مثالی معاشرہ

مثالی معاشرہ کیسے بنا یاجا سکتا ہے۔ مثالی معاشرہ بے شک مثالی انسان ہی تشکیل دیتے ہیں اگر فرد مثالی ہو گا تو معاشرہ خود بخود مثالی بن جائے گا۔دین اسلام صرف نظریات کا نام نہیں ہے بلکہ ایک زندہ وجاوید عملی مذہب ہے۔ سب سے پہلے افراد کو اس کا اہل بناتا ہے اور ایسے افراد کے ذریعہ صالح ومثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں علم ودانش کی شدید کمی ، اپنی معلومات کو حتمی سمجھنا ، اخلاق اور تمیز کے دائروں سے کوئی آگاہی نہیں ، دوسروں کو کچھ نہ سمجھنا، بدگوئی، اخلاق سے عاری، پیسے کا بے انتہااستعمال ، ہر کام میں دکھاوا کونسی سی ایسی برائی ہے جو آج ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں؟ ہم اس بہترین مذہب کا حصہ ہیں جس میں سب کے ساتھ برابری و حسن سلوک کا درس ہے تو پھر ہمارے پاس بہترین مثالی معاشرہ کیوں نہیں ؟ بے شک اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی مثالی معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔
ایک طرف جہاں تمام ٹی وی چینلز نے عبادات سے بھٹکا کر گاڑی، موٹر سائیکل،موبائل اور برانڈز کے ملبوسات کے لالچ میں بھکاری بنادیاہے جو کہ دور جاہلیت میں حج کی عظیم عبادت کا تقدس پامال کرنے کے لئے کفار مکہ عکاظ کا میلہ سجاتے تھے۔ اسی طرح اورآج کے دور میں رمضان کی عظیم عبادت کے تقدس کوپامال کرنے کے لئے رمضان ٹرانسمیشنز نشر کی جاتی ہیں۔ عکاظ کے میلے کے آرگنائزرز ابوجہل اور ابو لہب جیسے لوگ تھے اور آج نام نہاد رمضان ٹرانسمیشن کے آرگنائزرز ان کے پیروکار ہیں۔
ان لوگوں نے مذہب کو کمرشل کر دیا ہے ۔عوام کو رمضان المبارک جیسے نیکیوں کے موسم بہار میں جب ہر نیکی کا صلہ کئی گناہ بڑھ جاتا ہے عوام الناس کو کسی اور ہی چکر میں لگا دیا ہے مگر اس پر فتن دور میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اصلاح معاشرہ اور معاشرے کو مثالی معاشرہ بنانے کے در پے ہیں ۔جہاں وہ اپنے ناظرین کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ مقصد حیات کیا ہے ؟ وقت کا صحیح استعمال کیا ہے ؟ آزادی کیاہے ؟ناکامی کے اسباب کیا ہیں؟ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ عدم برداشت کی وجہ کیا ہے ؟فرمانبردار اولاد ہونا کتنی بڑی سعادت کی بات ہے۔ والد ین کی ناراضی میں سارے جہاں کی ناراضی ہے، اگر اولاد صرف و صرف اپنے ماں باپ کی رضا میں راضی ہو جائے تو ان سے اللہ جل شانہ بھی راضی ہو جاتا ہے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کیا فرق ہے ؟
اس سال ہم نے شیطان کے چیلوں کی رمضان ٹرانسمیشن کا خود ساختہ بائیکاٹ کیا اور افطار کے بعد اتفاق سے ٹی وی ٹوئن کیا تو دعوت اسلامی کے مدنی چینل پر “مثالی معاشرہ “کے نام سے پروگرام چل رہا تھا جس پر ایک باریش اورباشرع مبلغ حاجی عمران عطاری نوجوانوں کو “آزادی” پرنصیحت کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ آزادی کسی طور بھی والدین کی نافرمانی اور دل آزاری کی اجازت نہیں دیتی۔
آج کے نوجوان آزادی کے نام پر جن خرافات کو اپنا رہے ہیں وہ کسی طور بھی ہمیں مثالی معاشرے کی طرف نہیں لے جاتے ۔والدین کی فرمانبرداری اور حسن سلوک میں ہی ہمیں دونوں جہاں کی کامیابی ہے ۔آزادی کا مطلب قطعاًبغاوت نہیں بلکہ مذہبی رسومات کو آزادی سے انجام دینا آزادی ہے ۔ جس طرح خواتین کو آزادی کے نام پر بہکایا جا رہا ہے وہ آزادی نہیں بلکہ گمراہی ہے ۔جتنی عزت و حرمت آزادی کے ساتھ خواتین کو مذہب اسلام نے دی ہے وہ کسی مذہب اور معاشرے نے نہیں دی ، خواتین معاشرے کو مثالی معاشرے بنانےمیں بہترین کردار ادا کر سکتی ہیں ۔
دوران پروگرا م ہم نے اپنے دونوں بیٹوںکو آواز دی اور کہا کہ ساتھ بیٹھ کر یہ پروگرام دیکھو اور اسی دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ ذرائع ابلاغ صرف گمراہی ہی نہیں بلکہ آگاہی کا کام بھی کر رہا ہے۔ مدنی چینل وہ واحد چینل ہے جو کسی خاتون کو اسکرین پر لائے بغیر بہت عمدگی سے اصلاحی معاشرے کیلئے کام کر رہا ہے اور اگر واقعی آپ اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح چاہتے ہیں تو دن میں کم از کم آدھا گھنٹا مدنی چینل ضرور دیکھیں اور اگر اس طرح کے پروگرام تما م چینلز نشر کرنا شروع کردیں تو کوئی بعید نہیں کہ ہم بہت جلد مثالی معاشرے تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے گے اور یوں ہم زمین پہ بھائی چارے کے ساتھ پر امن ، خوشحال اورکامیاب زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں گے ۔

Facebook Comments

مزمل فیروزی
صحافی،بلاگر و کالم نگار پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے رکن مجلس عاملہ ہیں انگریزی میں ماسٹر کرنے کے بعد بطور صحافی وطن عزیز کے نامور انگریزی جریدے سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی سے روزنامہ آزاد ریاست میں بطور نیوز ایڈیٹر بھی فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ صبح میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں اردو میں کالم نگاری کرتے ہیں گھومنے پھرنے کے شوق کے علاوہ کتابیں پڑھنا اور انٹرنیٹ کا استعمال مشاغل میں شامل ہیں آپ مصنف سے ان کے ٹوءٹر اکائونٹ @maferozi پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply