بچوں کی اموات سے گرد آلود منظر نامہ۔۔۔اسد مفتی

جاری سال یعنی 2018ء جہاں لاکھوں کروڑوں افراد کیلئے مسرت و شادمانی کا پیغام لارہا ہوگا۔ وہاں یہ دنیا کے پس ماندہ ممالک کے ان کروڑوں بچوں کیلئے آخری سانسوں کی خبر لارہا ہے جو دنیا کی عدم توجہی کے باعث بیماریوں اور کم غذائیت سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اگر کوئی فوری اور مثبت قدم نہ اٹھایا گیا تو 2025ء میں لگ بھگ دس کروڑ بچے غفلت کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے۔

عالمی سطح پر بچوں کی صورت حال سے متعلقہ ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بیماریوں سے تحفظ کا انجکشن نہ لگائے جانے کے بعد روزانہ آٹھ سو بچے جسم میں پانی کی کمی سے اور نمونیا سے سات ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ یہ زندگیاں بچانے کیلئے صرف 3.5بلین ڈالر کی ضرورت ہے (سالانہ)۔ اگر ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا، پس ماندہ ممالک، ترقی پذیر ممالک یا جو بھی نام دے لیں پر قرضوں کا بوجھ ختم کردیں اور ہتھیاروں، جنگی جہازوں اور میزائلوں پر اخراجات میں کمی کردیں تو دس برسوں کے دوران کم از کم پچاس ملین بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ اموات کے اس تخمینہ میں نصف کمی کے پروگرام پر 2.4سے 2.9ملین کے درمیان سالانہ خرچ آئے گا۔ یہ رقم ترقی پذیر ممالک کی طرف سے قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کیلئے ہر ہفتے ادا کی جاتی ہے اس رقم سے لاکھوں بچوں کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے کاندھوں پر قرضوں کا یہ بوجھ انہیں اس المیہ کی طرف پوری توجہ دینے کا وقت نہیں دے رہا، ویکسنیشن کے ذریعے لاکھوں بچوں کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ بچے خسرہ ،تشنج اور کالی کھانسی کے باعث ہلاک ہورہے ہیں اگرچہ یہ مرض پوری طرح قابل علاج ہے رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موت کے منہ میں جانے والے ان بچوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہ ہماری طرف سے معاشی غلطیوں کو درست کرنے اور حالات کو بہتر بنانے کا انتظار کرسکیں۔ رپورٹ میں ترقی پذیر ممالک کی سطح پر اس بات کا یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ تحفظ کے انجکشن، نمونیا اور سانس کی دوسری تکالیف، خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی غذا کو بہتر بناکر بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

ہارے بھی تو بازی مات نہیں ۔۔۔۔۔محمد اقبال دیوان

ترقی پذیر ممالک جن میں بدقسمتی سے کشور حسین شادباد بھی شامل ہے مستقبل میں اس ملک کو بہتر قوم دینے کیلئے آج کے بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کو بہتر و صاف ستھری فضا میں پلنے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ناگزیر ہے اس ضمن میں سرفہرست اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسف ہے جو لگ بھگ 180 ممالک میں ماؤ ں اور بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے 1950ء سے کام کررہا ہے۔ یہ ادارہ بچوں کے بارے میں معلومات کو عام لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور کتابچوں کی مدد سے عام لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ بچوں کے حقوق اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ آپ یقیناً عام لوگ نہیں ہیں پھر بھی کیا مضائقہ ہے کہ آپ بھی جان لیں۔

اچھی خوراک اور لباس کے علاوہ پیار و محبت بچوں کا پیدائشی حق ہے۔
بچوں سے رنگ، نسل، جنس، مذہب، قوم فرقہ اور سماجی رتبہ کا امتیاز نہ برتا جائے۔
امن اور بھائی چارے کی فضا میں پرورش کا موقع فراہم کیا جائے۔
ایک اچھا شہری بننے کیلئے تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔
مادری زبان سیکھنا اس میں تعلیم حاصل کرنا آپ کا اخلاقی فرض ہے۔
سب سے پہلے ’بچے‘ کی جان بچائی جائے (ہنگامی حالات میں)
معذور بچوں پر خاص توجہ دی جائے۔
ہر بچے کی پہچان کیلئے اسے نام اور شہریت کا حق حاصل ہے۔
ہر بچے کو کھیل و تفریح کے مواقع ملنے چاہئیں۔

بچے قدرت کا ایک ایسا انمول اور حسین تحفہ ہیں جو زندگی کو خوبصورت بناتا ہے اس کو رعنائی بخشتا ہے اس کو معنی دیتا ہے۔ بچوں کے معصوم، خوبصورت، پیارے، پھول اور کلیوں کی طرح کھلکھلاتے اور مسکراتے چہرے اس دنیا کو رنگین اور دلکش بنادیتے ہیں۔ ان کی دل موہ لینے والی گفتگو اور آواز فضا میں ترنم اور نغمگی بکھیر دیتی ہے بچوں کی معصوم اور پاکیزہ حرکتیں اور بے ضرر شرارتیں انسان کیلئے نہ صرف خوشی اور زندگی کا پیغام لاتی ہیں بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے چند لمحوں کیلئے بے گانہ اور بے خبر کردیتی ہیں بچوں کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں کہ جب تک یہ پھول اور کلیاں موجود ہیں ہماری زندگی کا باغ مہکتا رہے گا۔

کپتان کے نام ایک کھلا خط ۔۔۔۔روبینہ فیصل

آج جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چاند پر کمندیں ڈالنے کا دعویٰ کررہے ہیں اور غریبی، بیماریوں، کم غذائیت کو جڑ سے مٹانے کا عہد بھی کررہے ہیں اس وقت ایسی دلخراش خبریں واقعی قابل تشویش ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں دنیا نے زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی ہے اور وہیں یہ بات بھی اتنی ہی سچ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہی غریبی، مفلسی اور غذائیت کی کمی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہواہے اور عالمی تنظیمیں کوششوں کے باوجود اس پر بند باندھنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور نیپال میں غربت، بھوک اور کم غذائیت کے مارے خاندان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے حساب سے اگرچہ یہ مسئلہ عالمگیر نوعیت کا ہے تاہم ایشیائی اور افریقی ممالک کی اس ضمن میں زیادہ بری حالت ہے کیونکہ ان ممالک میں بنیادی سہولتوں کا ہی فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ جیسا کہ یونسیف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہم 2025ء تک بچوں کی کم غذائیت کے خلاف محاذ پر کامیابی حاصل کرلیں گے اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو بچوں کی اموات کم کرنے میں ہماری پیش رفت رک جائے گی کہ یہ ننھے فرشتے جن سے دنیا میں سچائی اور معصومیت ابھی باقی ہے ہماری زندگی کو رنگین ہی نہیں بناتے بلکہ مستقبل کے معمار بھی ہیں یہ کسی بھی ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جو آنے والے کل میں ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ انہیں کے ہاتھ میں ہماری خوشی و ترقی کی ڈور ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انہیں آنے والے وقت (دشوار) کیلئے تیار کیا جائے اور ان کو اتنا مضبوط، متوازن اور صحت مند بنایا جائے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اصولوں کے راستے سے نہ ہٹاسکے۔ میں بھی کوشش کرتا ہوں آپ بھی کیجئے۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply