قندیل بلوچ سے مولوی الیاس گھمن تک۔۔ نور درویش

زیادہ عرصہ نہیں گذرا، قندیل بلوچ نامی ایک لڑکی کو اُسکے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اپنے بولڈ ویڈیوز اور تبصروں کی وجہ سے پہچانی جانے والی قندیل بلوچ کی مفتی قوی نامی ایک مولوی کے ساتھ ملاقات کی ایک ویڈیو اُس کے قتل سے کچھ عرصہ قبل بہت زیرِ بحث رہی تھی، مفتی قوی شدید تنقید کی زد میں آیا تھا اور پھر اک دن قندیل بلوچ نے پریس کانفرنس میں خود کو لاحق خطرات کا ذکر کیا تھا جن پر بدقسمتی سے کوئی نوٹس نہ لیا گیا۔

یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ بولڈ سمجھی جانے والی قندیل بلوچ نے مذہبی لبادے میں چھپے ایک مفتی کے اصل چہرے کو سرِ بازار ننگا کردیا تھا، ظاہر ہے یہ حقیقیت ہضم کرنا سب کیلئے آسان نہ تھا، اُن ساڑھے ساتھ لاکھ فالورز کیلئے بھی نہیں جنہوں نے قندیل بلوچ کا پیج جوائین کررکھا تھا۔

اِس قتل ناحق کی مذمت تو درکنار، اُلٹا اِسے قندیل بلوچ کی حرکتوں کا انجام قرار دیا گیا، طعنے دئے گئے کہ ہم ایک طوائف کےلئے مغفرت کی دعا نہیں کرتے اور کسی نے دو قدم آگے پڑھ کر اُسکے قتل کی مذمت کرنے والوں کو چیلنج کردیا کہ دم ہے تو اپنے گھر کی عورتوں کو قندیل بلوچ بناو۔ افسوس کا مقام یہ تھا کہ مفتی گلزار نعیمی اور قاری حنیف ڈار سمیت چند علماء تو اِس قتل کی مذمت کرتے ہوئے دعائے مغفرت کرتے پائے گئے لیکن ان کے علاوہ سوائے نفرین و طعنہ زنی کے کچھ نظر نہ آیا، کیا علماء اور کیا عام لوگ۔

 حد تو یہ تھی کہ قندیل بلوچ کے بوڑھے باپ کی گفتگو سن کر اور اُسکے گھر کے حالات سن کر بھی ہم پاکدامنوں کا دل نہ پگھلا، وہ بوڑھا شخص رو رو کر بتاتا رہا کہ قندیل بلوچ اُسکی بیٹی نہیں بلکہ بیٹا تھی، لیکن ظاہر ہے اُسکے آنسووں کی کیا حیثیت غیرت و حمیت کے سامنے؟

قندیل بلوچ قتل کردی گئی اور مفتی قوی یہ کہتا پایا گیا کہ آئیندہ علمائے کرام کے خلاف بات کرنے والے اِس عورت کا انجام یاد رکھیں۔ غالبا یہ تکبر سے بھرپور اعلان فتح تھا ایک نہتی لڑکی کے قتل کے بعد۔ لیکن قدرت کا معاملہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر، یہ قتل ناحق کا بدلہ ضرور لیتی ہے۔ آج قدرت نے مناظر اسلام کے نام سے جانے والے ایک معروف مولوی الیاس گھمن کو، اُسی کی بیوی کے ہاتھوں سرِ بازار رسوا کردیا۔ اتفاق دیکھیں کہ اُسکی بیوی بھی ایک معروف دیوبندی عالمِ دین مولانا زین العابدین کی بیٹی ہے۔

تفصیل پڑھ کر بے اختیار قندیل بلوچ یاد آگئی۔ وہ جو تھی، اُس کا برملا اظہار کرتی تھی، الیاس گھمن جو نہیں تھا، اُس کا پرچار کرتا تھا۔ ایک مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا تھا اپنا اصل چھپانے کیلئے۔ یہی لبادہ شاید مفتی قوی نے اوڑھ رکھا تھا جسے قندیل بلوچ نے سرِ بازار اتار پھینکا اور قتل کردی گئی۔ اِس بار لبادہ الیاس گھمن کا اترا لیکن اپنی ہی پردہ دار بیوی کے ہاتھوں، ایک مفتی کی بیٹی کے ہاتھوں۔

سننے کو مل رہا ہے کہ مدارس کے مختلف اداروں نے اِس مولوی سے اعلان لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے، کوئی بتا رہا ہے کہ یہ سب پروپنگنڈا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ اُسے بھی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہی تمام مواقع اور رعایتیں غیرت کے نام پر قتل ہونے والوں کو یا قندیل بلوچ جیسی لڑکیوں کو کیوں نہیں دی جاتیں؟ وہی لوگ جو حد لگانے کی جلدی میں تمام حدیں پار کرتے نظر آتے ہیں، اِس مولوی کے معاملے میں بس اعلان تعلقی پر اکتفا کرنا کافی سمجھ رہے ہیں۔ بالکل اُسی طرح جیسے توہین کا الزام لگا کر کسی مسیحی جوڑے کو کسی صفائی کی مہلت دئے بغیر اینٹوں کی بھٹی میں پھینک دیا جائے لیکن معاملہ جنید جمشید کا ہو تو اُسکی معافی کو کافی سمجھ کر دوبارہ اُسکے بیان سے مستفید ہونا شروع کردیا جائے۔

اِس معاملے کا کیا حل نکلتا ہے، کیا سچ ثابت ہوتا ہے اور کیا جھوٹ۔ مجھے اِس سے غرض نہیں، میرے نزدیک یہ صرف اور صرف قدرت کا انتقام ہے۔ قندیل بلوچ کے بوڑھے باپ کی فریاد کا جواب ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو بہت بڑا پیغام ہے، نہ سمجھنا چاہے تو اُسکی مرضی۔ اُمید ہے علمائے کرام کے خلاف بات کرنے والی عورتوں کو اُن کا انجام یاد دلانے والے مفتی قوی کو بھی اِس انجام سے کچھ سبق ملا ہوگا (بفرض محال)

نوٹ: آج یکم محرم ہے، ایامِ عزا کا آغاز ہوچکا ہے لیکن دل نے گوارا نہیں کیا کہ اِس بارے میں نہ لکھوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(مکالمہ کا مضمون نگار کی آرا یا کسی مذکورہ شخص پر لگے الزامات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر کوئی صاحب جواب دینا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply