سلمان حیدر کا آسیب اور میں۔۔۔۔عمران بخاری

گذشتہ برس جنوری میں چند سوشل میڈیا بلاگرز کو اٹھایا گیا۔ اوریا مقبول جان ، ہارون رشید اور عامر لیاقت کے ذریعے قوم کو پتہ چلا کہ انہیں قومی سلامتی کے حساس اداروں نے اٹھایا ہے اور جرم یہ بتایا گیا کہ یہ لوگ بھینسہ نامی پیج کے ایڈمن تھے اور توہینِ مذہب کے جرم میں ملوث تھے۔ ان بلاگرز میں سے سلمان حیدر میرا ایم ایس سی سے لی کر پی ایچ ڈی تک سینئر کلاس فیلو رہا اور چار برس تک ہم روم میٹ بھی رہے۔ سلمان سے میرے قریبی تعلق کی وجہ سے میں جانتا تھا کہ سلمان کا جرم توہینِ مذہب نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں نے ان سوشل میڈیا بلاگرز کے حق میں بھرپور تحریک چلائی۔ میرے لکھے گئے مضامین ڈان نیوز اور مکالمہ سمیت بہت سی سوشل میڈیا بلاگنگ ویب سائٹس پر شائع ہوئے۔
اس وقت میں ڈاکٹر اسرار مرحوم کی بنائی گئی تنظیمِ اسلامی کا رکن تھا اور دین کے سیاسی معاشی اور معاشرتی غلبے کی جدوجہد کا خود کو حصہ سمجھتا تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی شخصیت اور فکر بہت پروگریسیو اور ہمہ جہتی تھی۔ لیکن ان کے بعد بننے والے امیر (جو کہ ان کے فرزند بھی ہیں) کی شخصیت اور فکر قدامت پرستانہ رجحان رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اوریا مقبول جان جیسے لوگوں کو تنظیمِ اسلامی کے فورمز پر خوب پزیرائی بخشی جاتی رہی ہے۔ اس وجہ سے تنظیم کے رفقاء میں اوریا مقبول جان کو اسلام کا عزیم مجاہد تصور کیا جاتا ہے۔ سلمان کے حق میں میرا لکھا گیا مضمون جب ڈان نیوز میں چھپا تو تنظیمِ اسلامی کے امیر عاکف سعید اور ناظمِ اعلیٰ اظہر بختیار خلجی صاحب نے خالد محمود عباسی صاحب سے سلمان حیدر اور اس کے دیگر دوستوں کی حقیقت کے بارے میں آگاہی حاصل کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں خالد صاحب کے قریب ترین دوستوں میں سے ہوں۔ اس ضمن میں خالد صاحب کی بھی ایک تحریر ڈان نیوز میں چھپی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تنظیمِ اسلامی اس معاملے میں کسی یکطرفہ پالیسی بیان دینے سے رک گئی جو کہ ایک قابلِ تحسین اقدام ہے۔
لیکن اوریا مقبول جان کے مجاہدانہ کردار کی گہری چھاپ تنظیمِ اسلامی کے اکثررفقاء پر آج بھی موجود ہے۔ اس وجہ سے میرا کردار تنظیم کے رفقاء کی نظر میں آج تک دینی غیرت اور حمیت کے حوالے گمراہ کن اور متعصبانہ ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ ماہ خالد محمود عباسی صاحب کے اخراج کے بعد میں نے تنظیمِ اسلامی کو الوداع کہہ دیا۔ اس کی صاف اور واضح وجہ ایک ہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تنظیمِ اسلامی میں ڈاکٹر اسرار احمد کا اگر کوئی آخری فکری وارث بچا تھا تو وہ خالد محمود عباسی صاحب ہیں۔ اگر تنظیم کی فکری اور عملی اصلاح کی اہلیت کسی شخص میں ہے تو وہ خالد محمود عباسی صاحب ہیں۔ اور گذشتہ دس برس سے ہم تنظیم میں رہ کر یہی جدوجہد ہی کر رہے تھے۔ اب جبکہ موجودہ امیرِ تنظیم عاکف سعید صاحب نے اپنے خفیہ ایجنڈے کی راہ میں واحد رکاوٹ (خالد محمود عباسی صاحب) کو تنظیم سے خارج کر دیا ہے تو میرے لیے تنظیم میں اصلاح کی یہ آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ لہٰذا میں نے خالد صاحب کے اخراج کے اگلے ہی دن تنظیم کو خیرباد کہہ دیا۔
اس گذشتہ ایک ماہ میں رفقائے تنظیم کا رویہ میرے ساتھ یہ رہا ہے کہ میں نے جب بھی عاکف سعید صاحب کے منافقانہ کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تو پبلکلی اور پرائیویٹ میسیجز میں مجھے ایک جرم تواتر کے ساتھ گنوایا جا رہا ہے کہ تم تو وہی ہو جس نے بھینسا  پیج کے ایڈمن سلمان حیدر کو سپورٹ کیا تھا۔ اب چونکہ ایف آئی اے کی رپورٹ عدالت میں سامنے آ چکی ہے اور یہ ثابت ہو چکا کہ ان لوگوں پر لگایا گیا توہینِ مذہب کا الزام جھوٹا ہے تو میری ان جذباتی اور اوریا مقبول جان کے متاثرہ دینی خدمت گاروں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اوریا مقبول جان کو تو شرم نہیں آنی، آپ کچھ خوفِ خدا کھائیں اور بہتان تراشی سے اپنی آخرت خراب مت کریں۔
مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سلمان حیدر کی چھاپ ان مذہبی تعصب میں مبتلا لوگوں میں میری بات کو کتنا غیر مؤثر بنا رہی ہے۔ میرے لیے اطمینان کا باعث یہ بات ہے کہ میں جان کی پروا کیے بغیر سچ کے لیے ڈٹ گیا۔ اور اللٰہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے راست گوئی اور حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کے لیے ہمت اور استقامت عطا فرمائے۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply