں کیونکہ آپ خود سے الجھے ہوئے ہیں. آپ اپنی شادی سے خوش نہیں ہیں. آپ اپنی اولاد سے خوش نہیں ہیں. آپ اپنے رشتے داروں اور نوکریوں سے خوش نہیں ہیں. کیونکہ آپ نے کبھی سوچا نہیں ہے کہ خوشی کا تعلق ان سب باتو ں سے نہیں ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ سال قبل عمرے کی ادائیگی کے لیئے حرمین کا سفر کرنا تھا. اگر مجھے درست یاد ہے تو بورڈنگ لینے کے بعد اچانک پرواز میں تاخیر کا عندیہ ملا. ائیرپورٹ چھوڑنا تو ممکن ہی نہیں رہا تھا. سو مرتے کیا نہ کرتے لابی میں بیٹھ گئے. یہ ادراک کے لمحے بھی کسی درویش جیسے ہوتے ہیں. یہ بھیس بدل کر آتے ہیں اور زندگی بدل کر چلے جاتے ہیں. ادراک کا ایک لمحہ آپ کے حوالے کر کے میں آج کی بات سمیٹ دیتی ہوں ۔۔۔۔۔کوفت کے ان تین گھنٹوں میں سے آدھا وقت گزرا تو نیند بہلانے کو سر کرسی کی ٹیک سے لگایا، آنکھیں موندیں تو ایک روشنی سی ذہن میں لپکی کہ “جب ائیر پورٹ پر آ کر واپس جانا ممکن نہیں تو بہتر ہے وقت ہنس کے گزارو. ممکن تو دونوں ہی باتیں ہیں. بھلے ہر چند ساعت بعد اپنی فرسٹریشن کو ظاہر کرو. چاہے تو لمحہ موجود کو یاد گار بنا لو. جہازوں کو آتا جاتا دیکھو. اجنبیوں پر غور کرو. ٹی وی دیکھ لو. کتاب پڑھ لو. کھا پی لو. وقت تو اتنا ہی گزارنا ہے لیکن دیکھو مبارک سفر کے مسافر رستے کی کٹھنائیوں سے دل چھوٹا نہیں کرتے”۔

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”موٹیویشنل اسپیکر

  1. بقول غالب کے” روز آ جاتے ہیں، سمجھاتے ہیں یوں ہے یوں ہے”
    یہ غالب کا شعر نہیں ہے

  2. بہت خوب. بس ایک درستگی فرمالیں روا آجاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے والی بات غالب نے کبھی نہیں کہی البتہ فراز نے یوں کہی تھی
    ناصحانہ تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
    روز آجاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے.

  3. ایک رائٹر ہونے کا حق ادا کیا۔ باقی غلطی سر زد ہوجانا بہتری کی طرف بڑھنے کا ذریعہ۔۔۔

Leave a Reply