• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مارکسزم اور لایعنیت کا فکری اور ادبی تناظر: انسلاک اور اختلاف کی جدلیات۔۔۔احمد سہیل

مارکسزم اور لایعنیت کا فکری اور ادبی تناظر: انسلاک اور اختلاف کی جدلیات۔۔۔احمد سہیل

یساریت پسندی/ مارکسزم {Marxism} اور لایعنیت {Absurdity} کے مابین ہمیشہ فکری تصادمی نزاع ایک عرصے سے قائم ہے اور یہ دونوں مکتبہ فکر اپنے رویّوں میں اتنے حساس ہیں کہ ابھی تک ان میں افہام و تفہیم کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ انگریزی اور دیگر زبانوں پر اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اگر جو تھوڑا بہت جو کچھ بھی لکھا گیا ہے مگر کوئی بات نہیں بنی۔ شاید اردو میں اس متنازعہ موضوع کو چھیڑا ہی نہیں گیا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ لایعنیت اور وجودیت کو ژان پال سارتر اور البرٹ کامیو کے حوالے سے مضامین اور مباحث ملتی ہیں۔ جس میں مارکسزم اور لایعنیت کے تعلق سے چند سطریں کہیں کہیں ضرور نظر آجاتی ہیں۔
مارکسزم اور لایعنیت کی فکر میں مذہب بیزاری، نفی دانش قدر مشترک ہے۔ مارکسزم کے وجود کے لیے کائناتی وجود غیر معمولی طور پر ” لایعنیت ” سے عبارت ہے اور لایعنی وجود پرستی کی کئی علامتیں مارکسٹ نظرئیے میں جھلکتی ہیں۔ جو عضویاتی اور حیاتی اور موضوعی تجربے کے تناظر میں “اجنبی” فرد دریافت ہوتا ہے کیونکہ مارکسی نظرئیے میں فرد کے وجود کے لیے کوئی عقلی یا استدلالی جواز پیش نہیں کیا۔ جاتا ۔ جس کو ہم “تلاش” میں تلاش کو کرتے ہیں۔ جو بغیر معنویت کے ہے۔ غالبا ً اس کا سبب یہ ہو کہ زندگی کی اہم اور معتبر قوتیں ناقابل اعتبار اور ناقابل اعتماد ہیں۔ جن کو کسی طور پر نہ ہی تبدیلی اور نہ ہی انھیں ضبط { کنٹرول} کیا جاسکتا ہے۔ تناو اور بے چینی کی حالت سے یساریت پسند فکریات بھی تقسیم در تقسیم ہوگی ہے۔

مارکسی نظرئیے میں مغائرت {ALIENATION} کا قوی تصور لایعنیت کی عمدہ مثال ہے۔ جس میں تناقص بھی ہے، ابہام بھی اور تشکیک سے بھری ہوئی ہے۔ لایعنیت مارکسزم میں جبر اور تصادم کی اخلاقیات کا منکر ہے۔ لینن کی نظر میں جبر کا تصور انسانی افعال یا ایکشن لایعنیت کی کہانی کو مسترد کرنے کے بعد ایک ” آزاد خواہش” کو ابھارتا ہے۔ چاہیے وہ ذہین یا کمتر ذہانت   کا انسان ہو۔ مگر وہ اپنے عمل کی جانچ مختلف سطحوں پر کرتا ہے۔ وہ اسے درست اور متعبّر اور قابل قبول بنانے کے لیے سخت لہجہ اور اقدامات بھی اختیار کرتا ہے۔ تاکہ اس کی پہنچ ” آزاد خواہش” تک ہو جائے۔ جس میں فرد کے جبریہ اصولوں کو انفرادی سطح پر متعین کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ مگر کارل مارکس نے انسانی عمل یا ایکشن کو کبھی ضروری خیال نہیں کیا۔ اور نہ ہی اسے تاریخی مادیت کے تناظر میں دیکھا جب کہ البرٹ کامیو کا مارکسزم سے اختلاف ذاتی ، سیاسی اور فلسفیانہ بنیادوں پر تھا۔

کامیو نے 1930 کے وسط میں کمیونسٹ پارٹی سے  اپنی ہمدردیاں واپس لے لی تھیں۔ اور مقبول فرنٹ کی حکمت عملیوں پر عمل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے الجزائر میں فرانسیسی نو آبادیات کو چلانے کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی آئیڈیالوجی کو بھی مسترد کردیا۔ جس کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ پھر البرٹ کامیو نے لایعنی فکر کو تاریخی حوالے سے بامعنی بنانے کی کوشش  کی ہے۔ جو مارکسی نظریہ حیات/ آئیڈیالوجی سے گریز پا  تھا۔

1946 میں کمیونسٹ اخبارات نے ان کے خلاف دھمکی آمیز تحریک چلائی کامیو کا باغی ” لایعنی باغی” ہے وہ کسی طور پر مارکسٹ باغی اور نراجیت پسند { انارکست} نہیں ہو سکتا۔ کامیو  کے  خیال میں مارکس کا فلسفہ انیسویں صدی کا آئیڈیالوجیکل کشمکش { جدوجہد} کا اقتدارپسند سوشل ازم اور لبرل ازم ہے۔ کامیو کے مطابق مارکس کا منصوبہ یہ رہا ہے کہ پیدا واری مطالبات کے ساتھ تنازعات کھڑے کئے جائیں اور تاریخ کی تشکیل کی جو پیش گوئی کی گئی تھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ کامیو انقلاب کو فرد کی غلامی تصور کرتے تھے۔ جہان انسان کا شعور غصب کرلیا جاتا ہے اور مارکسی فلسفہ کوئی سائنسی  نظریہ نہیں ہے۔ یہ سائنسی اور فکری نوعیت کا تعصّب ہے۔ کامیو کی لایعنی فکر عارضی اقتدار اور طاقت کی بحالی کے نظرئیے کو رّد کرتی ہے ۔ وہ عقل اور دانش کی آزادی کے قائل ہیں۔

یساریت پسند جس ابدی ارتقا کا تصور لیے ہوئے ہیں وہ اصل میں فکر کا زوال اور اختتام ہے۔ مگر اس کےاختتام میں کسی ضمانت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ “جدلیاتی انقلاب ” نہیں یہ صرف نفی دانش کا منفی رویّہ ہے۔ جس میں تحریکوں کے مقاصد میں ہر چیز سے انکار ممکن نہیں کیونکہ خود اس کا وجود نہیں ہوتا۔ کامیو کا لایعنی ہیرو۔۔۔ مارکسٹ ہیرو سے یکسر مختلف ہے۔ جو دیوتاوں کی عدم مقتدریت اور باغیوں کے خمیر سے گوندھا گیا ہے ۔

1925/1926 میں جارج لوکاش نے اپنی کتاب ” تاریخ اور طبقاتی شعور” میں مارکسزم کی موضوعی توجیہات پیش کی ہیں اور طبقاتی کشمکش میں فرد کی لایعنی صورتحال کو بین  السطور میں بیان کیا ہے۔ جسکو لایعنی سچائی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اپنے اس نظرئے میں اس نظرئیے کا فکری ڈھانچہ ترتیب پاتا ہے جو انسان کے ” میکانی پرزے” کی شکل میں تبدیل ہوجانے کا سانحہ بھی ہے۔ جو مارکسی نظرئیے میں فرد کی اصل لایعنی اذیّت ہے۔ مارکسزم کو لایعنی حوالے سے یوطوفیائی { یوٹوپیائی} خواب کے المیے کا احساس دلوایا گیا۔ جو اصل میں یساریت شکن ڈیموکریٹ لبرل ازم کا عندیہ تھا۔

اس مضمون کا مقصود یہ ہے کی مارکسزم میں تشویش اور وجودی /موجودگی کے احساسات کو ظاہر کرکے مارکسی فلسفے اور اس کی جدلیات میں مغائرت سے جو چھپا   ہوا ایک لا یعنی مزاج اور کرب دکھائی دیتا ہے اس کو سمجھنے کی کلید کو تلاش کیا جائے۔ اور ان عناصر کو سامنے لایا جائے۔ جس کو سکہ بند آئیڈیالوجیکل فکریات اپنے طور پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر چھپاتی ہے، اس کو اجاگر کیا جائے۔

بہرحال مارکسی فکریات میں ایک اچھا تناسب ” لایونیے” کا ہے۔ جس کر اہل فکر اور ناقدین لکھتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ یا وہ اپنی کوتاہ  فہمی کے سبب مارکسیت میں لایعنیت کو دریافت کرنے کے اہل نہیں ہے۔
لایعنیت، یساریت پسندی اور انسانی آزادی کے حوالے سے عمرانیات کا فکری  ڈھانچہ دبے لفظوں میں، غیر محسوس طور پر ان فکری مباحث کے پس منظر میں اپنی فکری علمیات کی موجودگی کا احساس دلواتا ہے۔ اس ساسلے میں درکیم، میکس ویبر، پارکر، پیلٹو، ویبلین، میڈ، سمنر زمیل، پارسنز، بکلے، ازیونی اور تراکن جیسے ماہر عمرانیات پیش پیش تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اردو میں انیس ناگی نے اپنی ادبی تحریروں میں ان رویّوں کو شامل کیا ہے۔ انیس ناگی ادب میں مارکسی وجودیت کے رجحان سے منسلک ہیں جس میں لایعنی روئیے کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ جس کی مثال ان کا ناول ” دیوار کےپیچھے” ہے۔ اس ناول میں فرد کے وجودی اور لایعنی کرب کو بیان کیا ہے ۔ جو اردو کے تخلیقی ادب میں نئی روایت کی عطا ہے۔ اس ناول کا کردار ” احمد” مکمل طور پر ایک “لایعنی کردار ” ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply