زبوں حال اقتصادی مستقل۔۔۔لال خان

پاکستان کے حکمران طبقات کے جو چند سنجیدہ معیشت دان رہ گئے ہیں وہ موجودہ معاشی بحران اور مستقبل کی مزید اقتصادی زبوں حالی سے خاصے پریشان لگ رہے ہیں۔ ویسے تو یہاں کی تاخیرزدہ اور مستقل بیمار سرمایہ داری کا معاشی نظام کبھی عوام کے لئے کسی خاطر خواہ بہتری اور ترقی کا باعث نہیں رہا لیکن بالخصوص پچھلی کچھ دہائیوں سے میکرو اکنامک اعشارئیے مسلسل زوال پذیری کا پتا ہی دیتے ہیں۔ مسئلہ پالیسی سازوں کی ذہانت یا تجربے کا نہیں ہے۔ سارے ہی گزارا کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ اِس بحران کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایمرجنسی قرضے (بیل آؤٹ) ہیروئن یا مارفین کے ٹیکوں جیسے ہیں جن کی طلب بڑھتی ہی جاتی ہے اور جب نشہ اترتا ہے تو معیشت اور معاشرت پہلے سے بدتر اذیت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ حکمران طبقات کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے طبقے کی نمائندہ سیاست کو سیاسی افق پر مسلط تو کر دیا ہے، محنت کش عوام کی ہر سنجیدہ سیاسی نمائندگی بھی ختم کر دی ہے لیکن ان کا اپنا نظام تاریخی طور پر ایسی موذی بیماری کا شکار ہے جس کا علاج ممکن نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جوں جوں وقت کے ساتھ اِس نظام معیشت کا بحران بڑھتا گیا ہے توں توں سیاست، میڈیا، انتخابی مہمات اور پارٹیوں کے منشوروں میں سے معاشی بحث بھی خارج ہوتی گئی ہے۔ آج مروجہ سیاست کی ہر پارٹی کا معاشی پروگرام کم و بیش ایک ہے۔ سب سرمایہ داری کو حتمی اور منڈی کی معیشت کو مقدس مانتے ہیں اور مختلف شکلوں میں نیولبرل پالیسیوں، نجکاری اور بیرونی سرمایہ کاری کو ہی تریاق قرار دیتے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی پارٹی کسی حقیقی سماجی مسئلے اور اقتصادی ایشو کو اپنی کمپئین کے ایجنڈے پر نہیں آنے دے رہی۔ کیونکہ حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ بس کبھی عوام کے دکھ درد کا جھوٹا موٹا رونا رویا جاتا ہے اور پھر وہی غلیظ الزام تراشیوں اور نان ایشوز کی سیاست شروع ہو جاتی ہے۔
اس وقت معیشت کی زبوں حالی جس نہج کو پہنچ گئی ہے وہاں وہ مزید سیاسی انتشار، تنازعات اور بڑے تصادموں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ لیکن عوام کے مسائل سے کوسوں دور یہ سیاسی بازی گر اقتدار کے حصول کے لئے ایک اندھی اور بیہودہ لڑائی میں برسرپیکار ہیں۔ یہ تمام تر تضادات اور ہلڑ بازی بھی آخری تجزیے میں اسی اقتصادی بحران کی بالواسطہ غماز ی کرتی ہے۔ چونکہ جب کوئی معیشت بحران زدہ ہوتی ہے تو حکمرانوں کی حصہ داری میں بھی کمی ہوتی ہے بڑی مچھلیاں سب کچھ نگلنے کے چکر میں ہوتی ہیں جبکہ چھوٹے مچھیرے سمندر سے خالی ہاتھ لوٹنے پر بھی مجبور ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ گھمسان کی سیاسی جنگ اس حقیقت کو بھی آشکار کرتی ہے کہ حکمران طبقات اتنے نااہل، بدعنوان اور رجعتی ہوگئے ہیں کہ سیاسی اقتدار اور ریاستی اداروں کے آسروں کے بغیر وہ اپنا معاشی وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اس کیفیت میں آسرے دینے اور ڈوریاں ہلانے والے بھی ان حصہ داری کی لڑائیوں میں شریک ہوتے چلے گئے ہیں۔ وہ بھلا کیوں صرف اس بدعنوان سیاسی اشرافیہ کو ہی سارا مال لوٹنے دیں؟ لیکن جہاں یہ تصادم اس معاشی بحران کی غمازی کرتے ہیں وہاں یہ عدم استحکام اور خلفشار اس بحران کو مزید بگاڑ بھی رہا ہے۔ آج پاکستان کی برآمدات اسکی معیشت کی ضروریات اور تقاضوں سے کہیں نیچے گر گئی ہیں۔ درآمدات میں اضافہ تجارتی خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی سنگین گراوٹ کا باعث بن رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان کا بیرونی قرضہ جو 90 سے 100 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ سی پیک ہے۔ اتنی بھاری سرمایہ کاری پر جو دیوہیکل مشینری اور مصنوعات چین سے درآمد کی گئی ہیں ان کے لئے قرضہ بھی چین سے ہی لیا جا رہا ہے۔ اس خسارے کی کیفیت میں سٹیٹ بینک سے زیادہ ’منڈی کی قوتوں‘ نے روپے کی قدر میں دسمبر سے اب تک 10 فیصد کمی کی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں زرمبادلہ کے ذخائر 19 ارب ڈالر سے گر کے 10 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس وقت واجب الادا رقوم اگر ساری دے د ی جائیں تو زرمبادلہ کے ذخائر منفی میں چلے جائیں گے۔ دوسری طرف یہاں سے لوٹی جانے والی دولت اس قدر ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے ہی سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے مالی سال کے دوران 15 ارب ڈالر ’’جائز‘‘ جبکہ تقریباً اتنی ہی رقم ناجائز طریقوں سے ملک سے باہر بھیجی گئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس حالت میں سامراجی قرضوں کی ادائیگی میں ’ڈیفالٹ‘ کا خطرہ پھر منڈلا رہا ہے۔ آنے والی حکومت کو سب سے پہلے پھر آئی ایم ایف کی منت سماجت کرنی پڑے گی۔ پچھلے 40 سال کی تاریخ میں یہ عمل کئی مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ کچھ معیشت دانوں کا رحجان چین کی جانب ہے لیکن چین جو قرضے دے رہا ہے وہ محض سی پیک تک ہی محدود ہیں۔ ایسے میں باقی ساری معیشت کے خساروں کے لئے پھر آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا ہوگا۔ لیکن عالمی معیشت اور مالیاتی نظام کی جو اپنی زبوں حالی ہے اس سے آئی ایم ایف کی شرائط بھی مزید کڑی ہو جائیں گی۔ زیادہ تر قرضے پرانے قرضوں کے سود وغیرہ پر ہی صرف ہونگے۔ عام طور پر ایسی وارداتیں نگران یا مخلوط حکومتوں میں کی جاتی ہیں۔ موجودہ حکومت نگران ہے اور مقتدر قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ آئندہ ایک مخلوط بنائی جائے۔ دوسرے الفاظ میں غریب عوام کا بچا کھچا خون بھی نچوڑنا حکمرانوں کی لوٹ گھسوٹ کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے بغیر یہ استحصالی نظام چل نہیں سکتا۔ یہاں سب سے بڑے اخراجات بیرونی و داخلی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں، عسکری امور اور ’’ترقیاتی منصوبوں‘‘ پر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ قرضوں میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہی ہوتا آیا ہے۔ اس نظام کی کوئی حکومت ان قرضوں پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ یہی کیفیت عسکری اخراجات کی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر بھی زیادہ مال سامراجی اور قومی سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں8 کے پاس ہی جاتا ہے۔ حکمرانوں نے تو ٹیکس دینا نہیں اس لئے بالواسطہ ٹیکسیشن میں مزید اضافہ کرکے مزید مہنگائی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ’’حکومتی اخراجات میں کمی‘‘ اور ’’بچت‘‘ وغیرہ کے معنی افسر شاہی اور وزرا کی عیاشیوں میں کمی نہیں بلکہ تعلیم و علاج کے شعبوں کو نجی ملکیت میں دے کر ان کو عوام کے لئے مزید ناقابل خرید بنانے کے ہوتے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے برآمدات میں شاید تھوڑا بہت اضافہ ہو لیکن بحران زدہ عالمی منڈی میں یہ گنجائش بہت کم ہے۔ شرح سود بڑھانے سے سرمایہ کاری میں مزید کمی آئے گی۔ لیکن سرمایہ کاری کے بڑھنے سے بھی موجودہ دور میں نہ تو زیادہ نوکریاں بڑھتی ہیں اور نہ ہی کوئی خاطر خواہ سماجی بہتری ہوتی ہے۔ پھر سرمایہ کاری کا بھی یہ عالم ہے کہ اب پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل ملز تک کسی ادارے کو مکمل طور پر خریدنے کو کوئی سرمایہ دار تیار نہیں ہے۔ لہٰذا ٹکڑے کر کے بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں آنے والا وقت محنت کش عوام کے لئے مزید خراب ہے۔ اس نظام کو بدل کر ہی تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کیا جاسکتا ہے کیونکہ اصل زر کئی شکلوں میں ایک سے زیادہ بار ادا کیا جا چکا ہے۔ عسکری اخراجات میں کمی کے لئے ایسے پائیدار امن کی ضرورت ہے جس کا موجودہ نظام متحمل نہیں ہوسکتا اور جنگی منافعے اسکی اجازت نہیں دیتے۔ تعمیراتی و ترقیاتی منصوبوں کو عوام کی جمہوری پہنچائتیں یا کونسلیں ہی اشتراکی بنیادوں پر کسی منافع خوری کے بغیر سارے سماج کی بہتری کے لئے تعمیر کر سکتی ہیں۔ مختصراً یہ کہ کسی بہتری کی اولین شرط سرمایہ دارانہ نظام سے نجات ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دی سٹرگل

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply