کلیسا ۔ ۔ ۔ ریمنڈ کارور کے افسانے کا ترجمہ (آخری حصہ)

کلیسا ۔ ۔ ۔ ریمنڈ کارور کے افسانے کا ترجمہ (حصہ دوم)

Advertisements
julia rana solicitors london

اس نے اپنے منہ سے دھواں خارج ہونے دیا۔ “میں جانتا ہوں کہ سینکڑوں مزدور پچاس یا سو سال کام کر کے ایک کلیسا تعمیر کرتے ہیں،” اس نے کہا”۔ ظاہر ہے میں نے ابھی ابھی اس آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ایک ہی خاندان کی کئی نسلیں ایک کلیسا پر کام کیا کرتی تھیں۔
میں نے یہ بھی اسے کہتے ہوئے سنا ہے, جو شخص کلیسا پر کام شروع کرتا تھا اسے کبھی مکمل عمارت دیکھنا نصیب نہیں ہوا کرتا تھا۔
بب، اس لحاظ سے اس میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے، ٹھیک؟” وہ ہنسا۔ پھر اس کے پپوٹے دوبارہ بند ہو گئے۔ اس نے سر ہلایا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اونگھ رہا ہے۔ یا پھر وہ خیالوں خیالوں میں پرتگال پہنچ گیا تھا۔ ٹی وی پر اب ایک اور کلیسا دکھایا جا رہا تھا۔ یہ جرمنی میں تھا۔ انگریز بولتا جا رہا تھا۔ “کلیسا” نابینا شخص نے کہا۔ وہ اٹھ بیٹھا اور سر آگے پیچھے ہلانے لگا “۔۔
بب، اگر سچ پوچھو تو کلیساؤں کے بارے میں میں اِتنا ہی جانتا ہوں۔ جو میں نے ابھی کہا۔ جو میں نے اسے کہتے سنا۔ اگر تم ان کے بارے میں بیان کرنا چاہو؟ میں چاہتا ہوں کہ تم بتاؤ۔۔۔۔ مجھے اچھا لگے گا۔ اگر تم جاننا چاہتے ہو تو مجھے کوئی خاص نہیں پتا”۔
میں نے ٹی وی پر کلیسا کی تصویر کو غور سے دیکھا۔ کوئی انہیں کس طرح بیان کر سکتا ہے؟ لیکن فرض کیا میری زندگی داؤ پر لگی ہو۔ فرض کیا ایک ایک پاگل کہتا ہے کہ مجھے بیان کرنا پڑے گا، ورنہ۔
میں نے دوبارہ کلیسا کو غور سے دیکھا، پھر سکرین پر کلیسا کی بجائے ایک دیہی منظر آ گیا۔ کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں نابینا شخص کی طرف مڑا اور کہا“،پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بہت اونچے ہوتے ہیں۔” میں کسی سراغ کی تلاش میں کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ “یہ اوپر کی طرف جاتے ہیں۔ اوپر ۔۔اور اوپر، آسمان کی طرف۔ یہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ، انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں کھڑا رکھنے کے لیے۔ انہیں پشتے کہا جاتا ہے۔ مجھے انہیں دیکھ کر محرابی پلوں کا خیال آتا ہے، نہ جانے کیوں۔۔۔۔ لیکن شاید آپ کو ان محرابی پلوں کے بارے میں بھی نہیں معلوم؟
بعض اوقات ان کلیساؤں کے سامنے شیطانوں وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے مجسمے تراشے جاتے ہیں۔ بعض اوقات عورتوں اور مردوں کے۔ مجھ سے نہ پوچھیئے کیوں،” میں نے کہا۔
وہ سر ہلا رہا تھا۔ اس کا پورا اوپری بدن آگے اور پیچھے ہلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
“میں کوئی زیادہ اچھے طریقے سے بیان نہیں کر رہا؟” میں نے پوچھا۔
اس نے سر ہلانا بند کیا اور صوفے کے کنارے کی طرف سرک آیا۔ میری باتیں سنتے سنتے اس کی انگلیاں داڑھی میں رواں تھیں۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ میری باتیں اس تک نہیں پہنچ رہیں۔ لیکن اس نے پھر بھی مجھے بولتے رہنے دیا تھا۔ اس نے سر ہلایا، جیسے وہ میری ہمت بندھا رہا ہو۔ میں سوچنے لگا کہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ “یہ بہت بڑے ہوتے ہیں،” میں نے کہا۔ “بہت ہی بڑے۔ انہیں پتھر سے بنایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی سنگِ مرمر سے بھی۔ پرانے وقتوں میں جب یہ کلیسا بنائے جاتے تھے اس وقت انسان خدا کے قریب ہونا چاہتا تھا۔ اس زمانے میں خدا ہر کسی کی روزمرہ زندگی کا اہم حصہ تھا۔ اس بات کا اندازہ آپ کلیساؤں کی تعمیر سے لگا سکتے ہیں۔ معذرت چاہتا ہوں،” میں نے کہا، “لیکن لگتا ہے کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ میں اس طرح کے کاموں کا زیادہ ماہر نہیں ہوں۔”
“ٹھیک ہے، بب،” نابینا شخص نے کہا۔ “ارے، سنیئے۔ امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔ کیا میں آپ سے بات پوچھ سکتا ہوں؟ ایک سادہ سا سوال ہے، ہاں یا ناں۔ بس مجھے ویسے ہی اشتیاق ہے، اگر آپ محسوس نہ کریں۔ آپ میرے میزبان ہیں۔ لیکن مجھے یہ پوچھنے کی اجازت دیجئے کہ کیا آپ کسی بھی لحاظ سے مذہبی ہیں؟ آپ کو برا تو نہیں لگا؟”
میں نے سر ہلا دیا۔ لیکن وہ اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اندھے کے لیے آنکھ مارنا اور سر ہلانا برابر ہیں۔ “میرا خیال ہے میں یقین نہیں رکھتا۔ کسی بھی چیز پر۔ بعض اوقات بہت مشکل پڑ جاتی ہے۔ پتا ہے نا میں کیا کہہ رہا ہوں؟”
“بالکل،” اس نے کہا۔
“ٹھیک،” میں نے کہا۔
انگریز ابھی تک بولے چلا جا رہا تھا۔ میری بیوی نے نیند میں آہ بھری۔ وہ ایک لمبی سانس لے کر دوبارہ نیند میں گم ہو گئی۔
“میں معافی چاہتا ہوں،” میں نے کہا۔ “لیکن میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ کلیسا کیسا دکھتا ہے۔ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں ہے۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا جو میں کہہ چکا ہوں۔”
نابینا شخص بالکل ساکت بیٹھا ہوا تھا، میری بات سنتے ہوئے اس کا سر جھکا ہوا تھا۔
میں نے کہا، “حقیقت تو یہ ہے کہ کلیسا میرے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ کچھ بھی نہیں۔ کلیسا۔۔۔۔ یہ بس رات کو ٹی وی پر دیکھنے کے لیے ہیں اور بس۔”
اس پر نابینا شخص نے اپنا گلا صاف کیا۔ اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا۔ پھر اس نے کہا، “میں سمجھ گیا، بب۔ ٹھیک ہے،ہوتا رہتا ہے، آپ زیادہ فکرمند نہ ہوں،” اس نے کہا۔ “
ارے، سنیئے۔ کیا آپ میرا ایک کام کر سکتے ہیں؟ مجھے ایک بات سوجھی ہے۔ کیا آپ کے پاس کوئی موٹا کاغذ ہو گا؟ اور ایک قلم؟ ہم ان سے کام لیں گے۔ ہم مل کر ایک شکل بنائیں گے۔ ایک کاغذ اور قلم لے آئیں۔ بب، یہ چیزیں لے آئیں،” اس نے کہا۔
میں اوپر چلا گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری ٹانگوں میں جان نہ ہو۔ یہ اس وقت ہوتا تھا جب میں دوڑ لگا کر واپس آتا تھا۔ میں نے اپنی بیوی کے کمرے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ مجھے اس کی میز پر ایک چھوٹی سی ٹوکری میں کچھ بال پین دکھائی دیے۔ پھر میں سوچنے لگا کہ اس قسم کا کاغذ کہاں سے مل سکتا ہے جس کی وہ بات کر رہا تھا۔
نیچے باورچی خانے میں مجھے ایک کاغذ کا تھیلا نظر آیا جس کی تہہ میں پیاز کے چھلکے پڑے تھے۔ میں نے تھیلا خالی کر کے ہلایا۔ میں اسے لونگ روم میں لے آیا اور اسے اس کی ٹانگوں کے قریب رکھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے کچھ چیزیں ادھر ادھر کیں، کاغذ کی شکنیں دور کیں اور اسے تپائی پر پھیلا دیا۔
نابینا شخص صوفے سے اتر آیا اور قالین پر میرے قریب بیٹھ گیا۔
اس نے اپنی انگلیاں کاغذ پر دوڑائیں۔ وہ کاغذ کے نیچے اوپر اور دائیں بائیں گیا۔ حتیٰ کہ کناروں پر بھی۔ اس نے کنارے بھی چھوئے۔
“اچھا تو پھر شروع کرتے ہیں،” اس نے کہا۔
اس نے ٹٹول کر میرا ہاتھ پکڑ لیا، میرے ہاتھ میں قلم تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے اوپر جما لیا۔ “چلو شروع کرو بب، تصویر بناؤ،” اس نے کہا۔ “بناؤ۔ تم دیکھو گے۔ میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ سب کچھ ٹھیک رہے گا۔ بس ایسے ہی شروع کر دو جیسے میں کہہ رہا ہوں۔ تم دیکھ لو گے۔ بناؤ،” نابینا شخص نے کہا۔
سو میں نے تصویر بنانا شروع کر دی۔ پہلے میں نے ایک ڈبا سا بنایا، جو کچھ کچھ میرے گھر کی طرح تھا۔ پھر میں نے اس کے اوپر چھت بنائی۔ چھت کے دونوں اطراف میں نے کلس بنائے۔ کیا دیوانگی ہے۔
“زبردست،” اس نے کہا۔ “شاندار۔ تم زبردست کام کر رہے ہو،” اس نے کہا۔ “تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ کبھی تمہارے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آئے گا، بب؟
خیر، ہم سب جانتے ہیں زندگی عجیب چیز ہے۔ چلتے رہو، جاری رکھو۔”
میں نے محرابی کھڑکیاں بنائیں۔ میں نے ہوائی پشتے بنائے۔ میں نے بڑے بڑے دروازے بنائے۔ میں اب رک نہیں سکتا تھا۔ ٹی وی سٹیشن بند ہو گیا۔ میں نے قلم رکھ دیا اور اپنی انگلیاں کھولنے اور بند کرنے لگا۔ نابینا شخص کاغذ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کے پپوٹے کاغذ پر پھیرے۔ میں نے جو کچھ بنایا تھا اس کی انگلیاں اس پر چلتی رہیں، اور اس نے سر ہلایا۔
“بہت عمدہ،” نابینا شخص نے کہا۔
میں نے پھر قلم اٹھایا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں جتا رہا۔۔۔۔ میں کوئی فن کار نہیں ہوں،لیکن میں تصویر بناتا رہا۔
میری بیوی نے آنکھیں کھولیں اور ہمیں دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، اس کا گاؤن مزید کھل گیا۔ اس نے کہا، “کیا کر رہے ہو؟ مجھے بتاؤ، میں جاننا چاہتی ہوں۔”
میں نے جواب نہیں دیا۔
نابینا شخص نے کہا، “ہم ایک کلیسا بنا رہے ہیں۔ میں اور یہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ زور سے دباؤ،” اس نے مجھے کہا۔ “ہاں، یہ ٹھیک ہے،” اس نے کہا۔ “بالکل۔ تم بالکل ٹھیک جا رہے ہو، بب، میں بتا سکتا ہوں۔ تمہارا خیال تھا کہ تم نہیں کر سکو گے۔ لیکن تم نے کر دکھایا ہے، ہے کہ نہیں؟
تمہارے اندر اب بجلیاں بھری ہوئی ہیں۔ جانتے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں؟ بس ایک منٹ میں ہمارے سامنے ایک چیز تیار ہو جائے گی۔ بازو کیسا ہے؟” اس نے پوچھا۔ “اب یہاں کچھ لوگ بھی دکھا دو۔ وہ کلیسا ہی کیا جس میں لوگ نہ ہوں؟”
میری بیوی نے کہا، “کیا ہو رہا ہے رابرٹ؟ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہو رہا ہے؟”
“سب ٹھیک ہے،” اس نے میری بیوی سے کہا۔ “اپنی آنکھیں بند کر لو،” نابینا شخص نے مجھے کہا۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ ایسے ہی جیسا اس نے کہا تھا۔
“بند ہیں؟” اس نے کہا۔ “بے ایمانی نہ کرنا۔”
“بند ہیں،” میں نے کہا۔
“بند ہی رکھنا،” اس نے کہا۔ “رکو مت، قلم چلاتے رہو۔”
سو ہم تصویر بناتے رہے۔ میری انگلیاں کاغذ پر چلتی رہیں، اس کی انگلیاں میری انگلیوں پر سوار تھیں۔ میری زندگی میں ایسا کوئی واقعہ نہیں پیش آیا تھا۔
پھر اس نے کہا، “لگتا ہے تصویر مکمل ہو گئی ہے۔لگتا ہے تم نے کام کر دکھایا ہے،” اس نے کہا۔ “دیکھو، کیا خیال ہے؟”
لیکن میں نے اپنی آنکھیں بند ہی رکھیں۔ میں نے سوچا ابھی تھوڑی دیر انہیں بند ہی رکھوں۔ میں نے سوچا کہ مجھے ابھی آنکھیں بند ہی رکھنی چاہییں۔
“تو پھر؟” اس نے کہا۔ “تم دیکھ رہے ہو؟”
میری آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ میں اپنے گھر میں تھا۔ میں یہ جانتا تھا۔ لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی چیز کے اندر نہیں ہوں۔
“واقعی کچھ ہے،” میں نے کہا۔۔۔۔!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply