میدان بدر( 1978 کے ایک دن کی روداد)

مسجد العريش ٹھیک اس مقام پر ہے جہاں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے چھوٹی سی سایہ دار جگہ بنا دی گئی تھی وہاں سے گزرتے ہوئے کئی جگہوں پر اس خیال سے سجدے کئے کہ شاید میرے محبوب کے قدم مبارک یہاں پڑے ہوں… شاید یہاں… شاید یہاں…. چشم تصور سے جنگ ہوتی دیکھی، حمزہ و حیدر کی تلواریں عتبہ، شیبہ اور ولید کے قتلے کر رہی تھیں، کفر خاک چاٹ رہا تھا… وعدہ پہلے سے تھا، اس پر یقین بھی تھا.. لیکن محبت کے تقاضے ذرا اور طرح کے ہوتے ہیں ….
اکنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغباں
بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد
معاذ و معوذ سے ملاقات ہوئی، چچا ابن عوف سے ابوجہل کا اتہ پتہ پوچھ رہے تھے، لمحوں بعد قریش کا سپہ سالار خاک و خون میں غلطاں تھا. شیخ نجد خوف خدا سے پہلے ہی بھاگ کھڑا ہوا تھا…… ابن مسعود اپنے نحیف بدن اور کمزور ٹانگوں کے ساتھ سر شام تلاش میں نکلے تو ملاقات ہوئی، کہنے لگا، جنگ میں فتح و شکست کھیل کا حصہ ہے، بس ذرا نیچے سے کاٹنا تاکہ سروں کی قطار میں بڑا نظر آئے….. شہدائے بدر کے مزارات ہوتے تو نہ معلوم اللہ کی توحید سلامت رہ سکتی یا پامال ہو جاتی…. اس لئے ایک نشیبی جگہ جس کے ارد گرد شاید ترکی دور کی اینٹیں باقی بچ رہی ہیں شناخت کی جاتی ہے…… کنواں ابھی تک تھا، کھجور کے کچھ درخت بھی……
وہ تو رحمۃ للعالمین تھے، گوارا نہیں ہوا کہ مردار لاشے گدھوں کے لیے چھوڑ دئیے جائیں جبکہ عرب کا رواج یہی تھا….. زحمت اٹھائ اور مٹی کے سپرد کر دئیے گئے…. امتحان صرف یہ نہیں تھا کہ تعداد میں تفاوت تھا، سروسامان کی کمی تھی، اصل امتحان یہ تھا کہ ایک قبائلی سماج میں دونوں طرف ایک ہی خون، ایک نسل اور ایک خاندان تھا….. تاریخ نے دیکھا کہ اس میدان میں رشتے ایمان کی راہ میں دامن گیر نہیں ہوئے…… مدینے کی سسکتی ہوئ معیشت پر جو پہلے بھی مہاجرین کے اضافی بوجھ سے گراں بار تھی قیدیوں کا اضافی بوجھ ان پڑا….. لیکن صفحہ عالم پر ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی تھی کہ فاتح آقا بھوکے رہ کر دشمن قیدیوں کو کھانا کھلا رہے تھے.یہ مقام یونہی تو نہیں مل گیا تھا کہ….. آپ نے فرمایا
اللہ نے اہل بدر کے دل اندر تک اور دور تک ٹٹول کر جانچ لئے اور اعلان کر دیا، جو چاہو کرو میری مغفرت کے دامن میں ہی رہو گے.

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply