تعلیم کی دکانیں۔۔۔عبدالرحمن قدیر

ایک خاتون کے پاس میں ایک بار جاب کے لیے گیا۔ میرا ارادہ ویب ڈیزائننگ   کا تھا یا گرافکس کا۔ مگر بعد میں پتہ چلا انہیں مارکیٹنگ کے لیے لڑکوں کی ضرورت ہے۔ وہاں سے مارکیٹنگ کا نام سن کر ہی گدھے کے سر سے سینگھ کی طرح غائب ہو گیا۔ تاہم وہاں ملاقات کے دوران ایک بات انہوں نے باور کرائی کہ “اچھا مارکیٹر وہ ہے جو اندھے کو چشمہ، گنجے کو کنگھا اور بہرے کو ہیڈ فونز بیچ سکے”۔

آج پیپر کے بعد گھر آرہا تھا کہ دیکھا   ہمارے شہاب پورہ روڈ پر بھی ایک “ایسپائر کالج” کی دکان کھل چکی ہے۔

سوچ میں غرق ہوگیا کہ ایک ہی سڑک پر  کوئی ایک کلومیٹر کے طول پر ایک یونیورسٹی، تین سے چار کالج اور کوئی درجن سکول ہیں۔ اور یہ صرف سڑک کی بات کر رہا ہوں، گلیوں کا مجھے علم نہیں۔ اور دو تین انگریزی سیکھنے کے ادارے بھی کھل چکے ہیں اور اکیڈمیاں ہمارے گناہوں سے بھی زیادہ ہیں۔ تعلیمی ادارے تو بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ مگر نہ کسی کے پاس علم ہے، نہ ادب ہے  ،زبان نہ عقل،  فہم نہ لحاظ۔۔۔ (ہاں اگر کسی چیز میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہ ہے  بے حیائی ،بے شرمی )  مگر یہ سارا  علم کہاں جا رہا ہے؟ یہ ساری زبان یہ دانش کہاں ہے  ؟

Advertisements
julia rana solicitors

پھر وہ مثال یاد آئی کہ یہ علم نہیں، اندھوں، گنجوں اور بہروں کو بالترتیب چشمے، کنگھے اور ہیڈفونز بیچ رہے ہیں۔

Facebook Comments

عبدالرحمن قدیر
ایک خلائی لکھاری جس کی مصروفیات میں بلاوجہ سیارہ زمین کے چکر لگانا، بے معنی چیزیں اکٹھی کرنا، اور خاص طور پر وقت ضائع کرنا شامل ہے۔ اور کبھی فرصت کے لمحات میں لکھنا، پڑھنا اور تصویروگرافی بھی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply