عورت کہانی

آج گھر سے نکلتے ہی سورج کی سنہری مگر جھلسا دینے والی کرنوں نے اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ استقبال کیا…
اور میری یادداشت کے کسی کونے میں محفوظ بانو قدسیہ کا یہ جملہ گونجا کہ
” کچھ دن روئی کے گولوں کی طرح ہوتے ہیں”
شاید انہوں نے یہ جملہ ایسے ہی کسی دن کے لئے کہا ہوگا مکمل دھوپ والے بہت روشن پھولے سے دن.
کسی امید کی ڈوری کو ہاتھ میں تھمائے بغیر گزر جانے والے سچے دن….
واقعی یہ سچ ہے کہ جنہیں طویل خاردار سفر کی عادت ہو جائے انہیں تپتی دوپہر میں جلتے وجود کے ساتھ چلنا بھی سکون بخش سا لگنے لگتا ہے…!
مجھے بھی اب مشکلیں آسان ہی لگنے لگی تھیں زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے یا پھر خود کو مصروف رکھنے کے لئے میں نے قریبی علاقے میں ایک اکیڈمی کھولی تھی.
اکیڈمی کی طرف جاتے ہوئے آج پھر اس عورت سے میرا سامنا ہوا.
چہرے سے ڈھلتی عمر کا احساس نمایاں تھا مگر پھر بھی جانے کیوں وہ اس عمر میں بھی شوخ سرخ لپ اسٹک لگانا نہیں بھولتی تھی.
کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں اسکا شوہر بمشکل دو سے تین بار ہی یہاں نظر آیا پر شوہر کے بیرون ملک سے بھیجے جانے والے پاؤنڈز کی چمک اسکے چہرے سے خوب عیاں ہوتی تھی
جنہیں وہ اپنی شوخ مزاج طبیعت پر خوب ٹھاٹ سے لٹاتی تھی لوگوں کو تو یہ تک کہتے سنا کہ کئی خوبرو نوجوان اکثر ہی اسکی ہمراہی میں نظر آتے رہتے ہیں.
آج بھی سڑک پار کرتے جب اس پر نظر پڑی تو میں واقعی یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ وہ آج بھی ایک نوجوان چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے ارد گرد کی نظروں سے لا پروا چلی جا رہی تھی.
میں نے ناگواری کی ایک نگاہ اس پہ ڈالی اور سوچا کہ سچ ہی کہتے ہوں گے محلے والے واقعی اسکا کردار اچھا نہیں.
ہاں یاد آیا پچھلی دفعہ جب اسے دیکھا تھا تو اسکے ساتھ شاید کوئی اور لڑکا تھا اور اب یہ…!
خدا جانے یہ عورت اپنی ہوس کے لیے کتنوں کی زندگیاں برباد کرے گی…

آج آفس میں کافی کام تھا اسٹوڈنٹس کی ماہانہ رپورٹ چیک کر رہی تھی کہ چپراسی نے آ کر بتایا کہ میڈم کوئی خاتون آپ سے ملنے آئی ہیں
میں: کیوں کیا کام ہے..؟
چپراسی: وہ کہہ رہی ہیں کہ وہ آپ کے گھر کے قریب رہتی ہیں اور اپنے بھتیجے کو یہاں داخل کروانا چاھتی ہیں.
میں: اب تو اکیڈمی بند کرنے کا وقت ہے ریسیپشنسٹ بھی جا چکی ہے تم انہیں کہو کل آجائیں.
وہ مڑنے لگا تو میں نے کچھ سوچتے ہوئے اسے روکا اور کہا اچھا چلو بھیج دو میں دیکھ لیتی ہوں….
اور میں پھر سے فائلوں کو کھنگالتی اپنے کام میں مگن ہو گئی اور احساس ہی نہیں ہوا کہ کب دو وجود سامنے کرسیوں پہ آکر خاموشی سے بیٹھ گئے.
گلا کھنکارتی ایک نسوانی آواز پر ہڑبڑا کر سامنے دیکھا تو حیرت اور پریشانی کی ملی جلی سی کیفیت میں بس اتنا ہی کہ سکی۔۔۔
میں: آپ….
خاتون: جی میں..! کیا آپ مجھے جانتی ہیں..؟
میں: نہیں … وہ … بس ایسے ہی
اور پھر ناگواری سے سوچا یااللہ یہ بدنامِ زمانہ عورت میری اکیڈمی میں کیا لینے آگئی.
خاتون: کیا آپ نے مجھ سے کچھ کہا.؟
میں: نہیں نہیں وہ میں کچھ سوچ رہی تھی آپ…. آپ وہ ہی ہیں نا جو پچھلی گلی میں رہتی ہیں جن کے میاں باہر ہوتے ہیں..؟
خاتون: جی جی آپ نے درست پہچانا، یہ میرا بھتیجا ہے میں اسی کے داخلے کے سلسلے میں آئی ہوں. میرا میکہ لاہور میں ہے نا تو یہ وہیں سے آیا ہے.
بھتیجا…..! میرے لئے چونکنا فطری تھا انجانی سی شرمندگی میں گھر چکی تھی میں نے دھیمے لہجے میں کہا…
میں: اچھا تو یہ آپکا بھتیجا ہے
خاتون: جی جی میرے بھائی کا لڑکا ہے.
میں: اور وہ جو پہلے لڑکا تھا کافی دفعہ آپکے ساتھ دیکھا اسے وہ ؟
خاتون نے اس سوال پہ عجیب سی نظروں سے دیکھا …!
میں نے جھینپتے ہوئے کہا؛ ویسے ہی کافی بار آپکے ساتھ آتے جاتے دیکھا تھا نا اسلئے پوچھ لیا
خاتون: مسکراتے ہوئے جی پہلے میرا بھانجا میرے ساتھ رہتا تھا پھر میرے میاں نے اسے اپنے پاس بلا لیا.
تب ہی بھائی نے اکیلے پن کے خیال سے میرے بھتیجے کو یہاں بھیج دیا
ہماری اپنی کوئی تو اولاد ہے نہیں پر یہ بچے ہمیں اولاد کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی ہم انہیں کسی بھی طور اپنی اولاد سے کم چاہتے ہیں.
میری خواہش ہے کہ یہاں یہ اپنی پڑھائی کو زیادہ بہتر طریقے سے جاری رکھے.

Advertisements
julia rana solicitors london

میں : اچھا تو آپ اسے کل سے بھیج دیں اور بے فکر ہوجائیں میں دیکھ لوں گی.
انشا اللہ آپ کو مایوسی نہیں ہوگی
میں نے لڑکے سے اسکے مضامین وغیرہ کی معلومات لی اور انہیں فارم اور فیس کی تفصیلات سے آگاہ کیا پھر میں اپنی جگہ سے اٹھی تو وہ بھی شکریہ کےساتھ کھڑی ہو گئی.
میں نے دل میں سوچا کہ اتنی باعزت اور مخلص خاتون کے بارے میں لوگوں نے کیسی کیسی گھٹیا باتیں پھیلا رکھی ہیں افسوس اور ندامت میں مبتلا میں انہیں جاتے ہوئے دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک وہ جاتے جاتے واپس میری جانب آئیں اور کہا….
“آپ سے مل کر مجھے احساس ہوا کہ لوگوں نے آپ کے اور آپ کے کردار کے بارے میں جو باتیں مشہور کر رکھی ہیں اس میں ذرا بھی سچائی نہیں آپ تو نہایت ہی خوش مزاج اور محترم خاتون ہیں لوگوں نے بلا وجہ اکیڈمی چلاتی اکیلی لڑکی کے لیے کیسی کیسی گھٹیا باتیں مشہور کر رکھی ہیں.”
میں نے کانپتے ہاتھوں سے ٹیبل کا سہارا لینے کی ناکام سی کوشش کی
میں….؟ !!
میرے بارے میں بھی باتیں…
اوہ میرے خدا….!
مجھے لگا کہ کسی نے میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو اور میں اپنے آپکو سنبھالتے سنبھالتے اپنی ہی کرسی پر دوبارہ گِر گئی…..

Facebook Comments

تبسم غیاث
ایک ٹیچر، شاعرہ اور افسانہ نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply