نئی کچھار کی تلاش۔۔۔ڈاکٹر شاہین مفتی

تاریخ کی کتابوں میں کبھی پڑھا تھا۔۔افغانستان ایک ایسی سرزمین ہے جس نے کبھی کسی دوسرے کا تسلط برداشت نہیں کیا اور اس کی جغرافیائی  ساخت اتنی عجیب و غریب ہے کہ وہ خود افغانیوں کو بھی سمجھ نہیں آ سکی ۔ اس کا تہذیب و تمدن اور اس کی جنگجو صلاحیت بھی ایک سربستہ راز ہے۔۔۔

برصغیر ہندوپاک پر حکومت کرنے والا انگریزی سامراج اس وقت بھی اس پر کوئی  برتری حاصل نہ کر سکا جب ملکہ برطانیہ کی بادشاہت آدھی سے زیادہ دنیا پر اپنا سکہ جمائے ہوئے تھی۔۔شاید تاریخ اس بات سے اغماز برتتی رہی کہ افغان قوم اپنے ارادے ،بہادری اور حکمت ِ عملی میں کتنی مضبوط اور ناقابل ِ یقین حد تک اٹل ہے ، کہ اس نے غلام نہ بننے کی قسم کھا رکھی ہے۔

ایک قصہ تو ظہیرالدین بابر کا ہی ہے ، جو افغانستان سے آیا اور مغلیہ سلطنت کا بانی قرار پایا۔مغلوں کا چار پانچ سو سالہ بادشاہی نظام اگر کسی نے کمزور کیا تو وہ بھی افغانستان کے نادرشاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی ہی تھے جنہوں نے تخت ِ دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور سب مال و متاع بھی لُوٹ کر چلتے بنے۔زوال کے دن شروع ہوئے تو پھر سنبھلنے کی گھڑی نہ آئی ۔اسی ٹوٹ پھوٹ سے پاکستان برآمد ہوا۔۔
افغانیوں نے اول تو اس نئی  مملکت کو بہت دیر سے تسلیم کیا۔دوئم اس کے سرحدی علاقوں پر ہمیشہ نظر رکھی۔کئی  حکومتیں آئیں اورگئیں، ہمارے نیم دوستانہ تعلقات میں کبھی  گرم جوشی پیدا نہ ہو سکی۔اسلام پسند،افغان حکومتوں کا پلڑا انڈیا کی طرف ہی جھکا رہا۔

مصنفہ :ڈاکٹر شاہین مفتی

کچھ عرصہ کارمل حکومت سوویت یونین کے قریب رہی،پھر سوویت یونین کی مسلمان ریاستیں خودمختاری کی طلب گار ہوئیں تو ریاستوں کی آزادی کی جنگ میں افغانستان روس کا حلیف بھی تھا اور دشمن بھی ۔۔۔کہا جاتا ہے ہمیشہ کی طرح افغانیوں کا ایک دھڑا امریکہ کا حلیف اور دوسرا روس نواز تھا۔

کچھ عرصہ پہلے اکہتر کی جنگ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کو بحری بیٹرا بھیجنے کا وعدہ کرنے والے اور پھر مکر جانے والے امریکہ کوپاکستان کی مدد کرنے ، اس علاقے میں امن قائم کرنے اور سوشل ازم کے مذموم رجحانات کی روک تھام کے لیے ہماری اسلامی طرز ِ فکر کی حفاظت کا خیال آیا ۔ہمارے ایک اسلام پسند سپہ سالار جو خوش قسمتی سے صدر بھی تھے بروقت کام آئے ۔چین اور روس کی طرز پر پاکستانی معیشت کو استوار کرنے والے مقبول لیڈر کو تختہء دار پر لٹکایا گیا۔۔ملک میں اسلامی سزاؤں کا فروغ ہوا اورفکروخیال کی تالہ بندی کی گئی۔ہر تیسرے شخص کو مجرم قرار دیا گیا۔اسی پکڑ دھکڑ کے موسم میں صدر ضیاء اور ان کے رفقاء افغان جہاد کے اہم رکن بن چکے تھے ،پوری پاکستانی قوم دوہری مصیبت میں مبتلا ہوئی ۔ایک تو ہمارے ہاں جہادی کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔۔ جگہ جگہ اسلحے کی دکانیں کھلیں اورشوق ِ جہاد میں نئی  نسل موت کے راستے پر چل پڑی ۔ساتھ ہی ساتھ افغانیوں کی آپسی جنگ میں بے گھر ہونے والے افغانیوں کو ہماری سرزمین پر دھکیل دیا گیا۔۔۔۔

افغان کیمپ ، افغانوں کی بحالی، ان کی آبادکاری،ان کی تعلیم،ان کی صحت اور ان کی واپسی ہم پرایسے مسلط کی گئی  کہ اپنی قوم کی طرف توجہ کا وقت ہی نہ مل سکا۔  آغانیوں کی آؤبھگت کے نتیجے میں کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا اور سارا ملک بتدریج ہیروئن اور نشے کی دوسری اقسام کے استعمال میں مبتلاء ہوا ۔۔ اسی زمانے میں اسمگلنگ کے کاروبار کو بھی فروغ حاصل ہوا،مہاجرین کی آبادکاری اور خطے میں امن کے بہانے بڑے ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی مالی امداد حاصل کرنے کا یہ ذریعہ ہمارے مقتدر حلقوں کو بہت پسند آیا، چنانچہ تیس پنتیس برس سے ان مہاجرین کی واپسی کی کوئی  سبیل نہیں بن سکی۔ ان کی کئی  نسلیں یہاں پروان چڑھ چکیں۔وہ پاکستانیوں سے رشتہء ازدواج میں منسلک ہو چکے۔ان کے شناختی کارڈ بنے ،جائیدادیں بنیں اور کچھ کی رسائی  پارلیمنٹ تک بھی ہو چکی۔

افغانی فطرتاً محنتی،جفا کش اورکاروباری لوگ ہیں۔ مشکل زندگی اور وقت نے بھی انہیں بہت کچھ سکھا دیا ہے ۔سرحدوں پر ان کے پٹھان رشتے داروں کے گھر ہیں ان کے پاس مواصلات اور ذرائع ابلاغ کی بہترین سہولت بھی موجود ہے اس وقت وہ پاکستان میں چوکیداری،کوڑا اٹھانے کا کام ،الیکٹرانکس اور دوسری مشینری بیچنے کے علاوہ اپنے تندور اور ہوٹل کھولے بیٹھے ہیں۔تعمیرات اور سڑکیں بنانے کے ٹھیکے ان کے پاس ہیں ۔۔گھروں میں خانساماں گیری،سبزی فروشی اوردیگر چھوٹے موٹے کام جن کو پاکستانی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں سب پر افغانیوں کا اجارہ ہے ،یوں سمجھیے  کہ اب انہیں عملی طور پر پاکستان سے بے دخل کرنا آسان کام نہیں۔

دوسری جانب دہشت گردی اور طالبانائزیشن کی اصطلاحات کے زیر ِ اہتمام سرحدوں پر ہماری ان کے بھائی  بندوں سے جنگ بھی جاری ہے۔۔نیٹو فوجیں اور امریکی فوجیں افغانستان کی داخلی حکومتوں کی امن و امان کی صورت ِحال سے مطمئن نہیں ۔ان افواج کا سامان ِرسد پہنچانے کے لیے بھی پاکستان کو بطور راہداری استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔اس کار ِخیر کے لیے ہمارے ہوائی  اڈے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔۔۔
اس جنگ اور امن کے ماحول میں توازن پیدا کرنے کے لیے ،افغانستان اور پاکستان کے مابین باربڈ وال یعنی چاردیواری  بنانے کے اقدام کی بھی حوصلہ افزائی  کی جا رہی ہے۔۔۔

یہ ایک ایسی مسلط شدہ جنگ ہے جس میں ہمارا سب کچھ داؤ پر لگا ہے۔داخلی امن و امان ہمارے شہر ،ہمارے لوگ،ہماری نسلیں اورہمارامالیاتی نظام جو دن بدن تجارتی خسارے  میں تبدیل ہو رہا ہے۔یہ ایک مستقل ہنگامی صورتِ حال ہے جس میں سب سے بڑھ کر ہماری فوج پر کڑا وقت آن  پڑا ہے۔وہ اب تک تقریباً   75ہزار جوانوں کے لہو کا نذرانہ پیش کر چکی ہے ۔اس مشقت کے عوض ہماری جوامداد کی جاتی ہے،وہ ناکافی ہے ۔۔۔۔آئی  ایم ایف کے معاہدے اگرچہ انسانی بھلائی  اور انسانی ترقی کے دعویدار رہے ہیں لیکن کمزور معیشت کے غیر فطری سرحدیں رکھنے والے ممالک کے لیے ان کی یہ شرط بہت کڑی ہے کہ یہ ملک اپنی دفاعی نفری اور دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کریں گے۔۔۔ چنانچہ ہم جو ایک وسیع و عریض سرحد کی حفاظت پر متعین کیے گئے ہیں۔۔۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے حصار میں ہمیشہ سے ایک غیر محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔یہ بڑی طاقتیں جنہیں اپنے جنگی ہتھیاروں کی منڈیاں درکار ہیں ۔جو ہمارے حصے کے سمندروں پر اپنا تسلط چاہتے ہیں جو ہمیں اپنی جنگ میں ایندھن کی طرح استعمال کرنے کے آرزو مند ہیں ۔جو ہماری معیشت اور وسائل پر تسلط کی خواہش رکھتے ہیں اور جن کے لیے ہماری افرادی قوت ایک چیلنج ہے۔۔۔

دنیا میں امن کے داعی اور انسانیت کے دعویدار یہ ممالک ہمارے جیسی بےبس قوموں کی سرزمین پر اپنے ایجنڈے کے مطابق اپنی حکمت ِ عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔۔ایک بار پھر پینٹاگان اورہماری فوج کے مابین ایک دوسرے کے تعاون کا معاہدہ ہوا ہے۔۔امریکا ایک دو سال سے اعلان کر رہا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنی باعزت اور پُر امن واپسی چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اسے پاکستان کے عملی تعاون اور اسکی راہداریوں کی ضرورت ہو گی۔۔۔وہ یہ جانتا ہے کہ اس خطے سے نکل جانا گویا دو دوسری بڑی طاقتوں کو کُھل کھیلنے کا موقع دینا ہے۔اس کے لیے اس نے ایک نئی  حکمت ِ عملی ترتیب دی ہے یعنی وہ افغانستان سے نکلا تو پھر ثالثی کے لیے کشمیر میں قیام کرے گا۔۔۔ایک اور سرحدی اور ٹھنڈا علاقہ جہاں اس کی فوج موسم کی صعوبتوں سے بچی رہے اور شیر کو ایک نئی  کچھار میں دھاڑنے کا موقع بھی ملتا رہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین پرانے افغانستان کوجدید حیثیت میں افغانستان۔۔اسلامی امارات بھی پڑھ سکتے ہیں!

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہین مفتی
پروفیسر ڈاکٹر اردو ادب۔۔شاعر تنقید نگار کالم نگار ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply