کمبخت ذہنی صحت (8)-محمد وقاص

روزنتھل اور جیکبسن نے ایک تجربہ کیا۔ ایک کلاس کے بچوں کا IQ ٹیسٹ لیا۔ اس کے بعد اس کلاس کے اساتذہ کو بتایا کہ یہ 80 فیصد بچے اوسط ہیں۔ جبکہ یہ 20 فیصد بچے اچھے IQ والے ہیں اور ذہین ترین ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے دیکھا کہ اساتذہ کا رویہ ان ذہین ترین سٹوڈنٹس کی طرف مختلف تھا۔ وہ ان اسٹوڈنٹس کو زیادہ توجہ دیتے تھے اور زیادہ توقعات رکھنے لگے تھے۔ تقریبا ًآٹھ مہینوں بعد ایک ٹیسٹ لیا گیا۔ انہوں نے اس ٹیسٹ میں دیکھا کہ جو 20 فیصد بچے جن کو ذہین ترین قرار دیا گیا تھا، ان کا سکور باقی تمام بچوں سے زیادہ تھا۔

یہ نتائج لینے کے بعد انہوں نے اساتذہ کو بتایا کہ یہ کوئی ذہین بچے نہیں تھے، وہ عام بچے ہی تھے۔ صرف ہم نے تجربہ کرنے کے لیے ان کو لیبل دیا تھا۔ تو جب اساتذہ نے ان سے زیادہ توقعات رکھیں تو ان بچوں نے بھی ویسا ہی رویہ اپنایا۔ باقی بچے جن کو اوسط بچے کہا گیا تھا، ان میں بھی ذہین بچے موجود تھے لیکن چونکہ ان سے توقعات ختم کردی گئی  تھیں، اس لیے انہوں نے ویسا ہی نتیجہ دیا۔ اس کے بعد بہت سی ریسرچز نے اس چیز کو صحیح ثابت کیا۔

سائیکالوجی میں اس تصور کو self fulfilling prophecy کہا جاتا ہے۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ ایسا پروسیس جس میں توقعات خود اپنے آپ کو صحیح ثابت کریں۔ اس تھیوری کے مطابق جو بھی توقعات انسان لگاتا ہے تو پھر اس کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنا رویہ تبدیل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی دو اقسام میں۔
1۔ self imposed prophecies.. ایسی توقعات جو کہ انسان اپنے عمل اور اپنے رویے سے رکھتا ہے۔
2۔ other imposed prophecies
دوسروں کی توقعات جو انسان کے ساتھ ہوتی ہیں۔

ذہنی صحت کے لیے ہم یہاں صرف پہلی قسم کی بات کریں گے۔
اس کو روزمرہ زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہ مثبت بھی ہو سکتی ہیں اور منفی بھی۔ مثلاً اگر ایک انسان یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اسٹیج پر کھڑا ہو کے نہیں بول سکے گا تو اس کی سوچیں اور اس کے عمل اس prophecy کو پورا کرنے لگ جائیں گے۔ اگر اپنے بچوں کو بار بار یاد دہانی کرائیں گے کہ ہمیں تم سے کوئی امید نہیں ہے کہ تم کوئی اچھے نتائج لاؤ گے، تو ایسا بچہ اس prophecy کو پورا کرنے لگ جائے گا۔

آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ جہاں اور بہت زیادہ عوامل کار فرما ہوتے ہیں ان میں یہ prophecy بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آپ اپنے مستقبل کے لئے جو بھی توقعات رکھیں گے چاہے اچھی ہوں یا بری، تو آپ اپنے رویے سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ حدیث قدسی میں بھی ہے کہ “جیسا تم گمان کرو گے مجھے ویسا ہی پاؤ گے”۔

جب آپ اچھے کی توقع رکھنے لگتے ہیں تو آپ کا ذہن صرف اچھی چیزوں کو فلٹر کرنے لگتا ہے۔ ہمارے ذہن کو دس ملین bits سے زیادہ انفارمیشن فی سیکنڈ آرہی ہوتی ہے۔ اس میں ذہن اپنے پاس وہی انفارمیشن رجسٹر کر پاتا ہے جس طرح کے فلٹر اس نے لگائے ہوتے ہیں یا جس طرف اس کی توجہ ہوتی ہے۔ باقی تمام انفارمیشن ختم ہوجاتی ہے۔

ہم اس کو اپنی ذہنی صحت کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم یہی توقع رکھیں گے کہ ہماری ذہنی صحت بہت اچھی ہوگی۔ ہم ذہنی طور پر مضبوط ہوں گے۔ زندگی میں مسائل اور چیلنجز کے باوجود بھی ہم پرسکون رہا کریں گے۔

آج 28 اگست 2024 ہے۔ آج سے اچھی توقع رکھیں۔ اس سے پہلے آپ جو بھی خود سے توقع رکھتے تھے اس کو ڈیلیٹ کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بہت اہم نقطہ ہے اگر آپ خود سے منفی توقع رکھتے ہیں اور تو کبھی بھی ذہنی صحت حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ جب بھی آپکو مثبت مواقع ملیں گے، آپ کا لاشعور اس پر مزاحمت کرنے لگے گا۔
ابھی سے اچھے کی توقع رکھیں۔ آگے آنے والی پوسٹوں میں مزید اقدامات کے بارے میں بتایا جائے گا۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply