روزوں کی رخصت۔۔۔ محمد خلیل الرحمان

روزہ چھوڑنے کے شرعی اعذار پر علامہ جاوید غامدی اور بعض دیگر اہل علم کے تازہ موقف کا شرعی جائزہ ۔

رمضان کے روزے دو ہجری میں فرض ہوئے ۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں رمضان کے روزے نو بار آئے اور اتفاق کی بات ہے کہ یہ سارے روزے گرمیوں کے موسم کے تھے ۔

آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ رمضان کے روزوں کی ابتدا ہی گرمیوں کے روزوں سے ہوئی ۔ معرکہُ بدر بھی دو ہجری ہی کو رمضان المبارک میں ہوا ۔

حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے کئی اسفار اس ماہ مبارک میں کیے ۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ان اسفار میں بعض صحابہ ” و ان تصومو خیر لکم “کے تحت روزہ رکھ لیتے اور بعض ” فمن کان منکم مریضا او علیٰ سفر فعدة من ایام اخر ” کے تحت روزہ چھوڑ بھی دیتے ۔

ایک روایت کے مطابق ایک سفر کے دوران گرمی کی شدت اسقدر تھی کہ روزہ دار صحابہ نڈھال ہو رہے تھے ۔ چنانچہ رحمت عالم ﷺ نے بلند مقام پر کھڑے ہو کر سب کے سامنے پانی کا پیالہ اٹھایا اور روزہ ختم کر دیا تاکہ روزہ دار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی حضور ﷺ کی اتباع میں اپنا اپنا روزہ ختم کر دیں ۔

یہ وہ دور تھا جب موسموں کی شدت کا مقابلہ کرنے کیلئے آج جیسی سہولیات نہیں تھیں ۔ نہ ہی سفری سہولیات آج جیسی میسر تھیں ۔

بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ رحمت عالم ﷺ کپڑے کو پانی میں بھگو بھگو کر اپنے جسم اطہر پر ڈالتے تاکہ ٹھنڈک حاصل ہو سکے ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے شدت ِ موسم کے باوجود رمضان کے روزے ترک نہ فرمائے اور معمول کی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں ۔ تبلیغ اور جہاد تک بھی جاری رہا ۔

علامہ جاوید غامدی صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر طالب علم امتحان وغیرہ کی تیاری یا امتحان میں بیٹھنے کے دوران شدت ِ موسم کے باعث روزہ اس لئے چھوڑ دے کہ اس کی ذہنی استعداد متاثر ہو سکتی ہے تو یہ جائز ہوگا اور یہ مریض کو دی گئی رخصت کے تحت آئے گا ۔

ہماری دانست میں ان کا یہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ موسم کی شدت کو کبھی بھی روزہ چھوڑنے کا جواز نہیں بنایا گیا ، حالانکہ اس دور میں تو ٹھنڈک حاصل کرنے کے ذرائع مفقود ہی تھے ۔

وہ واقعہ جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے ایک تو وہ سفر کا واقعہ ہے جہاں روزہ ترک کرنے کی واضح رخصت پہلے ہی شریعت نے دے رکھی ہے ۔

دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ صحابہ روزے کے باعث نڈھال ہو رہے تھے اور ان کو جسمانی طور پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جس کی بنا پر آپ نے روزہ ختم کرنے کا فیصلہ فرمایا ۔

یہاں تین چیزیں جمع تھیں ، روزہ کی حالت ، موسم کی شدت اور سفر کی کلفت ۔ آج بھی اگر کسی کو ایسی کیفیت درپیش ہو تو وہ روزہ قضا کر سکتا ہے اور اگر روزہ رکھا ہو تو توڑ بھی سکتا ہے . یہاں یہ بات پیش ِ نظر رہنی چاہئے کہ کسی احتمال کی بنا پر روزہ نہ رکھنا اور معاملہ ہے جبکہ کسی بیماری یا ضرر کے حقیقی خطرہ کے پیش نظر روزہ توڑ دینا دوسری بات ہے لہذا یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ زیر نظر واقعہ میں دوسری صورت پائی جاتی ہے جبکہ علامہ غامدی کے نئے فتوے میں پہلی صورت کا معاملہ مذکور ہے جسے اس روایت سے مستنبط نہیں کیا جا سکتا ۔

طالب علم کو یہ رخصت اس بنا پر دینا کہ اسے شدت ِ موسم میں روزہ رکھنے کے سبب ذہنی یکسوئی میسر نہیں رہے گی اور اسکی دماغی استعداد کار اور صلاحیت متاثر ہونے کے سبب اس کی تیاری متاثر ہو سکتی ہے جس کا یقینی اثر نتائج پر پڑے گا بہر حال ایک ایسا معاملہ ہے جو میرے ناقص فہم کے مطابق شریعت پر تجاوز ہے ۔ بیماری پر قیاس انہی حالتوں کو کیا جا سکتا ہے جن میں بیماری بڑھنے یا جسمانی حالت خراب ہونے کا اندیشہ ہو ۔ آج کل کمرہ امتحانات کا ماحول گھروں سے ملتا جلتا ہی ہوتا ہے ۔ پھر طالب علم نے وہاں محدود وقت گذارنا ہوتا ہے ۔

اگر شدت ِ موسم کی وجہ سے مشقت بڑھ جانے یا استعدادِ کار میں کمی واقع ہونے کے اندیشے کی بنا پر روزہ قضا کرنے کی چھوٹ دیدی جائے تو پھر ہر کوئی بآسانی اس سے فرار کا راستہ نکال لے گا اور رفتہ رفتہ شدت موسم بھی بیماری کی طرح روزہ قضا کرنے کا ایک مستقل سبب بن جائے گی ۔ پھر تو بنکوں میں کام کرنے والے یہ عذر پیش کر دیں گے کہ ہماری دماغی حالت میں خلل پیدا ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم حساب کتاب میں فاش غلطی کر سکتے ہیں جس کا نقصان ہمیں برداشت کرنا پڑے گا ۔ ڈاکٹر یہ کہہ سکتا ہے کہ اسکی پیشہ وارانہ صلاحیتیں متاثر ہو سکتی ہیں اور وہ مریض کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ انجینئر عمارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کر سکتا ہے اور وکیل مقدمہ متاثر ہونے کا ۔ لہذا یہ ایک لا متناہی سلسلہ چل نکلے گا اور بالآخر روزہ صرف وہی رکھے گا جو بیکار ہے .

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیماری اور سفر کی دو بنیادی رخصتوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے , جیسا کہ فقہا نے کیا اور حاملہ اور بچے کے دودھ پلانے والی عورتوں کو بھی مریض پر قیاس کرتے ہوئے انہیں بھی یہ رخصت دی کہ وہ چاہیں تو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو قضا کر لیں .

یہ قیاس درست ہے کیونکہ یہاں اشتراک ِ علت موجود ہے , یعنی جس طرح بیماری میں روزہ رکھنے سے صحت متاثر ہو سکتی ہے اسی طرح دودھ پلانے والی یا حاملہ عورت کی بھی روزہ کی وجہ سے صحت متاثر ہو سکتی ہے
چنانچہ یہ معاملہ اس پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو بعد میں قضا کر لے جبکہ شدید موسم میں امتحانات کی تیاری کے حوالے سے روزہ چھوڑ دینے میں یہ علت نہیں پائی جاتی .

زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شدت ِ موسم میں روزہ رکھنے کی صورت میں طالب علم کی تیاری بہتر نہیں ہوگی اور بس لیکن اسکی صحت متاثر ہونے کا تو کوئی خدشہ نہیں ہے تو یہ قیاس مع الفارق ہے .

جہاں تک تیاری متاثر ہونے کے خدشے کا تعلق ہے تو یہ بھی موہوم ہے کیونکہ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ روزہ کے باعث ایک طالب علم تضیع ِ اوقات کی مختلف صورتوں سے بچ جاتا ہے جیسے کھیل کود , فلم بینی اور انٹرٹینمنٹ کی مختلف صورتیں , مزید برآں اسے روحانی بالیدگی نصیب ہوتی ہے جو زیادہ یکسوئی کا باعث ہوتی ہے .

غامدی صاحب کے فتوے کی حمایت میں کچھ اور اہل ِ علم نے مزید صورتوں پر بھی بحث کی ہے . مثلاً پیشہ ور کھلاڑی لمبے دورانیے کے کھیل کے دوران بطور خاص شدید گرمی کے موسم میں اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ نہیں ؟ اس حوالے سے عرض ہے کہ اگر وہ میچ کھیلنے کسی دوسرے شہر میں گیا ہے یا دوسرے ملک میں گیا ہے تو ویسے ہی مسافر ہے اور بایں طور اس کیلئے پہلے ہی منصوص رخصت موجود ہے ۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنے ہی شہر میں کھیل رہا ہے تو بھی اسے مریض پر قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ چلچلاتی دھوپ میں کئی گھنٹے روزے کے ساتھ کھیلنے سے اس کے dehydrate ہو جانے کا قوی خدشہ ہے جس سے اسے جسمانی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے اور اسے کوئی عارضہ لاحق ہو سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے بھٹہ خشت یا فرنس وغیرہ پر کام کرنے والے مزدوروں کا معاملہ ہے اور انہیں مریض پر ہی قیاس کیا جاتا ہے .

اسی طرح کا معاملہ اس شدید گرمی میں لگاتار چلچلاتی ہوئی دھوپ میں کسی سائے کے بغیر گھنٹوں کام کرنے والے مزدور کا بھی ہے . ان سب کو رخصت دینے کی علت موسم کی شدت نہیں بلکہ dehydration وغیرہ کی صورت میں ان کی صحت کو پہنچنے والا نقصان ہے .

اسی طرح ایک اور صورت زیر بحث لائی گئی ہے کہ جو عورتیں عید وغیرہ کی خریداری دن میں ہی کرتی ہیں اور رات کو گھروں سے نہیں نکلتیں کیا وہ خریداری والے دن روزہ چھوڑ سکتی ہیں کیونکہ دن میں خریداری کی صورت میں شدید موسم میں روزہ کی حالت میں مشقت بڑھ سکتی ہے اور وہ نڈھال ہو سکتی ہیں .

ہماری دانست میں اس صورت میں نہ تو نڈھال ہونے کا قوی خدشہ ہے اور نہ ہی خریداری کے عمل کو مزدوری کی طرح پر مشقت قرار دیا جا سکتا ہے . آجکل بازاروں اور مارکیٹوں میں سائے کا اہتمام ہوتا ہے . دوکانوں پر زیادہ تر ائیر کنڈیشنر چل رہے ہوتے ہیں یا کم از کم کولر اور پنکھے تو ہر جگہ ہی موجود ہوتے ہیں . پھر یہ کام مزدوری کی طرح مشقت والا نہیں ہے .
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ وہ رات کو افطار کے بعد یہ کام کر سکتی ہیں اور ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین کا معمول بھی یہی ہے . عرب ممالک میں بھی رمضان میں رات ہی کو بازار سجائے جاتے ہیں جنہیں “سوق الیل”کہتے ہیں . لہذا یہ قیاس بھی درست نہیں ہے کہ عورتیں عید وغیرہ کی خریداری کے پیش نظر روزہ چھوڑ دیں اور ہم اسے عذر شرعی قرار دیدیں .

اس بحث سے ایک اور نکتہ بھی جڑا ہوا ہے کہ کیا سفر اور بیماری کے سبب روزہ چھوڑنے کا فیصلہ مبتلیٰ بہ شخص خود کرے گا یا کوئی معالج یا کوئی عالم ؟ ہماری دانست میں مریض کی بیماری کی نوعیت اور شدت کے حوالے سے معالج کی رائے سے استفادہ کیا جانا چاہئے تاہم عام اور معمولی امراض کی صورت میں مریض خود بھی اپنی قوت برداشت کا اندازہ کر کے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس نے روزہ رکھنا ہے یا قضا کرنا ہے ۔

علما کا کردار شرعی مسائل کی درست تفہیم و تشریح تک ہی محدود ہے البتہ جن اعذار کو قیاساً داخل کیا جا رہا ہے یہ تو یقیناً علمائے مجتہدین کا کام ہے جو قیاس کے تقاضوں اور شرائط کے ساتھ ساتھ احکام شرعی کی علتوں کو سمجھتے ہیں ۔ اس لئے یہ معاملہ عام مسلمانوں کے سوچنے کا نہیں ہے بلکہ یہ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ محنت اور دقت نظر سے ان مسائل کے بارے میں ذمہ دارانہ راہنمائی فراہم کریں کیونکہ باقی لوگ ان کی تقلید کریں گے ۔

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر مبتلیٰ بہ شخص منصوص اور قیاسی اعذار سے فائدہ اٹھانے میں کوئی خطا کر بیٹھتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ہم اس مسئلے کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر کوئی شخص روزہ کی فرضیت کا انکاری نہیں ہے البتہ بغیر عذر شرعی روزہ ترک کر دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

اس پر تو اجماع امت ہے کہ ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر توبہ کرے خواہ وہ ایک ہی دن کا روزہ بلا عذر شرعی کیوں نہ ترک کر دے ۔ اسی طرح جمہور اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ توبہ کے ساتھ ساتھ اس پر چھوڑے گئے روزوں کی قضا بھی واجب ہے ۔ بعض اہل علم نے تو وجوب ِ قضا پر اجماع نقل کیا ہے جن میں علامہ ابن عبدالبر اور ابن قدامہ مقدسی شامل ہیں ۔ دیکھئے بالترتیب الاستذکار 1/77 اور المغنی 4/365 ۔

لیکن وجوب قضا پر اجماع کا دعویٰ درست نہیں کیونکہ کثیر علمائے ظواہر کے علاوہ متقدمین حنابلہ اور شیخ ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین اور شوافع میں سے بعض کا موقف یہ ہے کہ جان بوجھ کر چھوڑے گئے روزے کی قضا نہیں ہو سکتی لہذا نہ قضا کا فائدہ ہے اور نہ ہی یہ قضا قبول ہو گی ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عبادت کیلئے جو وقت مخصوص تھا وہ جان بوجھ کر گذار دیا گیا لہذا اب قضا کا فائدہ نہیں ہے ۔ علمائے ظواہر کا کہنا ہے کہ ایسا شخص توبہ کیساتھ ساتھ کثرت سے نفلی روزے رکھے ۔

خلاصةً جمہور اہل علم کا وجوب قضا والا موقف ہی درست لگتا ہے ۔ یہ تو حکم اس شخص کے بارے میں ہے جس نے عذر شرعی کے بنا تساہل کے سبب روزہ ترک کیا کہ اس نے کبیرہ کا ارتکاب کیا اور اس پر ترک کیے گئے روزے کی قضا واجب ہے ۔ لیکن جو شخص شرعی عذر سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے خطا کر بیٹھے اس کا گناہ عمداً روزہ ترک کرنے سے بڑا تو نہیں ہو گا ۔ لہذا اگر وہ اس صورت میں “فعدتة من ایام اخر “کے تحت چھوڑے گئے روزے قضا کر لے اور احتیاطاً توبہ بھی کرلے تو قریب ہے کہ اللہ رب العزت اسے معاف فرما دے اور اس کی قضا کو قبول کر لے ۔

البتہ قیاساً روزہ چھوڑنے کے اعذار پر اجتہاد کرنے والے اہل علم کے پیش نظر یہ بات بھی رہے کہ جن آیات میں سفر اور بیماری کی صورت میں روزہ قضا کرنے کی رخصت یا فدیہ ادا کرنے کا بیان ہے اس کے بعد”وان تصومو خیر لکم ان کنتم تعلمون “کی بات بھی کی گئی ہے جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ رخصت پر عمل کرنا اگر چہ جائز ہے لیکن روزہ رکھ لینا ہمارے حق میں کہیں بہتر ہے ۔ ہمیں لوگوں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ روزہ میں جس قدر مشقت ہوگی روزہ دار کو اسی قدر اجر ملے گا . حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر لوگوں کو روزے کی فضیلت کا پتہ چل جاتا تو وہ تمنا کرتے کہ پورا سال ہی رمضان رہے . سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے تین چیزیں عزیز ہیں . تلوار کیساتھ جہاد , مہمان کی عزت اور گرمیوں کے روزے . درست ہے کہ یہ ذوق کی بات ہے لیکن کہنے والا بھی تو دیکھیں کون ہے ؟ باب مدینة العلم ہے ۔ سبحان اللہ

کتبہ

Advertisements
julia rana solicitors

محمد خلیل الر حمٰن قادری

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply