دیوتا

نرملا نے جب مندر میں قدم رکھا تو پھر اسے خود پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔۔۔
اس کی برسوں پرانی محبت چند ہی لمحوں میں اسے دو کوڑی کا کرکے چھوڑ گئی تھی۔۔۔وہ تڑپتی سسکتی مندر میں داخل ہوئی،اس کا جی چاہا کہ سامنے سنگھاسن پر بیٹھے دیوتا کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر روئے،
اس نے کوشش کی کہ کسی طرح اس کا ہاتھ مندر کی گھنٹی کو چھو جائے۔۔۔لیکن اس کے ٹوٹے پھوٹے جسم میں اتنی جان نہ تھی۔۔
پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری۔۔۔اور اک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی کوشش کرنے لگی،اس بار اس کا ہاتھ مندر کی گھنٹی کو چھو گیا،اور مندر میں اک عجیب سی سنسناہٹ پیدا ہوئی۔۔
اس نے پھر سے گھنٹی بجائی۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔ ایک بار پھر۔۔
اب اس کا ہاتھ بنا کسی مشقت کے گھنٹی کو چھو رہا تھا۔۔اور گھنٹی کی آواز مندر کے در ودیوار میں کچھ الگ سی ہل چل پیدا کر رہی تھی۔۔۔
نرملا نے دیوتا کی بند آنکھوں کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔اس کا جی چاہا کہ وہ اس دیوتا کو زبردستی ہلا ہلا کرجگا دے۔۔اور اس سے پوچھے کہ آخر کیوں اس نے محبت جیسی ظالم شئے بنائی۔۔۔۔۔اور کیوں اس کی ہنستی بستی زندگی اجاڑ ڈالی۔۔۔؟
نرملا کے جسم میں اب مندر کی تسلسل سے بجتی گھنٹی کی بدولت انوکھی سی بے چینی جنم لے رہی تھی۔۔۔اس کے پاؤں تھرکنے کو بے قرار تھے۔
وہ آج اس مغرور دیوتا کو منا لینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔گھنٹی سے اس کا ہاتھ کب جدا ہوا،اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔۔۔تیز ہوائیں مندر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھیں۔۔اب گھنٹیا ں خود بخود بج رہی تھیں۔۔۔
ہوا کے شور میں نرملا نے اپنے پاؤں میں ارتعاش محسوس کیا۔۔۔اس کی آنکھیں دیوتا پر جمی تھیں۔۔۔۔اور جسم ہلکے ہلکے ہچکولے کھا رہا تھا۔۔وہ دیوتا کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی تھی،اور اپنے اختیار سے باہر ہوئی جا تی تھی۔۔۔اس کے جسم کا سارا خون چہرے پر آچکا تھا۔۔اب اس نے باقائدہ رقص شروع کر دیا ۔۔۔
اس کے ہونٹ بار بار اضطراری انداز میں کُھل اور بند ہو رہے تھے۔۔۔
اس کا جُوڑا کھلنے کی وجہ سے لمبے اوراماوس کی رات جیسے سیاہ با لوں نے اس کی کمر کے نظر آرہے گداز حصے کو چھپا دیا تھا۔۔جو اس کے بلاؤز میں سے جھلک دکھلا تھا۔پسینہ اس کے چہرے سے بہہ کر اس کی راج ہنس جیسی گردن پر یوں لکیریں کھینچ رہا تھا جیسے کو ئی گیلی ریت پر انگلیوں کی پوروں سے نقش و نگار بنا رہا ہو۔۔۔۔اور پسینے کے قطرے اس کی گردن سے ہو کر کُھلے گریبان میں یوں گِر رہے تھے جیسے گہرے سمندر میں دریا گرتے ہیں۔۔۔۔۔۔پر اسے ہوش کہاں تھی۔۔۔
اس کا انگ انگ دیوتا کی ناراضگی مٹانے میں مصروف تھا۔۔۔
اور وہ اپنے رقص میں یوں گُم تھی کہ گارے مٹی کے بنے دیوتا کی حرکت کو بھی محسوس نہ کر سکی۔۔
پر دیوتا اس کی طرح بے خبر نہ تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے نرملا کے اکیلے پن کو محسوس کر لیا تھا۔۔۔
دیوتا نے ایک آنکھ کھول کر نرملا کی طرف دیکھا۔۔۔قریب ہی آسمانوں پر بجلی زور سے کڑکی،لیکن نرملا اپنے حواسوں میں نہ تھی۔پازیب کے گھنگرو ؤں نے ٹوٹ کر فرش پر بکھرنے کی وجہ سے اس کے پاؤں کو لہو لہان کر دیا تھا۔۔۔
دیوتا کو اس کی حالت پر ترس آیا۔۔۔اس نے دوسری آنکھ کھولی۔۔۔اور اپنی پجارن پر ایک گہری نگاہ ڈالی،
اب مندر نرملا کے سامنے دائروں کی شکل میں گھوم رہا تھا۔۔ اسی حالت میں اس کی نظر دیوتا پر پڑی جو سنگھاسن سے ایک پاؤں نیچے رکھ کر کھڑے ہونے کی سعی کر رہا تھا۔۔وہ ایک دم خوفزدہ ہو گئی،اور سمجھ نہ سکی کہ یہ اس کا وہم ہے یا حقیقت۔۔۔۔
اگلا ہی پل مندر کی دیواروں کو ایک دوسرے میں ضم کر نے لگا۔۔۔
دیوتا مندر کے لہو رنگے فرش پر سیدھا کھڑا ہو چکا تھا۔۔۔اس کی آنکھوں میں نرملا کے لیئے ہمدردی تھی۔۔۔۔
نرملا کے جسم سے ساری جان نچڑ گئی ۔۔وہ زمین پر ڈھے سی گئی۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ وہ ہولے ہولے اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔ مٹی کا بے جان پتلا،نرملا کا دیوتا۔۔۔۔
اس نے دیوتا کو منانے کی کوشش میں اپنا آپ بھلادیا تھا۔۔۔اور جب دیوتا راضی ہوا تو اسے خیال آیا کہ دیوتا صرف اس وقت تک ہی دیوتا رہتے ہیں جب تک بے نیازی سے چبوترے پر بیٹھے رہیں۔۔۔بجلی ایک بار پھر پوری جان سے کڑکی۔۔
اب دیوتا کی آنکھوں میں وحشت نے ڈیرہ جما لیا تھا۔۔۔نرملا خوف سے کانپ اٹھی۔۔۔
دیوتا اب انسان بن چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انسانوں سے خوف تو آتا ہی ہے!!!!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply