درینگڑھ مستونگ کی کچھ اور لاشیں ۔۔۔ مدثر اقبال عمیر

درینگڑھ مستونگ میں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہیں۔

150 سے زائد شہدا ء کی جھلسی ہوئی لاشیں، لہو میں لتھڑی لاشیں، سوال پوچھتی لاشیں، کہ ہمارا قصور کیا ہے؟

ان شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ ساتھ کچھ اور لاشیں بھی ہیں جن پر بین بنتا ہے، جن پر ماتم بنتا ہے۔ یہ لاشیں بھی ملکی میڈیا نہیں دکھا رہا۔ یہ لاشیں خوابوں کی سر بریدہ لاشیں ہیں، حسرتوں کی مردہ نعشیں ہیں، خوشیوں کے ٹھنڈے پڑے لاشے ہیں جو درینگڑھ کے ان شہدا سمیت خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ 

ایک نعش پرامن مستقبل کے خواب کی لاش ہے جس سے تازہ تازہ خون رس رہا ہے۔ نعش کی آنکھیں دھماکے میں سلامت نہیں رہیں۔ اب وہاں صرف تاریکی ہے۔ گھپ اندھیرا ہے۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ خواب دیکھنے کی سزا ملی ہے۔ رستا لہو درینگڑھ کی مٹی پہ ایک تحریر رقم کررہا ہے۔ 

“کیوں دیکھا خواب؟ خواب تو ہوتے ہی ٹوٹنے کے لئےہیں۔ لو ٹوٹ گیا ناں؟ اب سنبھالو کرچیاں۔ لیکن خیال رکھنا۔ یہ کرچیاں جھلسی ہوئی ہیں۔ دوبارہ جڑنے میں وقت لگے گا”۔

کچھ لاشوں کے سر سلامت نہیں ہیں۔ یہ حسرتوں کی لاشیں ہیں۔ ناتمام خواہشوں کی لاشیں ہیں۔ ان سے ابھی تک دھواں نکل رہا ہے۔ سر نہ ہونے کی وجہ سے پہچانا نہیں جارہا کہ بچوں کے لئے بہتر تعلیم کی لاش کون سی ہےاور باعزت روزگار کی کون سی۔  کوئٹہ یا کراچی کی بجائے مستونگ ہی میں بہترین علاج کا لاشہ کون سا ہے اور باقی پاکستان کے سنگ سنگ چلنے کا لاشہ کان سا۔ ایک لاش کے ہونٹوں پہ پپڑی جمی ہے۔ شاید مرنے سے پہلے شدید پیاسی تھی۔ یہ لاش جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ یہ پانی کی خواہش کی لاش ہے۔ ایک لاش تو راکھ ہوچکی تھی صاف لگ رہا ہے یہ اس احساس کی لاش ہے کہ اب مجھے کچھ نہیں ہوگا۔

ان لاشوں میں سب سے اوپر جو لاشیں ہیں، دھاتی چھروں، لوہے کی کیلوں سے چھلنی لاشیں یہ خوشیوں کی لاشیں ہیں۔ ان لاشوں کی عمر بہت کم ہے۔ ساری لاشیں پانچ سال سے کم عمر کی ہیں۔ ایک لاش کا نام امن بتایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ کاروبار کی نعش پڑی ہے۔ وہیں ایک چھوٹی سی لاش کی آنکھیں حیرت اور کرب سے پھٹی ہوئی ہیں۔ یہ رونق کی لاش ہے جو شاید سال دو سال کی لگ رہی ہے۔ سنا ہے چہروں اور بازاروں پہ لوٹ آئی تھی۔ 

لیکن سب سے چھوٹی لاش جو بالکل ہی نوزائدہ لگ رہی ہے، لگتا ہے کچھ دن پہلے ہی اس نے وجود پایا تھا اور اب مرچکی ہے۔۔ وہ بھی۔۔ اک خودکش حملے میں!

میں نے پوچھا “یہ کس کی لاش ہے؟”

جواب ملا مگر برف سا سرد، آتش فشاں سا سلگتا!

Advertisements
julia rana solicitors

“پرامن الیکشن ہونے کی خوشی کی لاش”۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply