اگر تم ملکیت کو حد سے زیادہ اہمیت دو گے تو لوگ چوریاں کریں گے خون خرابہ کبھی ختم نہیں ہو گا, مثال کے طور پر آپ کے معاشرے میں سونا ایک عام دھات ہے اس کے ساتھ آپ نے اپنی طرف سے کوئی قدر شامل نہیں کی ,تو گلی میں پڑا ہوا ایک پتھر ہے جسے کوئی نہیں اٹھائے گا ۔ یہی کلیہ آپ اپنے معاشرے میں موجود ہر اس چیز پر لاگو کر کے دیکھیں جسے آپ قیمتی سمجھتے ہیں جن جن چیزوں کو ملکیت میں رکھنا معاشرے میں کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے وہی چوری ہوتی ہیں, انہی چیزوں پہ انسان خون خرابہ کرتا ہے, انہی چیزوں کے لیے اپنی جان سے گزر جاتا ہے ۔
اگر کوئی دانا معاشرے کی ذہن سازی کرتے ہوئے ان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ یہ سب بت ہمارے ذہن کے تخلیق کردہ ہیں دنیا میں کوئی چیز، کوئی نظریہ، انسان سے اہم نہیں ہے۔ دنیا کی ہر چیز اس لیے اہم نظر آتی ہیں کیونکہ ہمارے دماغ میں معاشرہ ان کی اہمیت کا احساس ڈالتا ہے اور ہم اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے اسے حقیقت تسلیم کر لیتے ہیں ۔ غور کریں تو کاغذ کے بنے نوٹ کیونکر زندہ انسان سے اہم ہوتے ہیں؟

دانا شخص وہ ہے جو اپنی خواہشات کو محدود کرتا ہے اور اپنے ارادے کو بلند رکھتا ہے کیونکہ خواہش ہی انسان سے سمجھوتے کرواتی ہے ۔ ہر فرد کو فطرت نے کسی خاص قابلیت اور جوہر کے ساتھ تخلیق کیا ہے انسان ہونے کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اس جوہر کو نکھار کر اپنی ذات کو دریافت کرے ،اگر وہ سماجی جبر کی وجہ سے چیزوں کو غیر معمولی اہمیت دینے لگے تو اپنے اس جوہر سے موت کی دستک تک بے خبر رہتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں