پاکستانی جمہوریت۔۔۔داؤد ظفر ندیم

یہ اچھی بات ہے کہ تیسری دفعہ مسلسل الیکشن ہو رہے ہیں اور الیکشن کے ذریعے ایک اور انتقال اقتدار ہونے جارہا ہے دو جماعتیں آمنے سامنے ہیں ایک جماعت تو سول سپر میسی کی جنگ لڑنے میدان میں آرہی ہے۔ مگر میں دونوں جماعتوں کو دائیں بازو کی جماعتیں سمجھتا ہوں جن کے لئے مزدور یونینز، لیبر یونینز اور نچلے متوسط طبقے کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔

پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے زوال نے سنٹر آف لیفٹ کی سیاست پر یقین رکھنے والے ہم  جیسے لوگوں کو ایک کونے میں دھکیل دیا ہے ،پیپلز پارٹی کے زوال کی وجہ بھی یہی بنی کہ اس نے مزدور یونینز کی جانب توجہ ترک کردی۔ کسان تنظیموں کو بنانے اور ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن جس سول سپرمیسی کی سیاست کا علم اٹھا رہی ہے اس میں مزدور، اساتذہ، طلبہ یا کسانوں کی شمولیت کہاں ہے۔ یہ سول سپر میسی کے نام پر پنجاب کے صنعت کاروں اور تاجروں کے ایک گروپ کی جنگ نظر آرہی ہے۔

میرے دوست مجھے جتنا مرضی قائل کریں کہ نواز شریف اس وقت جمہوریت کی جنگ لڑ رہا ہے مجھے تو یہ صنعتی اور تجارتی گروپ کی طرف سے اختیارات اور طاقت میں توسیع کی جدوجہد نظر آرہی ہے۔ عمران خاں کا بھی ایجنڈا صنعتی گروپوں اور تجارتی گروپوں کی کاروباری سرگرمیوں کے لئے بہتر ماحول فراہم کرنے کا نظر آتا ہے جہاں انھیں کم سے کم حکومتی مداخلت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس سارے معاملے میں مزدوروں، کسانوں اور نچلے متوسط طبقے کی آواز اٹھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے بیلٹ پیپر پر خالی خانہ بھی نہیں کہ ہم ان جماعتوں اور امیدواروں پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کرسکیں۔

ملک میں روشن خیالی اور برداشت کی جنگ ہو، نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کی بات ہو، مزدوروں کسانوں اور نچلے متوسط طبقے کو اختیار اور طاقت میں شریک کرنے کا معاملہ ہو۔ ہمیں کوئی جماعت نظر نہیں آتی۔ جہاں تعلیم اور صحت پرائیویٹ شعبوں میں جا چکے ہیں۔ اور دن بدن پرائیویٹ شعبے کا عمل دخل بڑھ رہا ہے۔ وہاں ایک نچلے متوسط طبقے کا فرد تعلیم اور صحت کے زمرے میں سخت پریشانی کا شکار ہے۔ کچھ محدود سکول اور ہسپتال بہتر کرنے سے ملک کی اکثریت کی آبادی کے لئے ان سہولیات کے حصول کے لئے ذلت و خواری میں اضافہ ہوا ہے، کچھ مخصوص شہروں میں کچھ مخصوص راستوں پر میٹرو اور اورنج چلانے سے پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔

اگر  جمہوریت مراعات یافتہ طبقوں کو ہی مزید طاقتور بنانے کا نام ہے تو موجودہ سیاسی جماعتیں ہمارے مقصد کو پورا نہیں کرتیں کیونکہ کم مراعات یافتہ ار محروم طبقے کی آواز اٹھانے والا اب ،میدان میں کوئی نہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس عدم اعتماد کا حق بھی نہیں کہ ہم الیکشن والے دن خالی خانے پر مہر لگا کر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر سکیں۔

پاکستان میں موجودہ جمہوریت پنجاب کے صنعتکاروں، تاجروں اور پراپرٹی ڈیلروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ دونوں بڑی  سیاسی جماعتوں میں پنجاب کے صنعت کاروں، تاجروں اور پراپرٹی ڈیلروں کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ضروری ہے کہ ایسی سیاسی جماعت تشکیل ہو جس کی قوت مزدور یونینز، کسانوں کی تنظیمیں، اور نجی شعبوں میں کام کرنے والے نچلے مڈل کلاس طبقے کے لوگ ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب تک جمہوریت میں مزدور، کسان اور نچلے مڈل کلاس طبقے کے لوگ شامل نہیں ہوتے جمہوریت محض صنعت کاروں ور تاجروں کی لونڈی ہے اور یہ مقتدر گروپوں کی باہمی کشمکش ہے۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply