مابعد ماہ رمضان

ماہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے اختتام کے بعد پھر ایک بار ہم ماہ شوال میں اپنے قدم ڈالنے جا رہے ہیں۔ ماہ شوال کا پہلا ہی دن ”عید الفطر“ کے طور منایا جاتاہے۔ عید یعنی خوشی، گویاماہ شوال کے پہلے دن ہی انسان کو ان تمام خوشیوں کی نوید سنائی جا رہی ہے کہ جس میں زندگی اور آخرت کی فلاح کا دارومدار ہے۔ خوشی اس بات کی کہ مسلمان نے پورے ماہ خدا کی حتی المقدور عبادت ”ٹریننگ پیریڈ“ حاصل کر کے اپنے لیے راہ راست کا صحیح ڈھنگ پایا۔ خوشی اس بات پر کہ مسلمان کے سارے گناہ معاف کر دیےگئے۔ خوشی اس بات کی کہ مسلمان نے وہ کچھ سیکھا جو بظاہر انسان کو مشکل دکھائی دے رہا تھا۔
مسلمان نے دیکھا کہ مسلسل نماز پڑھنے میں وقت ضائع نہیں ہوتا بلکہ کام میں برکت ہوتی ہے۔ ایک مومن نے پایا کہ جو لوگ آج کے اس نام نہاد جدید اور ترقی پسند دور میں اسلام پر چلنامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن قرار دیتے ہیں، اس پر چلنا کتنا ہی آسان ہے۔ مسلمان نے محسوس کیا کہ قرآن پاک کی تلاوت کا ہر روز اہتمام کرنے سے صرف اس کی قرا ت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی تلاوت سے دل کو سکون ، دماغ کو تازگی اور عملی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ مومن نے دیکھا کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتابلکہ اس میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی اس سے معاشرے پر اچھے نتائج نکل آتے ہیں۔ غرض مسلمان کو ایسی خوشی عطا کی گئی کہ اگر انسان ثابت قدمی دکھائے تو ہر روز انسان کو خوشی کا دن ”عید“ محسوس ہو گا۔ کیوں کہ اسلام نام ہی ہے خوشی کے پیغام کا۔ اسلام جب بھی اپنی اصل کے اعتبار سے تسلیم کیا گیا، تو ماحول پر اس کے اثرات ایسے پڑے کہ دنیا خوشیوں کا مسکن بن گئی۔
وہ قوم جس نے اسلام کو عملی اعتبار سے قبول کر لیا وہ جاہلیت سے نکل کر روشنی پا گئی۔ جہالت سے نکل سے خدا کے نور سے اس قدر منورہوئی کہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا کے غضب سے بچالیا بلکہ پوری عالم انسانیت کے لیے راہِ ہدایت کے پیامبر بن گئی۔ یہ سب کچھ اس پیغامِ خوشی میں ہے جو ایک مسلمان ومومن نے ماہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں میں پایا، جس پر شوال کے پہلے ہی روز خوشیاں منا ئیں جاتی ہیں۔ ماہ شوال کے اس مہینے میں ہمیں پہلے ہی روز یہ جو عید کی ”خوشی“ ملتی ہے یہ خدا کی طرف سے پہلے ہی روز ایک انعام ہوتا ہے، ایک اعلان ہوتا ہے، ایک پیغام ہوتاہے کہ” اے انسان آج کے بعد تو برابر ایسا ہے جیسے کہ تجھ سے کوئی خطا ہی نہیں ہوئی“ کیوں کہ تو نے ماہ مبارک میں خدا کی فرماں برداری کر کے اور فرماں برداری کا مکمل چاٹ (تقویٰ)حاصل کر کے اب وہ مقام پایا ہے جو تمہارے گناہوں کی بخشش کی وجہ بن گیا۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ ”جو لوگ ایمان اور احتساب کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھیں گے ،اس کے تمام گناہ بخش دئے جائیں گے“ گویا یکم شوال کے روز ایک مسلمان ایسا ہو جاتا ہے جیسے کہ اس کی پیدائش ہوئی ہو۔ اب مسلسل پاک وصاف رکھنے کے لیے مسلمان کوایک چارٹ دیا گیا، اس کے ہاتھ میں ایک پیغام نامہ تھما دیا گیا کہ اگر اس پر ثابت قدمی رہی تو دنیا میں عزت کا مقام حاصل ہو گا اور آخرت کی ابدی زندگی میں جنت تمہارا مقدر ہو گا، وہ تمہاری زندگی کی اصل عید ہو گی، لیکن اگر ثابت قدمی نہ رہی تو وہی کچھ پھر سامنے آئے گا جس سے انسان دوچار تھا۔
ماہ شوال اگرچہ ایک طرف خوشی کا پیغام ہے تو دوسری طرف اس بات کا اشارہ بھی کرتا ہے کہ اگر پھر واپس مڑے تو وہی حال ہو گا جو منکرین حق کا حال اس سے پہلے ہوا۔ دنیا تمہارے لیے عذاب اور بدمنی کا گہوارہ بن جائے گی اور آخرت میں ابدی خسران نصیب ہو گا۔ اب انسان کے سوچنے کا کیا انداز ہے کہ وہ اس خوشی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے یا ابدی خسارے کا سوداکرنا چاہتا ہے؟ یہ سب انسان کی کوشش اور اس کےعمل پر دارومدار ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت کریمہ میں ہے کہ :
”تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا“(سورةالنحل)
سید مودودیؒ نے بہت ہی عمدہ مثال دی ہے جو اس آیت کو سمجھنے کے لئے کسی حد تک کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ:
”آپ اس شخص کو احمق قرار دیں گے جو روٹی کھانے کے بعد فورًا ہی حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دے اور پھر شکایت کرتا ہو کہ روٹی کھانے کے جو فائدے بیان کئے جاتے ہیں وہ مجھے حاصل ہی نہیں ہوتے بلکہ میں تو اُلٹا روزبروز دُبلا ہی ہوتا جارہا ہوں اور مر جانے کی نوبت آگئی ہے۔ یہ احمق اپنی اس کمزوری کا الزام روٹی اور کھانے پر رکھتا ہے۔ حالانکہ حماقت اس کی اپنی ہے۔ اس نے اپنی نادانی سے یہ سمجھ لیا کہ کھانے کے فعل میں یہ جوچند ظاہری باتیں ہیں انہی کو ادا کر لینے سے بس زندگی کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے اس لئے اس نے سو چا کہ اب روٹی کا بوجھ اپنے معدے میں کیوں رکھوں؟ کیوں نہ اسے نکال پھینکا جائے تا کہ پیٹ ہلکا ہو جائے۔ کھانے کے کام کی ظاہری صورت تو میں ادا کرہی چکا ہوں۔ یہ احمقانہ خیال جو اس نے قائم کیا اور پھر اس کی پیروی کی تو اس کی سزا بھی تو آخر اسی کو بھگتنا چاہیے۔ اس کو جاننا چاہیے تھاکہ جب تک روٹی پیٹ میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر سارے جسم میں پھیل نہ جائے اس وقت تک زندگی کی طاقت حاصل نہیں ہوسکتی۔ کھانے کے ظاہری ارکان بھی اگرچہ ضروری ہیں کیونکہ ان کے بغیر روٹی معدے تک نہیں پہنچ سکتی مگر محض ان ظاہری ارکان کے ادا کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ ان ارکان میں کوئی جادو بھرا ہوا نہیں ہے کہ انھیں ادا کرنے سے بس طلسماتی طریقے پر آدمی کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ہو۔
خون پیدا کرنے کے لئے تو آ قانے جو قانون بنایا ہے اسی کے مطابق وہ پیدا ہوگا اس کو توڑ دو گے تو اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گے۔“ مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی چیز کی طرف اشارہ ہے کہ ایک عورت مہینے بھر محنت ومشقت کے ساتھ سوت کاتے اور جب وہ تیار ہو جائے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ بہر حال یہ احمقوں اور نادانوں کا کام ہے۔ کھانا کھا کر حلق میں انگلی ڈالنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ایک عالم دین اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ:
”یہ کیا ماجر اہے کہ رمضان بھر میں تقریبًا تین سو ساٹھ گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی ہی تاریخ کو کافور ہوجاتے ہیں؟ غیر مسلم اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے دن کرتے ہیں ۔حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے دن بد کاری اور شراب نوشی اور قماربازی تک ہوتی ہے اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور بدکاری کرتے ہیں۔عام مسلمان خدا کے فضل سے اتنے بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں مگر ماہ رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اُٹھارکھی جاتی ہے؟ اس احمق کی طرح قے کرکے روزے کو اپنے اندر سے نکال پھینک دیا جاتا ہے بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ کھولنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتائیے کہ رمضان اور اس کے روزے کوئی طلسم تو ہیں نہیں کہ بس ان کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے حاصل ہونی چاہیے۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے اسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح نہیں سمجھے اور اپنے دماغ کے اندر اس کو اترنے اور خیال، نیت، ارادہ اور عمل پر چھا جانے کا موقع نہ دے“۔
غرض ماہ شوال کا پہلا دن جو ”عید الفطر“ کہلاتا ہے، مسلمان کے لیے اس میں ایک پیغام خوشی ہے۔ کہ اے انسان!تو نے جو پورے مہینے حاصل کیا اس پر آج تجھے خوشیاں مل رہی ہیں اور اگر اسی طرح اسی راہ پر ثابت قدم رہے تو یہ خوشیاں اس دنیا میں تمام عمر تمہارا مقدر بنیں گی اور آخرت میں ابدی خوشیاں تمہارے لیے سب سے بڑا انعام ہو گا۔ پوری زندگی اگر اسی طرح خدا کی فرماں برداری میں رہی تو مرنے کے بعد تمہارا پہلا ہی روز ”عید“خوشی کا ہو گا، اور اگر ثابت قدمی چھوڑ کر اس سے راہ فرار اختیار کر لی، یہ سمجھ کر کہ” ایک پورے مہینے میں بہت کچھ کمایا ہے“ تو اگرچہ تم بظاہر دنیا میں ترقی کی منزلیں پا جائو لیکن آخرت کے دربار میں تم رسوا ہو جائوگے اور تمہارے لیے انعامات نہیں، تمہارے لیے کوئی خوشی نہیں بلکہ تمہارے لیے تم ہی کو ایندھن بنا کر عذاب دیا جائے گا۔ ایسا عذاب جو نہ تو ر کنے والا ہے اور نہ کم ہونے والا۔ بلکہ وہ ایسا درد ناک منظر ہو گا جس کے بارے میں سن کر ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اس لحاظ سے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جو عید ہم منا رہے ہیں اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ یہ خوشی”عید“ ایک مسلمان صرف عیدکے دن تک ہی محدود رکھتا چاہتا ہے یا پوری زندگی خوشی سے گزارنا چاہتا ہے؟بلکہ زندگی کے بعد جو ابدی زندگی حاصل ہونے والی ہے ، اس کو بھی خوشیوں سے بھردینا چاہتاہے؟ انسان خود سوچے اور خود ہی طے کرے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ ابدی خوشیاں یا ابدی غم؟ خود غور کیجئے اور غود ہی فیصلہ لیجئے

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply