روزہ کی غا یت اولیٰ

ہر سال کی طرح امسال بھی ایک بار پھر ماہ رمضان کی مبا رک ساعتوں میں ہم زندگی کے بہترین لمحات گزار رہے ہیں ۔ اہل ایمان اس ماہ مقدس کے انتظار میں ہمیشہ بیتاب وبے قرار رہتے ہیں۔ یہ اسی مہینے کا اعجاز ہے کہ گناہ گار انسان نہ صرف پچھلے تمام گناہوں کو سامنے لا کر ان کو خدا کے حضور معاف کرانے کے لئے اس کی چوکھٹ پر گویا دھرنا دے کر بیٹھتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ با بر کت مہینہ ایک آئینہ ہے جو مومن اور مسلمان کے ظاہر وبا طن کی پہچان کراتا ہے کہ وہ اصلاً کیا ہے، کس حال میں ہے اور اس کی اصل کامیابی و ناکامی کن امور اور اعمال میں پنہا ں ہے۔ یہ اسے دیکھنے اور سنبھالنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ اس کو کہا ں کہا ں صفائی اور پاکی حا صل کر نے میں لگ جا نا ہے۔ چناں چہ حقیقتِ صیام کو سمجھنے کے لیے سیدمودودیؒ کی وہ مثال کافی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں، اگر آئینہ پر کچھ دُھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمہیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو، اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ، خوفِ خدا، کچھ نیکی کے اُبھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے، اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق وفجور نمایاں ہوں، اور اسلامی حس مردہ نظر آئے تو،انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو، اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان کے لیے مقدر نہیں ہے‘‘۔

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے فرمایا ۔۔۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ماہ رمضان المبارک انسان میں تبدیلی لانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ گمراہی، بد عملی یا گناہ سرزد ہو نے کے بعد اگرایک ایما ن والے میں صحیح اسلا می ہدایا ت و تعلیمات کی طرف رحجان نہ بڑھے تو اس کا خسارے میں پڑ جانا یقینی ہے۔ ماہ مبارک کا یہی پیغام اور یہی کام ہے کہ ایسے شخص کو پھر سے تائب ہوکر ایمان اور نیک عملی کی طر ف بڑ ھنے کا حو صلہ ملے۔ چناں چہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ”جب عالم انسانیت میں اخلاق و کردار کے چشمہ سافی سوکھنے لگتے ہیں، روحانیت دم توڑنے لگتی ہے،دل کے چمن میں ویرانی چھا جاتی ہے، گلستانِ خیر و خوبی کی رعنائیاں شروفساد کی ظلمتوں میں بدل جاتی ہیں اور انسانیت سسکنے لگتی ہے تو رحمتِ خدا وندی جوش میں آجاتی ہے۔ گردش لیل و نہار ،نیکی وتقویٰ کی بہار کا مژدہ سناتی ہے اور عالم روحانیت میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا سماں برپا ہونے لگتا ہے۔ہمہ گیر ایسا کہ اس کی آمد کا اعلان کسی خطۂ زمین پر نہیں بلکہ پورے عالم پر ہلالِ رمضان المبارک کی نمود سے ہوتا ہے۔ وسعت تغیرات کی یہ شان کہ ابتدا ہی جنت کے تمام دروازوں کے کھلنے اور دوزخ کے سارے دروازے بند کئے جانے سے ہوتی ہے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے”جب رمضان المبارک آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں”،ایک اور روایت میں ہے”اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیئے جاتے ہیں”۔ (متفق علیہ)

وقت ، مقدار، کمیت اور کیفیت کے سارے پیمانے بدل دئیے جاتے ہیں۔ اجر وثواب کی مقدار بڑھا کر معمول سے 70گنا بلکہ لامحدود کر دی جاتی ہے۔ اس ماہ مبارک کی ایک رات ( شب قدر)ہزار راتوں سے زیادہ افضل قرار دی جاتی ہے۔ عرشِ بریں کے حامل فرشتوں کو حکم خدا وندی ملتا ہے کہ اپنی عبادت بند کر دو اور اہل زمین کی دعاؤں میں شامل ہو کر آمین کہو۔ آسمانوں کا یہ سارا انقلاب اس لئے برپا کیا جاتا ہے کہ زمین پر آباد مرکز ِعالم اور مسجود ِملائک انسان کی دنیا کو ایک اندرونی انقلاب سے دوچار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح عالم انسانیت میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے جس کی وسعت بے پناہ اور جس کا نفوذ بے انتہا ہو جاتا ہے۔ غرض رمضان المبارک انسان کی تبدیلی، احتساب اور جائزے کا مہینہ ہے، اور اس مہینے میں انسان اگر صحیح معنوں میں اپنا احتساب کرے تو اس کی کامیابی و کامرانی اس کے نصیب میں درج کی جاتی ہے اور اگر اس ماہ میں بھی انسان نے اپنا جائزہ نہ لیا تو انسان کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے اس کا رہنا ایک طرح کا فساد بن جاتا ہے۔ احتساب کرنے اور جائزہ لینے کے لیے ہمارے پاس دو مضبوط قلعے رکھے گئے ہیں جن میں رہنا اور سہنا ہماری کامیابی اور جن سے باہر نکل کر دوسری نام نہاد ’’ جا ئے پناہ‘ ‘کی تلاش کرنا گمراہی و ضلا لت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اللہ کی اطا عت کرو اور رسو ل کی اطاعت کرو۔‘‘
اسلام کا نظام ِحیات جس میں انسانیت کی فلاح و کامرانی مضمر ہے، وہ صرف اور صرف قرآن اور رسول خداﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نے سے مشروط ہے۔ ماہ ِمبارک میں انسان اگر خود اپناجائزہ لے تو پیمانہ صرف یہی قرآن اور اس کی تشریح محمدﷺکی سنت قرار پائے گی۔ اس سے الگ ہو کر کسی اور جگہ فلاح و کامرانی تلاش کرنا فضول اور لاحاصل عمل ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں قرآن کا نزول کیا۔اللہ تعالیٰ کا ار شاد گرامی ہے’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت (فلاح و کامرانی) ہے اور ایسی واضح تعلیمات جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘(البقرہ)۔

گویا اگر اس ماہ مبارک کو ماہ قرآن کہیں تو صد فیصد درست ہو گا۔ یہ رب العالمین کا بے انتہا کرم و احسان ہے کہ وہ ہر سال ماہ ِرمضان کے بہا نے انسانیت پر اتمامِ نعمت، یعنی نزول قرآن سے شعور و آگاہی کا موقع بہم پہنچاتا ہے۔ ماہ رمضان دراصل علامتی یاد ہا نی ہے نزول قرآن کے انقلا ب واصلا ح کی ندائے خدا وندی کی۔ یہ صرف یادہا نی ہی نہیں بلکہ انقلاب کا پیام بھی ہے اور ساتھ ہی اس مہینے کو ان تمام صفات و خصوصیات سے نوازا گیا جو انقلاب اور صلح کل کے لئے معاون وسازگار ہوتی ہیں۔ اس ماہ مبارک کو اعمال خیر و صلاح کی فصل و بہار والی تاثیر عطا ہوتی ہے۔ اس زاویہ نگاہ سے ماہ رمضان المبارک کو ماہ انقلاب کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیوں کہ انسانی بستوں میں یہی ’’ماہِ انقلاب‘‘ نیک اعمال کا باعث بن جاتا ہے۔ زمین کا چپہ چپہ قانون خدا وندی کے حکم کے سامنے سر نگو ں ہو نے کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر طرف تکبیرات، تسبیحات خدا وندی اور اس کے دربار میں عاجزانہ مناجات وردِ زبا ن ہو جا تے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں منزل مقصود کی نشان دہی بھی ہے اور راہ ِہدایت سے آگاہی بھی، راہ روی کی تربیت بھی ہے اور رہبری کا ساماں بھی، سفر کی سہولتیں بھی اور ہر منزل آ شنا ئی پر انعام بھی۔ اس ماہ مبارک میں رحمتوں کی بارش بھی ہوتی ہے ، مغفرت کی بخشش بھی اور نارِ جہنم سے نجات بھی۔ سابقہ اعمال وافعال کا جائزہ لینے پر جنت الفردوس کی نعمتوں اور رفعتوں کی لذت آشنائی بھی ہوتی ہے۔

راہِ حق کی منزل کے حصول کے لئے اسے صراط مستقیم، یعنی دین اسلام کی مکمل رہنمائی میسر ہوتی ہے۔ تقویٰ اور احساسِ ذمہ داری کا زادِ راہ اس کے ہا تھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ پاک و مطہراجتماعی ماحول کے ذریعے راہ کی مشکلات کو آسان کر دیا جاتا ہے اور اس راہ پر چلنے کے لیے بے حساب اجر وثواب کی امید بھی دلا ئی جاتی ہے۔ یہ سارا کچھ اس ماہ مبارک میں انسان کو اس لئے عطا کیا جاتا ہے تاکہ ایک صاحب ایمان کا مقدر سنور جائے، اسے فلاح وکامیابی نصیب ہوجائے اور وہ ابدی زندگی کی خو ش کن فضا ؤ ں سے ہم کنار ہو جائے۔ اسی ماہ قرآن کا نزول ہوا جس کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ یہ مہینہ انسان کی واحدراہ ہدایت کا مہینہ ہے کیوں کہ قرآن تمام عالم انسانیت کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ قرآن پاک کے نزول کا یہ مہینہ ہمیشہ سے انسان کو پکارتا رہا ہے کہ، ’’ آؤ اس قرآن کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو ‘‘۔ ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف کتاب (قرآن) نازل فرمائی، جس میں (اے انسان) تمہارا ہی ذکر موجود ہے‘‘۔ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کچھ گروہوں کو بلند و سرفراز کرے گا اور کچھ دوسرے گروہوں کو پستی میں جھونک دے گا‘‘۔

غرض یہ ماہ ِمبارک جس میں قرآن کا نزول ہوا، جو انسان کی فلاح وکامرانی کے لیے بھیجا گیا، جس میں بحیثیت انسان ، انسان کا ہی ذکر ہے اور جس پر چل کر لوگ بلند و بالا مقام کے حقدار قرار دیے جاتے ہیں اور جسے ٹھکرا کر انسان تباہی و بربادی کا حقدار قرار پاتا ہے۔ انسان اگر خود کا جائزہ لے تو اسے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم اس کے دل کی آواز ہے ، یہ اسے آئینہ دکھاتا ہے، اسے واضح طور پر بتاتا ہے کہ وہ کیا ہے، کیا تھا اور مو جودہ عالم آ ب وگل اورآ نے والی دنیا میں کیا ہو گا؟ انسانی دنیا کی کا میابی کے لئے مخصوص یہ صاف وشفاف دستور العمل دنیا میں اگر کہیں موجود ہے تو وہ صرف اور صرف قرآن کی شکل میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس نے بھی اس قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا اس کی دنیا اس قدر سنور گئی کہ صدیاں گزرنے کے باوجود ادب واکرام کے ساتھ ساتھ ان کی تقلید کی جا تی ہے۔ نہ صرف ان کی یہ عارضی دنیا سنور گئی بلکہ آخرت کی دائمی خوشخبری بھی ان کی مقدر بن گئی۔ قرآ ن مجید کی معجزہ نما ئی سے یہ ہوا کہ کل تک جو گمراہ تھے وہ تمام عالم انسانیت کے لئے روشن چراغ کی مانند قرار دئیے گئے اور ان چراغوں کی روشنی کے سہارے جس نے اپنی زندگی سنوارنے کی کوشش کی تو اسے ہدایت یافتہ مانا گیا۔ ماہ مبارک کی شان یہ ہے کہ اس میں عالم انسانیت کے لیے درسِ ہدایت کا پیغام مخفی ہے۔ یہ ماہ کسی خاص رنگ و نسل، لسانی گروپ ، جغرا فیہ یا کسی مخصوص زما نے کے لئے نہیں ،بلکہ عام انسان کے لئے ، ہر طبقے کے لئے ، ہر زما نے کے لئے ، ہر مقام کے لئے ایک پر درد آواز ہے، ایک پیام انقلاب ہے، ایک صالح نظام کی طرف دعوت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس پر امن اور عالم انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت انسانیت بکھری پڑی ہے۔ اس میں بہت سارے ابہام پیدا کئے جاچکے ہیں۔ کہیں انسانیت کو خدا بیزاری اور الحاد کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تو کہیں اسے سوشلزم کا ساحرانہ درس دیا جاتاہے، کہیں اس کے سامنے قوم پرستی کا سبز باغ رکھا جاتا ہے تو کہیں لادین جمہوریت کا میٹھا زہر پلا کر اسے مدہوش کیا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی انسانیت روز بہ روز پستی کی طرف ہی اترتی جارہی ہے۔ سب کچھ آزمایا گیا ، فلسفو ں کو ناپا گیا ، تجربات اور حسین دعوؤ ں کے سہا نے سپنے دکھا ئے گئے ، امن ، ترقی ، احترام آدمیت کے ترانے بجا ئے گئے ، خو شحالی اور مساوات کے وعدو ں کی خوب سوداگر یا ں کی گئیں مگر نتیجہ صفر۔ اس ساری فضو ل مشق میں اگر ایک بار بھی نہ آزمایا گیا تو وہ صرف اور صرف اسلام کا نظام حیات ،قرآن اور محمدﷺکی سنت، خلفائے راشدین اور تبع وتابعین اور اولیا ئے کرامؒ کے بے عیب مشن اور ان کی روشن سیر تو ں اور نقوش ِپا کو نہ آزمایا گیا۔ماہِ رمضان کی مبارک ساعتیں ہمیں حاصل ہیں،اور امن تو آشتی کا پیغام دے رہی ہیں ، ہما ری کو شش ہو نی چا ہیے کہ ہم اس مہینے میں اپنی عملی زندگیو ں کو قرآن اور سیرتِ رسولﷺ کے مطابق ڈھالنے کا مصمم ارادہ کر یں۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply