• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لو جی اب اسرائیل اعلانیہ یہودی ریاست ہے۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

لو جی اب اسرائیل اعلانیہ یہودی ریاست ہے۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

اسرائیل مسلمانوں کے جسم پر برطانوی استعمار کا لگایا ہوا زخم ہے، جس نے پچھلے ستر سالوں میں مسلمانوں کو مسلسل تکلیف دی ہے۔ اسرائیل کا قیام ہی ظلم و بربریت کی بنیاد پر تھا، اس ناجائز ریاست کو بنانے کے لئے لاکھوں فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑنے پڑے، وہ آج بھی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کو دنیا بھول چکی ہے۔ مسلمان حکمران بھی عوام کے ڈر سے صرف رسمی مذمتی بیانات تک محدود ہیں۔ چند سال پہلے کسی بین الاقوامی ٹی وی چینل پر ایک ڈیبیٹ دیکھ رہا تھا، جس میں اسرائیلی نمائندہ بار بار فلسطینیوں کو ایک تشدد پسند قوم اور اسرائیل کو ایک مہذب، سیکولر جمہوریت کے طور پر پیش کر رہا تھا، جو ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس کے لئے وہ بار بار اسرائیل میں بسنے والے بیس فیصد مسلمانوں کی بات کرتا تھا، باقاعدہ ہونے والے انتخابات پر زور دیتا تھا اور خطے میں موجود دیگر آمریتوں کو مقابلے میں اسرائیل کو ایک بہترین جمہوری ملک کے طور پر پیش کر رہا تھا۔

آج اس کی ساری دلیلیں ختم ہوگئی ہیں، آج اسرائیل ایک نسل پرستانہ ریاست سے ایک استحصالی مذہبی ریاست کے روپ میں ڈھل گیا، کیونکہ اب اگر آپ اسرئیل نامی غاصب ملک میں رہتے ہیں اور یہودی ہیں تو اعلیٰ درجے کے شہری ہیں، ورنہ دوسرے درجے کے شہری کی ہے، کیونکہ اسرائیل کی پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کر لیا ہے کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے، اس میں یہودیوں آبادکاروں کو خوش آمدید کہا جائے گا اور یہودیوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ عربوں کے لئے بالعموم اور اسرائیل میں بسنے والے عربوں کے لئے بالخصوص یہ بات کسی دھماکے جیسی ہے کہ اس میں ان کو شناخت کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس قانون میں ایک شق یہ تھی کہ عرب مسلمانوں کو اسرائیلی علاقوں میں زمین نہ بیچی جائیں، تاکہ یہودی سرزمین صرف یہودیوں کے لئے رہے، فی الحال تو اسرائیلی صدر نے اسے منسوخ کر دیا ہے، جب مکمل قانون پاس ہوگیا تو اس شق کو بعد میں کسی وقت بھی منظور کرایا جا سکتا ہے۔

یہ قانون نسل پرستانہ ہے، اس میں یہودی نسل کے لوگوں کو جو حقوق حاصل ہیں، دیگر سے ان کی نفی کی گئی ہے۔ فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر ملک بدر کرنے کے بعد باقی بچ جانے والوں سے ان کی شناخت چھیننے کو کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرائیلی ہٹلر کو نسل پرست رہنما کہتے ہیں، جس نے ان کے بقول ان کے ساتھ نسل پرستی کی، مگر آج وہ خود ہٹلر بنے ہوئے ہیں اور نسل پرستی جیسے جرم میں ملوث ہیں۔ ایک اہم مسئلہ زبان کا بھی ہے، اسے بھی متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ پہلے عربی کو کاغذی طور پر ہی سہی مگر سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا، اب وہ بھی ختم کر دیا گیا، مسقبل میں فقط عبرانی قومی زبان ہوگی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عرب اپنی زبان سے الگ ہو جائیں، آنے والی نسلیں فقط عبرانی بولنے والی ہوں، جس سے ان کی شناخت ختم ہو جائے گی اور وہ آہستہ آہستہ اکثریت میں ضم ہو جائیں گے۔

قانون میں مکمل بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے، جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور مسلمہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے، کیونکہ یہ پورا علاقہ فلسطینیوں کی ملکیت ہے، باہر سے آئے ہوئے لوگ مقامی لوگوں کو زبردستی نکال کر قابض ہوگئے ہیں۔ مشرقی بیت المقدس سمیت پورے شہر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات ہیں۔ مسلمانوں کا قبلہ اول یہیں پر ہے، جس کی طرف منہ کرکے مسلمان نماز ادا کرتے تھے۔ اس شہر کی اہمیت مسلمانون کے لئے تیسرے مقدس ترین شہر کی ہے، جس کے ساتھ ان کے قلوب جڑے ہوئے ہیں۔ وہ لاکھوں لوگ جنہیں اس مقدس شہر سے نکالا گیا ہے، وہ غزہ جیسی دنیا کی آزاد جیلوں میں قید ہیں، جہاں ان کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف اسرائیل ہے، اسی طرح ایک بڑی تعداد میں کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔

اسرائیلی پارلیمنٹ کے مسلمان اراکین نے اس قانون کی کاپیوں کو پھاڑ ڈالا اور اس قانون کو اپنے حقوق پر ڈاکہ قرار دیا ہے، جو کہ بالکل درست بات ہے۔ اگر کسی مسلمان ملک نے اپنا نام ایک مسلمان ریاست کے طور پر رکھ کر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے حقوق کم کئے ہوتے تو امریکہ سمیت پورا یورپ آہ و بکا کر رہا ہوتا، اب چونکہ قانون مسلمانوں کے خلاف ہے اور ظالم گروہ امریکہ کا لاڈلا ہے، اس لئے امریکہ، اقوام متحدہ، یورپ غرض کسی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مغربی اقدار کے فروغ میں پیش پیش، آزادی کی آڑ میں مذہب مخالف قوتیں جو مسلمانوں کی اونچی آواز پر بھی اعتراض کر لیتی ہیں، وہ بھی مکمل خاموش رہیں گی، اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ یہاں مسلمانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور بین الاقوامی اداروں کا یہی دہرا طرز عمل انہیں مسلم دنیا میں بے حیثیت کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسلمان ممالک کا ردعمل اب رسمی بھی نہیں رہا، اس مسئلہ پر عرب و عجم کے مسلمانوں میں سکوت طاری ہے۔ اس وقت نہیں بولیں گے، ابھی بولنا کم از کم ظالمانہ قانون کے خلاف آواز تو ہوگا، کل جب اسرائیل اس قانون کو استعمال کرکے مقبوضہ فلسطین میں مسلم شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو پتہ چلے گا کہ اس قانون کے ذریعے کس طرح مسلم شناخت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ نہتے یمنیوں پر مسلسل بمباری کے ریکارڈ قائم کرنے والے بھی خاموش ہی رہیں گے کیونکہ بادشاہت عزیز ہے، اسی خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply