• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قوم کی بیٹیاں اور ڈرامے۔ خاندان کا تحفظ یا نفس کی تسکین؟

قوم کی بیٹیاں اور ڈرامے۔ خاندان کا تحفظ یا نفس کی تسکین؟

چند ماہ پہلےکی بات ہے۔ پی ٹی وی ہوم پر ایک ڈرامہ دکھایا گیا تھا۔ ایک لڑکی، جو ڈرامےکا مرکزی کردار تھی، کے رشتے کے لئے ایک عورت، اس کا شوہراور بیٹا آئے ہوئے تھے۔ لڑکی انہیں پسند آئی، اس کے بعد لڑکے کی ماں نے دبے لفظوں میں جہیز کا تقاضا کیا۔ لڑکی، جو کچھ فاصلےپر کھڑی یہ  باتیں سن رہی تھی، اس پر بھڑک اٹھی اور اس نےاپنے ماں باپ کی موجودگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس عورت سے کہا ’’معاف کیجئے آپ کو اپنے بیٹے کے لئے بیوی چاہیئے یاگھر کےلئے جہیز؟‘‘۔ پھر اس نے کھڑےکھڑےفیصلہ سنا دیا کہ وہ کسی ایسے گھر میں شادی نہیں کرے گی جو جہیز مانگے گا   اور پھر انہیں درشت لہجے میں فوراً چلے جانے کو کہا۔ لڑکے لڑکی دونوں کے والدین حیران ایک دوسرے کا منہ تکنےلگے۔ لڑکے کی ماں اٹھی تو لڑکے نے اسے بٹھا دیا اور اپنافیصلہ سنا دیا کہ وہ اسی لڑکی سےہی شادی کرے گا۔ پھر شادی ہو گئی، لڑکا لڑکی نے چند روز ہنسی خوشی گزارے ۔پھر بہو ساس کی روایتی ان بن ہو نے لگی مگر لڑکے کی ماں اگر ایک بات سناتی تو ’نڈر اور حق گو‘ لڑکی بھی دو بدو جواب دیتی۔ لڑکی کی تیزی کی شکایت ماں نے بیٹےسےکردی اور اس نے بیوی سے شکایت کی تو ‘‘حق گو صاحبہ’’ یہاں بھی خوب برسی اور اپنی بے گناہی کا رونا روتی رہی۔ مرتا کیا نہ کرتا شوہر برداشت اور خوش اخلاقی کی تلقین کرتا چلا گیا۔اس کے بعد  بھی کئی دفعہ ساس بہو کےدرمیان چپقلش ہوئی اور  لڑکی سا س کے ساتھ تیزی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ 

ایک روز لڑکی کی ساس کے ساتھ حسب دستور توتو میں میں جاری تھی کہ بیٹا اندر آیا۔ ماں اسے دیکھ کر چپ ہو گئی مگر بیوی کی شوہر کی طرف پشت تھی، وہ اسے دیکھ نہ پائی اور وہ ساس کے ساتھ غصے میں بات کرتی رہی۔ کچھ دیر بعد بیٹا سامنے آیا اور اس نے  اپنی ماں کے ساتھ بیوی کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا تو لڑکی نے اپنی باتوں کی صفائی دینی چاہی اور معذرت کرنے سے انکار کر دیا۔  شوہر کے ساتھ بھی اس کا لہجہ سخت تھا اور جب شوہر نے اس کو کہا کہ وہ اپنا رویہ درست کرے ورنہ اسے میکے چلےجانا ہوگا تو اس نے اپنے ماں باپ کی عزت پر کوئی سمجھوتہ کرنےسے انکار کرتے ہوئے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ نئی نویلی دلہن بیٹی اکیلےگھر لوٹ آئی تو ماں باپ رونے دھونےلگے۔ وہاں لڑکی کا کوئی دور کا کزن اس وقت موجود تھا، اسے بھی ایک ایسی ہی لڑکی کا انتظار تھا چنانچہ اس نے لڑکی کو شریک حیات بنانے کا فیصلہ کر دیا۔ ڈرامہ یوں ہنسی خوشی ختم ہو گیا۔

اس ڈرامے کے محاسن و نقائص پر بات کر نےسے پہلے چند ضروری گزارشات  پیش خدمت ہیں ۔
1۔ اسلام نے شادی کے وقت مرد و عورت دونوں  کو انتخاب کاحق دیا ہے اور شادی کے وقوع کےلئے دونوں کی رضامندی کو بنیادی شرط قراردیا ہے۔
2۔ اسلام رشتوں ناتوں کو جوڑنے اور انہیں توڑنے سے اجتناب کی ہدایت کرتا ہے اور رشتے ناتے توڑنے والے کو جنت سے محروم قرار دیتا ہے۔  ناچاقی کی صورت میں مرد کو طلاق جبکہ عورت کو خلع کا حق حاصل ہے۔ تاہم رشتوں کو قائم رکھنے کے لیے اسلام طلاق کو جائز مگر ناپسندیدہ عمل گردانتا ہے۔ 
3۔ اسلام شوہر اور بیوی دونوں کو باہمی محبت، برداشت، احترام اور وفاداری کی تلقین کرتا ہے۔ 
4۔ اسلام معاشرتی میل جول اور خانگی زندگی دونوں میں برداشت، رواداری، خوش اخلاقی اور عفو و درگزر کا درس دیتا ہے۔
5۔ جہیز اپنی حیثیت کے مطابق دینا چاہیئے اوراس کی بنیاد پر رشتہ کرنا یا توڑنا ایک قبیح عمل ہے جس کی ایک شریف آدمی سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ اس ظلم سے بری ہیں کہ جہیز نہ ہونے کی  وجہ سے قوم کی بیٹیاں تجرد کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔

آئیےاب اس ڈرامے پر بات کرتےہیں۔ اس ڈرامے کے پلاٹ میں موجود چند بنیادی نقائص ( جیسے ڈرامے میں دکھائےجانے والے مفلس خاندان میں لڑکےکا  رشتے سے پہلے ہی ماں باپ کےساتھ  رشتہ کرنےلڑکی کےگھرجانا، لڑکی کی وہاں باتوں میں مداخلت اور آخر میں طلاق و عدت کے بغیر ہی دوسری شادی کے لئے راضی ہونا وغیرہ) کے پسِ پردہ ڈرامہ نگار نے قوم کی بیٹیوں کو جو تعلیم دی ہےاس کاخلاصہ یہ ہے۔ 
’’جہیز ایک لعنت ہے،اس سے نجات کےلئےلڑکیوں کواپنے معاملات اور فیصلے اپنے ہاتھوں میں لینے ہوں گے، صبر و برداشت کی جگہ ردعمل اورانتقام کو طرزعمل بنانا ہوگا، خوش اخلاقی اور اطاعت کی بجائےوالدین کی نافرمانی اور بزرگوں سےگستاخی کوشعار بنانا ہوگا۔ انہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ شرافت کی بجائے دھونس سے کام لیں تاکہ ہر کوئی ان سے ڈرے۔ ساس سے دب کر بات کرنے کی بجائے اسے دو بدو جواب  دیں۔  ایسا کرتے ہوئےانہیں اس اندیشے میں نہیں پڑنا چاہئیےکہ یہ رشتہ ٹوٹ گیا تو پھر ان کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ جیسے ہی اس رشتے کوتوڑ دیں گی، انہیں نئے رشتے فوراً مل جائیں گے۔’’  

ڈرامےمیں جس طرح دکھایاگیا عملی زندگی میں ویسا کہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ جب لڑکی ماں باپ کے سامنے ہی گھر آئے ہوئے مہمانوں کی کلاس لےلے تو ایسی ‘‘خوش اخلاق’’ لڑکی کو کون بہو کے طورپہ قبول کرےگا؟۔ اس لڑکی کو زبان دراز اور گستاخ نہیں سمجھا جاتا کیا؟۔ ایسی لڑکی کو کوئی کیوں بہو بنا کر گھر میں آفت کی پرکالہ لانے کی کوشش کرے گا، یہ بات سمجھ نہیں آئی۔پھر ڈرامے میں جس طرح اس حق گو لڑکی کو ہر بار اس کی ‘حق گوئی‘  پر انعام دیا گیاکہ پہلی بدسلوکی کےباوجود لڑکے نے اس سے شادی کی اور پھر اس کے ساتھ جیسے ہی ناچاقی پیدا ہو گئی تو دوسرا لڑکا اسی وقت اس سےشادی کےلئے تیار ہو گیا ایسے اتفاقات کا عملی زندگی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سوچیے اس ڈرامے کو دیکھنےوالی  اور اس سے سبق لینے والی کوئی دختر ملت اس امید پر اپنا ایک رشتہ ختم کرے گی کہ اسےمتبادل رشتہ فوراً مل جائے گا اور پھر ویسا نہ ہو تو وہ اپنی ناکامی اور تنہائی کی شکایت کس سے کرے گی؟ڈرامے میں جس طرح لڑکی کو بات بات پر غصے اور جذبات میں بات کرتے، بازپرس کرتے اور بات بے بات بتنگڑ بناتے دکھایا گیا اور اس پر اسے جیسا انعام ملنا دکھایا گیا اسے یقیناً بد خوئی، جذباتیت، اور عدم برداشت کی تبلیغ ہی سمجھا جائے گا نہ کہ جہیز کی بیخ کنی اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی کوشش۔۔

میری ان معروضات کو اگر کوئی ان معنوں میں لے گاکہ میں عورتوں کو نکاح سے پہلے حق انتخاب  کا منکر یا ان پر ظلم وجبر کا قائل ہوں تو یہ اس کی اپنی کج فہمی پر دلالت کرے گی۔ میں جو چاہتا ہوں وہ یہ ہےکہ یہ جہیزکی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا کام بد تہذیبی اور ناشائستگی کے بغیر اور صبر و حکمت ، خوش اخلاقی اور خدمت و احترام سے بدرجہا بہتر اندازمیں ممکن ہو سکتی ہے۔قوم کی بیٹیوں کو ردعمل اور انتقام کی راہ پر ڈالنے کے متمنی کیا نہیں جانتے کہ یہ راستہ رشتوں میں دائمی بگا ڑ اور تباہی پر منتج ہوتا ہے؟۔ یہ بات سمجھنے کےلئے عقل کُل ہونے کی ضرورت نہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ رشتوں کو قائم رکھنےکا آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ ایک طرف سے اگر زیادتی ہو، جذباتی رویہ ،عدم برداشت اور ترش خوئی سامنے آئے اور اس وقت جواب دینے سے بات مزید بگڑنے اور رشتےختم ہونے کا خدشہ ہو تو دوسرا فریق صبر و حکمت سے کام لے اور خاموشی اختیار کرلے۔اختلاف اور لڑائی گھر کی ہو یا باہر کی اس کے ہنگام صبر سے کام لینا ، خاموش رہنا اور میٹھےبول بولنا امن لانے، رشتوں کو قائم رکھنے اور دوستی و پیار قائم کرنے کا ایک بہترین اور یقینی راستہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

طاہرعلی خان فری لانس صحافی ہیں، رواداری ، احترام انسانیت اور امن کے پرچارک ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے لکھتے ہیں۔   وہ www.tahirkatlang.wordpress.com کے نام سے بلاگ بھی رکھتے ہیں ۔   

Facebook Comments

طاہرعلی خان
طاہرعلی خان ایک ماہرتعلیم اورکالم نگار ہیں جو رواداری، احترام انسانیت، اعتدال اورامن کو عزیز رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply