غامدی صاحب کا فہم ریاست اور ہاری ہوئی جنگ

ہمارے علمی اور فکری حلقہ جات میں ایک چیز جسے "اصول" کہا جاتا ہے اسکے ساتھ نہایت عامیانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اصول ہی وہ ماں ہے جسکے پیٹ سے فرع یا عام زبان میں عمل کہہ لیجئے جنم لیتا ہے۔ ہمارے ہاں اصول کو شرح صدر کے ساتھ نظر انداز کردیا جاتا ہے اور سارے معاملات خواہ وہ تنقید کے ہوں یا توصیف کے ، صرف اور صرف فروع پر کئے جاتے ہیں۔یہ ایک نہایت غیر علمی رویہ ہے۔ کسی کی بھی فکر یا تعبیر کے مطالعہ کا صحیح ترین طریقہ یہ ہے کہ فروعات میں بحث سے قبل، اصول کی بحث کرلی جائے۔ میرا کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ فروعات کو نظر انداز کردیں، ہرگز نہیں،فروع کو بھی دیکھا جانا ضروری ہے لیکن اصول، اولین چیز ہے جس پر کسی بھی فکر کی بنیاد ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ اور اس سے بڑھ کر پھر اصول کا فکر میں تسلسل دوسرا نہایت اہم عمل ہے۔ اگر کوئی مفکر اپنی فکر کے اصول اور اس اصول کے تسلسل کو اپنی فکر میں قائم کرنے میں ناکام رہا ہے تو سمجھ لیجئے کہ صرف زبانی کلامی دعویٰ جات ہیں جس سے وہ آپکا دل بہلا رہا ہے۔ جب اصول کارفرما نہیں ہوگا تو کوئی بھی فکر، کوئی بھی تعبیر من چاہی جگہ پر آرام سے فٹ آ جائے گی، اور اسکے عمل کی تو نوبت ہی نہ آ سکے گی۔ اس سے ایک فائدہ تو بہرحال یہ ہوگا کہ وہ ہر طرف کے لوگوں کو خوش رکھنے کے کام آسکے گی، عملی دنیا میں اسکا سوائے چند دعویٰ جات کے کچھ مقام نہ ہوگا۔
بالکل اسی طرح آپ جب ، کسی بھی فکر کا اصولی مطالعہ نہیں کرینگے تو عین ممکن ہے کہ فکر اپنے نتائج میں آپکو بہت سبز باغ دکھائے گی ۔ لیکن جیسے ہی عملی دنیا میں قدم رکھنے کا وقت آئے گا تو آپکا مطالعہ دھڑام سے نیچے آ گرے یا جس بات نے آپکو بہت اپنی طرف کھینچا ہوگا وہی بات جب اصول سے آپکو دوسرے نتیجے پر پہنچائیگی تو آپکے لئے مشکل ہوجائے گا اسی فکر پر قائم رہنا۔ اور اسکا نتیجہ عجیب قسم کی تنقید اور بعض اوقات مغلظات کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی آپ نے جو امیدیں فروع یا سبز باغ دیکھ کر قائم کی تھیں وہ دوسرے لمحے کرچی کرچی ہوجائینگی۔میں اسے عام فہم بنانے کے لئے مثالیں دینے سے قاصر ہوں کیونکہ اس سے طوالت کا ڈر ہے۔
استاد کے ہاں جو فہم ،ریاست کے متعلق پایا جاتا ہے اس سے متعلق بھی ہمارے دائیں اور بائیں کے حضرات کے رویہ نے مجھے مجبور کیا کہ میں چند باتیں استاد کے استدلال سے متعلق آپ حضرات کی خدمت میں عرض کروں۔ اس سے قبل اگر میں اس رویہ کی نشاندہی کردوں تو میری بات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ استاد نے جب فکر سے متعلق یہ بات بیان کی جو کہ ایک اصولی بات تھی، کہ ریاست کا "مذہب" نہی ہوتا۔ یہ بات اپنے نتیجے میں نہایت خوش آئند تھی تو اس بات کے جوا ب میں دو رویہ جات ابھر کر سامنے آئے۔ سیکولر حضرات نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور ہمارے روایتی طبقہ میں روایتی مارا ماری ہوگئی۔ اب چونکہ بات کو دونوں حضرات نے اصول کی روشنی میں اور پورا پڑھنے سے انکار کردیا تو یہ ظلم ہوا کہ جیسے ہی استاد نے اسکی وضاحت کرنی شروع کی تو بہت سے لوگوں کا "غامدی " خراب ہونا شروع ہوا۔ اور انہوں نے مختلف باتیں کرنا شروع کردیں۔ میری فرینڈ لسٹ میں کئی سیکولر حضرات موجود ہیں اسکے علاوہ بہت سے دوسرے حضرات موجود ہیں۔ انکی باتیں دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ احباب نے اس فکر کو پڑھنے کی بجائے، صرف اس دس منٹ کے کلپ میں کی جانے والی بات کو دیکھا اور باتیں شروع کردیں۔
پورے فہم سے متعلق بات کرنا تو مشکل ہے، صرف اسی اصول کو مکمل اور نتائج کی روشنی میں ہم دیکھ لیں تو بات زیادہ واضح ہوگی۔ استاد کے ہاں مسئلہ یہ ہے ہی نہیں ہے کہ سیکولرزم کیا ہے، اور مذہبیت کیا ہے۔ انہوں نے اصول بیان کیا کہ "ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا" اور اسکے ساتھ جو بات نظر انداز کر دی گئی، وہ یہ کہہ رہے تھے کہ "ریاست میں مذہب کا ظہور ہوتا ہے"۔ یعنی، اگر آپکی طبعیت پر مذہب کا لفظ گراں گذرے تو ہم اس اصول کو یوں مکمل کرلیتے ہیں کہ "ریاست کی کوئی فکر نہی ہوتی بلکہ ریاست میں فکر کا ظہور ہوتا ہے"۔ اسکی وضاحت دیکھ لیں:
ریاست اپنی اصل میں جامد و غیر عاقل چیز ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی نظم قائم ہوگا اور وہ نظم ایک ریاست کی شکل اختیار کرے گا تو جو فکر اس نظم کی ہوگی اسکا ظہور اس نظم میں ہوجائے گا۔ یعنی بفرض محال، یہ نظم یا معاشرہ کیمونسٹ ہوگا تو ریاست میں خودبخود کمیونزم کا ظہور ہوجائے گا۔ یا سکیولرزم پر مشتمل معاشرے ریاست میں سیکولرزم کے ظہور کا سبب بن جائے گا۔ اسی طرح ایک عیسائی معاشرے میں اگر نظم مسیح ہو تو ریاست میں مسیحیت کا ظہور ہوجائے گا۔ کیونکہ جمہوریت میں امرھم شوریٰ بینھم ، اور اگر اس سے مسئلہ ہو تو اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اسلئے کسی بھی ریاست کا کوئی مذہب نہی ہوتا بلکہ اس ریاست میں اس مذھب کا ظہور ہوجاتا ہے۔ یا کسی بھی ریاست کی کوئی فکر نہی ہوتی بلکہ معاشرے کے افکار کا اسمیں ظہور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وہ ایک مسیحی، سیکولر، یا ملحد سٹیٹ بن جائیگی۔
اس سے قبل کہ ہم استاد کے اصول کی طرف قدم بڑھائیں، اگرسیکولرزم اپنے اندر خوبیاں رکھتی ہے تو ایسی دس خیالی خوبیاں تو میں آپکو خلافت میں گنوادونگا۔ اسکا ہرگز مطلب نہی کہ میں سیکولرزم بطور نظامی ڈھانچہ پر کوئی تنقید کر رہا ہوں یا اس سے کوئی چڑ رکھتا ہوں۔
اب اس مکمل اصول کی روشنی میں استاد کی اس بات کو دیکھ لیں جسکے متعلق لوگوں نے کہا کہ غامدی صاحب ملاسے ڈر گئے اور انہوں نے سیکولرزم کا نام لینے سے احتراز کیا۔مجھےافسوس ہے کہ یہ باتیں اس شخص کے متعلق کہی گئی جو صرف اس بات کے کہنے کہ جرم میں ملائیشیا جا بیٹھا جسے اس نے سچ مانا اور اسکا سارا خاندان ابھی تک ایک ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہا ہے۔ اور ماضی میں اسکے دوستوں نے اس جرم کی سزا بھگتی۔
خیر، جس دس منٹ کے کلپ پر ہر طرف گفتگو جاری ہے، میں اسکے متعلق عرض کرتا چلوں کہ وہاں یہ زیر بحث ہے ہی نہی کہ اچھے سیکولر کیا ہیں اور برے کیا ہیں؟ میں حیران ہوں کہ یہ بات استاد کے کس جملے سے اخذ کرلی گئی ہے؟وہاں ایک ریاست (پاکستان) کا نظم زیر بحث ہے جس نظم میں یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ریاست کےنظم اجتماعی کو باور کروا دیا جائے کہ مذہب کو ریاست سے اچک لو تو تمہارے برے دن ختم ہوجائینگے۔ اس پر استاد نے کمنٹ کیا ہے کہ "ہمارے ہاں کی سیکولرزم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے"۔ہمارے ہاں سیکولر حضرات اس بات کو بلکل نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس ملک کا نظم اجتماعی مذہب لوگوں پر مشتمل ہے۔ یا تو اس مذہبیت کو مذہبی استدلال سے اس نظم سے خارج کردیجئے، یا نظم اجتماعی کو سیکولر کرلیجئے تو پھر ریاست کے مذہبی اور غیر مذہبی ہونے بحث ختم ہوجائے گی۔
خیر، استاد نے کسی اچھے اور برے سیکولر کےدرمیان قران کو لا کر کھڑا نہی کیا گیا بلکہ وہاں سیکولرزم کو اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ عیسائیت کے مقابل میں، سیکولرزم کو "فکر" کا مسئلہ ہی درپیش نہی تھا کیونکہ سینٹ پال نے مذہبی استدلال سے تورات کی شریعت کو عیسائیت سے نکال دیا ہوا تھا۔ اب سیکولرز م کے سامنے ایک ادارہ "چرچ" کھڑا ہوا تھا۔ نہ کہ مسیحی فکر ی استدلال، اس چرچ کے استعماریت کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ جبکہ پاکستان میں، یہ جنگ نہ تو ملا کے خلاف ہے، نہ مسجد کے خلاف بلکہ یہ جنگ باقاعدہ قران کے خلاف ہے کیونکہ مسلمانوں کی پشت پر یہ کھڑا ہوا ہے۔ اور مسلمان وہاں سے استدلال کر رہے ہیں اپنے نظم اجتماعی کے لئے۔اسلئے یہ ایک ہاری ہوئی جنگ ہے کیونکہ ایک مکمل مذہبی استدلال کھڑا ہے جسکے اچک کر پھینک دینے کی مہم جوئی کی جا رہی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ سیکولرزم میں سنی کو کچھ نہی کہا جائے اسلئےکہ وہ سنی ہے، اور شیعہ کو کچھ نہی کہا جائے گا اسلئے کہ وہ شیعہ۔ یہاں مسئلہ شیعہ سنی کا ہے ہی نہی۔ یہاں مسئلہ نفاذ اسلام کا ہے، جسکے خواب ہر سنی اور ہر شیعہ نے دیکھ رکھے ہیں۔ خواہ وہ ملاعمر کی صورت میں ہوں یا اما م خمینی کی صورت میں، یہی وجہ ہے کہ آپ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔
رہی بات نفسیات کی، تو معاملہ یہ ہے کہ ہم اس بڑے واقعہ کو سامنے رکھ کر اپنی قوم کو فیصلہ کرنے چلے ہیں۔ اصل میں لبرلز چاھتے ہیں کہ اسلام پسند کسی کشتی میں غرق ہوجائیں اور مذہبی جنونی چاہتے ہیں کہ ان لبرلز کو ہم خدا کی زمیں سے ختم کردیں۔ فکری جگہ پر کھڑے کسی سنجیدہ شخص کا یہ رویہ نہی ہونا چاہیے۔ خیر، چونکہ قران اب آپکو حکومت کے سلسلے میں بھی راہنمائی دے رہا ہے اور یہ بات اسٹبیلش ہے کہ مسلمان جس جگہ پر اکھٹے ہونگے اور انہیں موقع ملے گا تو اپنی ایک آزادنہ حکومت قائم کرینگے تو اب سیکولر طبقہ اس قران کے حکم کے مقابل کھڑا ہے، اور چونکہ یہ پوری فکر ہے تو اصل میں یہ طبقہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہا ہے۔
میں نے ابھی تک صرف استاد کے اصول اور اس اصول کی روشنی میں انکی روایتی سیکولرزم پر تنقید کو واضح کیا ہے، ابھی تک میں نے استاد کے ہاں ریاست کا ڈھانچہ، مختلف الخیال اور مختلف العقائد لوگوں کا مسئلہ، روایتی فکر ٹھیک ہے یا غلط، اسمیں سے کسی پر بھی گفتگو نہی کی، ابھی تک گفتگو صرف ایک بات کو اصول کی روشنی میں نہ سمجھنےکے نتائج پر تھی۔
(میں امید کرتا ہوں کہ آپ استاد کی فکر اور روایتی فکر کو، جسےمیں اکھٹا ہی بیان کیا ہے اسمیں فرق کرنےمیں کامیاب ہونگے اور اسکے بعد اب اگر آپ دوبارہ کلپ سنیگے تو بات زیادہ واضح ہوگی، کبھی وقت ملا تو عرض کرونگا کہ استاد کا اصول "ریاست کا مذہب نہی ہوتا، مذہب کا ریاست میں ظہور ہوتا ہے" فکری لحاظ سے کس پختگی پر کھڑا ہے اور کیسے یہ اصول کسی بھی فکر ی ریاست میں ایک امن اور آشتی کے ساتھ ہر کسی کو اس نتیجے پر پہنچا سکتی ہے جسے ایک بہترین ریاست کا نام دیا جاسکتا ہے)
ھذا ما عندی والعلم عنداللہ

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply