چائے کا کپ اور وہ۔۔۔۔قراۃ العین حیدر

وہ غالباً 8 جنوری 2012 کی دھندلکی شام تھی۔ جب اچانک میرے موبائل پر اس کا میسیج آیا ” اگر تم فارغ ہو تو کال کرلوں؟” اس سے پہلے کہ میں رپلائی ٹائپ کرتی اس کا فون آگیا۔ حال احوال کے بعد وہ نان سٹاپ بولنے لگا “میں تمہیں دیکھنے کو ترس گیا ہوں اور اپنی اس نوکری کی مصروفیات سے شدید تنگ ہوں۔ میری چھٹی کی درخواست منظور ہوگئی ہے میں جمعہ کو آرہا ہوں اور مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔” میں خوشی اور استعجاب کے مراحل میں تھی کچھ بول ہی نہ پائی۔ وہ میری خاموشی سے گویا ہوا “تمہارے لئے کیا لاؤں؟” میں سوچ میں پڑ گئی کہ میں تو آج بھی اس کے نام پر بیٹھی ہوں۔ بنا کسی رابطے کے آٹھ سال جو اس کے ہجر اور انتظار میں گزار دیے۔ “تم کن سوچوں میں کھوگئی  ہو؟ “اور میرے کسی بھی جواب کا انتظار کئے بغیر بولا۔۔۔۔۔ کچھ نہیں کہتے ہوئے بات کو ٹالا اور انتظار کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔

زیادہ نہیں اسے دیکھے صرف آٹھ سال ہی تو ہوئے تھے اگر ہماری اس وقت شادی ہوجاتی تو بچے سکول جانے کی عمر کے ہوتے۔ میں سوچنا نہیں چاہتی تھی لیکن میرا ذہن رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے ہر گزرا ہوا لمحہ فلم کی طرح چلنے لگا۔ مختلف تہوار، آتے جاتے موسم، زندگی کی تبدیلیاں ۔۔۔۔ ہر وہ لمحہ جب مجھے اس کی ضرورت تھی لیکن وہ کہیں اپنی زندگی میں مصروف تھا۔ اور پتا نہیں کیسے میری محبت اس کے دل میں پھر سے جاگ اٹھی۔ میں اس وقت خوشی سے زیادہ الجھی ہوئی تھی کہ اب تو اس نے شادی بھی کرلی ہے بچے بھی ہیں میری طرف تعلق بڑھانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے۔ جب وہ رابطے میں نہیں تھا تب یک طرفہ محبت نے مجھے زندہ رکھا اور اب اس کی واپسی ایک الجھن کے ساتھ ایک ڈر بھی تھا کہ پتا نہیں زندگی میں کیا ہوگا۔ کیا پتا وہ اس آخری ملاقات میں تعلق شاید ہمیشہ کیلئے ختم کرنا چاہتا ہے۔ انہی خدشات میں تین دن گزر گئے اور جمعہ کا دن آپہنچا جس دن وہ آرہا تھا۔ میں اپنی روٹین کے مطابق ہی دفتر پہنچی۔ پورا دن انتظار کرتی رہی گمان ہونےلگا کہ سردیوں کے چھوٹے دن اتنے لمبے ہوگئے ہیں کہ دن گزارنا مشکل لگنے لگا۔ پورا دن اسی ادھیڑبن میں گزر گیا کہ اس کو دیکھتے ہی کیا حالت ہوگی۔

اداس لمحوں کی داستانیں ۔اسماء مغل

شام چھ بجے اس کی پھر سے کال آئی میں ڈر سی گئی کہ کہیں اس نے اپنا آنا ملتوی نہ کردیا ہو لیکن میرے خدشات کے برعکس اس نے کہا کہ میں تمہارے دفتر کی پارکنگ میں تمہارا انتظار کررہا ہوں گاڑی کا نمبر میسیج کردیتا ہوں۔ میں اس سے پہلے ہی اپنا کام سمیٹ چکی تھی۔ کمپیوٹر آف کرکے میں اپنے کیبن سےباہر نکلی۔ باہر آکر بہت غور سے پارکنگ پہ نظر ڈالی تو کچھ سمجھ نہ سکی۔ اتنا خیال نہ آیا کہ فون پر اس کا میسج ہی دیکھ لوں جس میں اس نے گاڑی کا نمبر بھیجا تھا۔ اچانک کار پارکنگ کے ایک کونے میں کھڑی گاڑی کے ڈبل انڈیکیٹر ایک لمحے کو روشن ہوئے اور میں اس کی جانب چل پڑی۔ ذہن میں ایک بار پھر فلم چلنے لگی کہ اس وقت اس کے پاس کاواساکی موٹر سائیکل تھی اب اس نے ترقی کرلی ہے اور ایک لگژری گاڑی کا مالک ہے۔ دل نے اطمینان کا سانس لیا کہ وہ اپنی زندگی میں اسٹیبلش ہورہا ہے کتنی کم فہم ہوں میں یہ نہیں سوچا کہ اس نے گھر بسا لیا صاحبِ اولاد ہوگیا۔۔۔۔صرف میں ہی ہوں جو وہیں کھڑی ہے جہاں سے اس نے رستہ بدلا تھا۔

میں نے کار کا دروازہ کھولا تو اس کے چہرے پہ وہی ملکوتی مسکان دیکھی جسے دیکھ کر میں گھائل ہوئی تھی۔ حال احوال کے بعد اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور ہم ایک نئی سمت کی جانب چل پڑے۔ نہ اس نے زبان سے کچھ کہا نہ میں نے کچھ پوچھا۔ میں بالکل خاموش تھی گاڑی کو مین سڑک پر لاکر اس نے مجھے پکارا میں جیسے کسی طویل سپنے سے جاگی اور اس کی جانب دیکھنے لگی۔ وہ میری جانب دیکھ رہا تھا اس نے میرا ہاتھ تھامنے کو اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا میں نے بغیر کسی توقف کے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ہاتھ تھام کر وہ ایک ہاتھ سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔ گاڑی میں ادھورے ہم سفر مکمل خاموشی کے ساتھ اجنبیوں کی طرح سفر کررہے تھے۔ اس نے خود ہی بات شروع کی ” تم ہاتھ تھامنا بھول چکی ہو؟” مجھے نہیں معلوم یہ سوال تھا، رائے تھی یا کیا تھا۔ میں صرف یہ جواب دے پائی “مجھے ہاتھ تھامنے کی عادت نہیں رہی۔” کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے جذبات سے عاری چہرے پہ وہ اپنے نام کے رنگ تلاشنے کی کوشش میں بار بار میری جانب دیکھتا۔
جلد ہی ہم اپنی اگلی منزل کی جانب آگئے یہ ایک بڑا سا میس نما گھر تھا جہاں اس کی کمپنی نے اپنے ملازمین کو ٹھہرایا تھا۔ میں اس کے قدموں کے چھوڑے ہوئے نشانوں پر چلتے ہوئے اس کے کمرے کی جانب بڑھنے لگی۔ نیچے کہیں لابی میں گانا چل رہا تھا۔۔۔۔۔
ابھی مجھ میں کہیں تھوڑی باقی سی ہے زندگی
جگی دھڑکن نئی جاناں زندہ ہوں میں تو ابھی
کچھ ایسی لگن اس لمحے میں ہے وہ لمحہ میرا ہے کہاں
خوشیاں چُوم لوں کہ رو لوں ذرا مرجاؤں کہ جی لوں ذرا

یادیں۔۔حمیرا گُل خان

اس ایک لمحے کے سپنے میں پچھلے آٹھ سال سے دیکھ رہی تھی کہ کبھی تو ہماری ملاقات ہو۔۔۔۔ کبھی تو وہ مجھے ایک لمحے کیلئے دِکھ جائے۔ میں اس ایک لمحے میں اپنی تشنگی بجھا دوں۔ کمرے میں ٹھنڈے ماحول نے ہمارے جذبات مزید ٹھنڈے کردئیے۔ اتنے میں چائے آگئی۔۔۔۔ اس کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے میں خاموشی سے چائے بنانے لگی۔ میرے ہاتھ سے چائے لے کر وہ میرے سامنے بیٹھ گیا۔ پہلے گھونٹ کے بعد اس نے میری طرف دیکھ کے کہا کہ تمہیں اب تک یاد ہے کہ میں چائے میں کتنی چینی لیتا ہوں۔ اب وہ باقاعدہ گفتگو کا آغاز کررہا تھا ۔ میں نے بات کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔

بات سے بات چلی وہ اپنی ازدواجی تعلقات کے مسائل، اولاد، والدین کے بارے میں بات کرتا رہا  تھا۔ اور میں ایک خاموش سامع کی طرح اسے سن رہی تھی۔ میری خاموشی اسے عجیب لگ رہی تھی “شاید تمہیں میری باتوں میں اور ہوسکتا ہے مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔” اس بات نے گویا میرے اندر کی محبت کو بھسم ہی کردیا ” ہاں! اب مجھے شاید تم میں دلچسپی نہیں رہی۔ تم چائے پی رہے تھے اور میں تمہیں دیکھ رہی تھی اور ان باتوں کے دوران تم نے اس چائے کے کپ کے تیرہ گھونٹ بھرے ہیں بس اتنی سی دلچسپی ہے تم میں مجھے۔۔۔۔” میری آواز بھر آئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ پینتیس منٹ کی ملاقات اور چائے کا کپ آج بھی بہت بھاری ہے اس لئے آج بھی میں ہمیشہ چائے کے دو کپ ہی پیتی ہوں ایک اپنا اور ایک اتنی ہی مٹھاس والا چائے کا دوسرا کپ اپنی ادھوری محبت کے نام کا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”چائے کا کپ اور وہ۔۔۔۔قراۃ العین حیدر

  1. افتخار نسیم واقع واقعی کمال انسان تھے۔
    مقدور ہو تو خاک سے میں پوچھوں کہ اے لئیم
    تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

Leave a Reply