جیل ، غسل خانہ اور بنیادی حقوق۔۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

شہباز شریف صاحب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے نگران حکومت کی خدمت میں خط لکھا ہے کہ عزت مآب جناب نواز شریف صاحب کو جیل میں ائیر کنڈیشنڈ روم نہیں دیاگیا اور باتھ روم بھی بہت گندہ ہے ۔ اس سے قبل جناب حسین نواز شریف صاحب کی ٹویٹ منظر عام پر آئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں ۔’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے والد کو سونے کے لئے بستر نہیں دیا گیا اور غسل خانہ انتہائی غلیظ تھا ، عرصہ دراز سے صفائی نہیں ہوئی تھی۔ ا س ملک میں عوامی نمائندوں کی عزت کا دستور نہیں لیکن یہ بنیادی حقوق ہیں جن کا روکنا تشدد ہے ‘‘۔

دونوں بیانات پڑھ کر ورطہ حیرت میں ہوں کہ عزت مآب اور عالیجا ہ کو بنیادی انسانی حقوق کی یاد کس قدر تیزی سے آئی ہے ۔ جب آنجناب کے پاؤں جلنے لگے تو فوراً انسان بھی یا دآگئے اور ان کے بنیادی حقوق بھی ۔ حالانکہ ابھی تو ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ، والا معاملہ ہے ۔
عالی جاہ گزشتہ دس سالوں سے صوبہ پنجاب پر حکمران کون تھا؟۔ گزشتہ پانچ سال سے مرکز میں حکومت کس کی تھی۔؟ تین بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے والی عزت مآب شخصیت کون ہے ؟۔ گزشتہ دہائیوں میں مختلف حیثییوں میں تخت نشین ہو کر ملک کا دھڑن تختہ کرنے والا کون ہے ؟۔ کس نے ان بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے اقدامات کرنے تھے۔ آپ کچھ اور نہ بھی کرتے تو کم از کم جیلوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے آپ کو توجہ دینی چاہیے  تھی۔اور وہ اس لئے بھی کہ اندازہ تو ہو چلا تھا کہ یہ جیلیں آپ کے استعما ل میں بھی آنے والی ہیں ۔ مری گورنر ہاؤس کے ایک ٹوائلٹ پر عوام کے ٹیکس سے ساٹھ کروڑ روپے خرچ کرنے والے راجوں مہاراجوں کو یہ خیا ل کیوں نہیں آیا کہ جیلوں کے باتھ روم بھی مرمت کروادیے  جائیں ۔ قیدیوں کے لئے نہیں تو کم از کم اپنے لئے ہی سہی۔ ساٹھ کروڑ سے جیلوں کے درجنوں باتھ روم بنائے جا سکتے تھے۔

عالی جاہ کی تکلیف نے مجھے مجبو رکیا کہ ایک نظر ملک کی جیلوں پر ڈالی جائے ۔جو صورت حال سامنے آئی وہ تشویشناک ہے۔ آئیے آپ بھی ملاحظہ کر لیں۔

ملک بھر میں جیلوں کا سرسری جائزہ لیں تو صورت حال یوں ہے۔ بلوچستان کی گیارہ جیلوں میں 2173 ، خیبرپختونخوا  کی تیئس جیلو ں میں 7983 ، پنجاب کی چالیس جیلوں میں 21527 ، سند ھ کی چھبیس جیلوں میں 10285 قیدیوں کی گنجائش ہے ۔ یعنی ملک بھر کی ایک صد جیلوں میں کل41868 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ جبکہ گورنمنٹ پنجاب کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق پندرہ مئی 2018 تک صرف پنجاب بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 48760 ہے۔ قیدیوں کی جتنی تعداد ملک بھر کی جیلوں میں سما سکتی ہے اس سے بھی زیادہ صرف پنجاب کی چالیس جیلوں میں بند ہے۔

عزت مآب یہ تو آپ کی ناک شریف کے نیچے ہو رہاتھا لیکن کبھی آپ نے ان قیدیوں کو انسان سمجھا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی طرف نظر التفات کی؟۔۔ عالی جاہ شہباز شریف صاحب یہ وہی صوبہ ہے جس کے بلا شرکت غیرے آ پ دس سال حکمران رہے ہیں۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قیدیوں کی کل تعداد 83718 ہے ۔ جبکہ ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش صرف41868 ہے
عزت مآب ان جیلوں کی حالت درست کرنے اور ضرورت کے مطابق وسعت دینے کی ذمہ داری آپ کی حکومت کی بھی تھی ۔ چوراسی ہزار قیدی بھی انسان ہی ہیں۔ شاید ان کے بھی کچھ بنیادی حقوق ہو نگے۔ ان میں سے کتنے روزانہ گندے باتھ روم استعمال کرکے خوشبو اور بد بو میں فرق بھی بھول چکے ہوں گے۔ جیل کے باتھ رومز کے باہر لگی لمبی قطار کی وجہ سے پرائیویسی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ ان باتھ روم میں پردہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک سوچوبیس سالوں سے رائج 1894 کے جیل ایکٹ کے مطابق ہر قیدی کو جب وہ بیرک میں بند ہو تو 18 مربع میٹر  جگہ ملنی  چاہیے  اور جب اسے سیل میں رکھا جائے تو یہ جگہ 31 مربع میٹر  ہو نی چاہیے۔ لیکن جب تعداد گنجائش سے دو گنا سے بھی زائد ہو تو کون سا قاعدہ اور کون ساکلیہ وہاں اپلائی کیا جا سکتا ہے ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قیدیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بند کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ان پڑھ دیہاتی چرواہا تو بھیڑ بکریوں کے ساتھ یہ سلوک روا نہیں رکھتا ۔ اسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بکریوں کی تعداد بڑھی ہے تو باڑہ کھلا کرنا ہے ۔ نئی گائے یا بھینس خریدی ہے تو کھرلی پر اس کی جگہ مخصوص کرنی ہے ۔ اس کے لئے الگ کھونٹی لگانی ہے ۔ اگر یہ بات معلوم نہیں تو صرف عالیجاہ کو معلوم نہیں ۔ عزت مآب کو معلوم نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک د یہاتی ، ان پڑھ اور اجڈ کو تو معلوم ہوتی ہے ۔ عالیجا ہ جب بات اپنے گھر کی طرف آئی تو آپ کو راتوں رات بنیادی انسانی حقوق کا پہاڑہ بھی یا د ہو گیا ۔ عالیجا ہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ انسان صرف اپنے آپ کو ہی سمجھتے ہیں ۔ اور حقوق بھی صرف آپ کے لئے مخصوص ہیں ۔
عزت مآب آئندہ نسلوں کو یہ لکھوا جائیں کہ اگر کبھی موقع ملے تو کم از کم جیلوں اور ان میں بند قیدیوں کو انسان سمجھتے ہوئے ان کے لئے بھی کوئی اصطلاحات کر جائیں ۔ یقیناًآپ یہ کام ان قیدیوں کے لئے تو نہیں کریں گے اپنے آپ کے لئے ہی کر جائیں کیونکہ نامعلوم کب کس کی باری آجائے ۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply