پاکیزہ نعرے، مقدس انتخابات۔۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

ارض پاک پر سیاسی لیڈروں کو قوم کا غم اس قدر ہلکان کر رہاہے کہ ہر قسم کے وظائف ، دم درود اور منتیں قوم و ملت کی خدمت کا موقع پانے کے لئے مانگی جا رہی ہیں۔ درباروں پر حاضریاں بھی ہیں اور سجدے بھی۔ چادریں بھی چڑھائی جا رہی ہیں اور پھولوں کا فرش بھی بچھایا جا رہا ہے۔ سجادہ نشینوں سے بھی حمایت کی توقع ہے اور بزرگوں سے دعاؤں کی امیدبھی۔ ویسے تو گزشتہ سات دہائیوں میں جب بھی موقع ملا ان سیاست دانوں نے مذہبی ذمہ داریوں کو کبھی پس پشت نہیں ڈالا۔ حسب ضرورت ہربار متفرق اور جدید مذہبی نعرے اپنے مقاصد کے لئے بلندکرتے رہے ہیں۔
مولانا مودودی صاحب نے ’’ یہ انتخابی معرکہ بعینہ غزوہ تبوک سا ہے ‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ مولانا صاحب صرف یہ بتانا بھول گئے کہ غزوہ تبوک مسلمانوں کے درمیان آپس میں کیوں کروا رہے تھے؟۔ اور ویسے بھی کس کو فرصت تھی پوچھتا اور گستاخ ٹھہرتا؟ سو انہوں نے انتخابی معرکے کو غزوہ تبوک کہہ دیا  اور ہم نے مان لیا ۔ پھر’’ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘ ، ’’رب کی دھرتی رب کا نظام‘‘ ، ’’مدینے جیسی فلاحی ریاست کا قیام‘‘ ،’’ تبدیلی کے تین نشان اللہ ۔ محمد اور قرآن‘‘ ۔ کے پاک نعرے بلند ہوتے رہے ہیں ۔ 1970 میں ایک نعرہ ’’ چابی جنت کا دروازہ کھولے گی ‘‘ کا نعرہ علامہ شاہ احمد نورانی صاحب کی جمیعت علمائے پاکستان کی طرف سے لگا یا گیا کہ ان کا نشان چابی تھا۔
یہ تو تااڑتالیس سال قبل کی بات تھی لیکن اب 2018 ہے۔ لوگ صرف دروازے تک پہنچنے کا اعلان سن کر تسلی نہیں پائیں گے ا س لئے عوام کی دین و دنیا میں فلاح چاہنے والے اور ہر لمحہ ان کو ترقیات کی طرف لے جانے والے ، براہ راست یہ خوشخبری سنارہے ہیں ’’ووٹ دو جنت لو ‘‘ اسے کہتے ہیں ترقی کی منازل طے کرنا ۔ یہ ہوئی نا بات ۔ وہ بھی کیا لوگ تھے کہ صرف جنت کے دروازے کی خوشخبری دیتے رہے ۔ امسال تو جنت کی گارنٹی پکی ہے۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ کوئی ’’ مرد مومن مرد حق تھا ‘‘ ۔ حق اور ایمان کا ساتھ دینے کے لئے سارے سیاستدان ہمک کر ا س کی گود میں جا بیٹھے تھے کہ حق بھی وہ تھا جسے وہ کہے اور ایمان بھی وہ جو اس کا ۔پھر گیارہ سال دما دم مست قلندر ہوتا رہا ۔ حق گونجتا رہا اور ایمان تازہ بہ تازہ پھل دیتا رہا۔ لیکن اب اس قدر ترقی ہے کہ بات مرد مومن مرد حق سے بہت آگے چلی گئی ہے ۔ اب ہر امیدوار، چھوٹا ہو کہ بڑا، ناموس رسالت کے لئے ننگی تلوار ہے ۔ تحفظ ختم نبوت کا مجاہد ہے ۔ ایسا مجاہد کی جس کی مثال ڈھونڈے سے نہ ملے۔ آج کل کچھ پر جوش نوجوان ان عظیم الشان اور عالی مرتبت امیدواروں کا میدان عمل میں احتساب کرنے پر تلے ہیں اور ان سے سوالات پوچھنے کی گستاخیاں کر رہے ہیں ۔ حالانکہ کوئی اور رواستہ ہے کہاں ؟۔ ایک سے بڑھ کا ایک صادق و امین ٹھپے لگوا کر میدان عمل میں اتر رہا ہے ۔
گئے وقتوں میں بھی ایک آشفتہ سر حبیب جالب تھا۔دیوانگی میں گا تا پھرتا تھا:
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

خطرہ ہے خوں خواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

اور کبھی کہتا پھرتا تھا کہ ’’ ظلمت کوضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا‘‘۔ اور ’’وہی حالات ہیں فقیروں کے ، بدلے ہیں دن فقط وزیروں کے‘‘۔
جالب آج زندہ ہوتا تو دیکھ لیتا کہ اسے کس کو کیا لکھنا پڑتا۔ وہ دیکھ لیتا کہ کون کون خطرے میں ہے اور کس کس طرح کے خطرے میں ہے ۔ جالب نے تو بس ایسے ہی شاعرانہ گرہ لگائی ورنہ آج واقعی اسلام خطرے میں ہے۔ اگر اسلام خطرے میں نہ ہوتا تو پھر ہر امیدوار سارے منشور اور نظریات چھوڑ کر صرف اسلام بچانے کی بات کیوں کرتا۔؟ اسلام خطرے میں ہے اسی لئے تو ہر پارٹی اور ہر امیدوار سیسہ پلائی دیوار بن کراس کے دفاع کے لئے خم ٹھونک کر باہر نکل آیا ہے ۔ اپنی سانسوں سے اپنی توانائی سے اسلام کو آکسیجن مہیا کرنے کی ذمہ داری کا اعلان کر رہا ہے ۔ عوام تو نا سمجھ ہیں کہ اس قدر دین دار اور مخلص امیدواروں کا احتساب کرنے کے در پے ہوئے چاہتے ہیں ۔ للہ ان کا ستقبال کیجئے۔ یہ مجاہدین ہیں ، یہ آل حسین ہیں ، یہ اولاد علی ہیں ۔یہ منبر رسول ﷺ کے وارث ہیں ۔ کیا آ پ نے پریس کانفرنس نہیں سنی اور یہ اعلان آپ کی سماعتوں سے نہیں ٹکرایا کہ ’’جیسے حضرت امام حسین کے  بہتر ساتھی ان کے ساتھ کھڑے تھے ۔ میرے بہتر بھی کھڑے ہیں ‘‘۔ اب بتائیے اس سے بڑھ کر آپ دیندار ، دودھ کے دھلے، مخلص ، سچے ، وفا شعار،پاکباز ، مجاہد ، صادق و امین امیدوار کہاں سے ڈھونڈتے پھریں گے؟۔
ایک بار پھران مخلصین کی خدمت کیجئے۔پھر اسلام کے نام پر ووٹ دیجئے اور بھول جائیے کہ ا س سے قبل بھی آپ ایسا کرتے آئے ہیں ۔ پہلے بھی تو آپ ان کو سہارتے چلے آئے ہیں ایک بار پھر سہی۔ بس نئے پاکیزہ نعرے سنیے ، سر دھنئے اورمقدس انتخاب میں بھر پور حصہ لے کر جنت کے ٹکٹ پکے کیجئے ۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply