منٹو پر شاید ہی اتنا ظلم اسکی زندگی میں ہوا ہو جتنا آج اسکے افکار کے ساتھ ہو رہا ہے۔ میم سے منٹو سمجھنے کے بجائے پورا زور میم سے مرد پر لگ رہا ہے۔ مرد یہ ہے مرد وہ ہے۔۔۔۔۔ عورت ایسی عورت ویسی۔۔۔۔۔۔
اگر منٹو کا منطقی انجام میل شوون ازم اور فیمن ازم ہے تو لاکھ شکر کہ لوگوں کے ہاتھ فرائیڈ نہیں لگا ورنہ نہیں معلوم اس کا پاکستانی فلٹر سے گزر کر کیا حشر ہونا تھا۔ ادب برائے ادب، تحلیل نفسی، سرریل ازم منٹو کی تشریح اس تناظر میں ہونی چاہیے، خطوط والا منٹو افسانہ نگار منٹو سے کتنا مختلف اور کیوں مختلف ہے؟
تخلیقی محرکات کیا ہیں؟
اس پر اظہار رائے ہونی چاہیے تھی، بجائے اسکے منٹو کو بنیاد بنا کر مرد و عورت کی ایک عجب جنگ شروع کر دی گئی ہے۔ جنس نظام فطرت میں ارتقا کا سبب ہے جس کا اظہار کسی نہ کسی طریقے سے فطرت میں جاری تھا، ہے اور رہے گا اور نوع انسانی کے ارتقاء کے لیے مرد و عورت دونوں ناگزیر تھے اور ہیں۔
مرد و عورت کے درمیان تعلق فطری اور ناگزیر ہے، تعلق کے بعد کے نتائج فطری ہونے کے بجائے نسبتی ہیں جنہیں معاشرہ طے کرتا ہے اور ایک معاشرے میں جس عمل کو لعنت سے نوازا جاتا ہے دوسرا معاشرہ اسے قبول کر رہا ہوتا ہے۔
اگر اسی طرح منٹو کی بیان کردہ ہوس پرستی کو پوری مرد یا عورت ذات پر لاگو کرنا ہے تو ہر انسان ایک ہوس پرست کی ہوس پرستی کا نتیجہ ہے۔ نظام فطرت بہت مضبوط ہوتا ہے اس کا بگڑنا تو مشکل ہے البتہ اس مرد و عورت نفرت و الزام درازی مہم سے خود کو ذہنی مریض ضرور بنایا جاسکتا ہے ، ذہنی نابالغین منٹو پر احسان فرمائیں ،اس کا حشر بچوں کے ہاتھ آئے فٹ بال جیسا نہ کریں، گلی محلے کے معاشقوں سے آگے بھی دنیا ہے اور اس میں مرد و عورت ہی بستے ہیں۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں