امریکن الیکشن ، پاکستانی عوام اور میڈیا

ابتدئے کائنات سے ہی طاقتور کمزور کو زیرکرنے کیلئے جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرتا آیا ہے ۔ وہ کمزور کے نظریات ، افکار اور خیالات کو اپنے نظریات ، افکار اور خیالات کے تابع کرنا چاہتا ہے ۔ زندہ قومیں کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوں وہ اپنے سے کئی گناہ طاقتورحریف کے تابع اپنے نظریات کرنا تو دور کی بات وہ اپنے ملک پر اُن کا سایہ پڑنے پر بھی اپنے تن من دھن کی بازی لگا دیتی ہیں ۔ جب 1954 میں ویت نام پر اقتدار کی ہوس میں امریکہ جیسی عالمی طاقت نے حملہ کیا تو اس چھوٹا سے ملک نے امریکا کا جو حال کیا اس کو دنیا نے دیکھا ۔ اس کے بعد جب 2001 میں نیٹو اتحادیوں نے امن کی آڑ میں افغانستان پر حملہ کیا تو غیور افغانیوں نے 34 ممالک کی فوج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور آج تک اپنی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں ۔ لیکن اس کرہ ارض پر ہم پاکستانی عوام وہ واحد قوم ہیں جو بظاہر آزاد ہونے کے باوجود بھی غلامی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ شاید ہم کو آزادی کی بجائے غلامی کی زندگی نعمت لگتی ہے ، اور ہم اپنے نظریات ،افکار اور خیالات کو کسی دنیاوْی آقا کے تابع کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔

حال ہی میں امریکا میں صدارتی انتخابات ہوئے ۔ انتخابات سے دو ماہ قبل ہی ہمارے ملک کے تمام نے ملکی مسائل کو ایک طرف رکھا کر نیوز چینلز پر امریکن الیکشن کے حوالے بھرپور اشتہارات کی تشہیر کرکے نفسیاتی غلامی کا بھرپور ثابت دیا ۔ یوں یوں الیکشن کے دن قریب آتے گئے ایک اشتہار ہرپاکستانی نیوز چینل کی جانب سے ٹی وی سکرین کی زینت بنا کہ؛

1- رپورٹرز کی سب سے بڑی ٹیم کے ساتھ امریکن الیکشن کی کوریج اس نیوز نیٹ ورک پر ۔
2 – سب سے ماہر تجزیہ نگاروں کے تجزیہ کے ساتھ امریکن الیکشن کی کوریج اس نیوز نیٹ ورک پر ۔
3- سب سے پہلے ہر خبر ، سب سے پہلے الیکشن رزلٹ دیکھنے کیلئے دیکھتے رہے یہ نیوز نیٹ ورک ۔

افسوس کی بات تو یہ کہ حکمرانوں کو کبھی بھکاری ، کبھی غدار اور کبھی ظالم کا طعنہ دینے والے ان صحافی بھائیوں نے تو امریکن الیکشن کے دنوں میں ایل او سی پر فائرنگ ، پانامہ لیکس ، سیکورٹی لیکس اور ملک میں ہونے والے سینکڑوں واقعات پر بات کرنا بھی گوار نہیں کیا ۔ سب ان پر امریکا کے الیکشن کا بھوت سوار تھا ۔ کیا خود کو وطن پرست ، غریب کے ہمدرد ، مظلوم کا ساتھی کہنے والے صحافی حضرات کی یہ بےحسی نہیں تھی؟ اور نیوز چینل پر براجمان تجزیہ نگار ، اینکر اور خارجی امور پر عبور رکھنے والے صاحبان کی گفتگو سے ایسا لگا رہا تھا کہ ہیلری کلنٹن ایک نیک سیرت ، باپردہ ، مسلمانوں کی مسیحا اور رحم دل خاتون ہے، جس کے قدموں کو فتح اس معرکہ میں ضرور چومے گئی اور مسڑ دونلڈ ٹرمپ ایک ظالم اور بے حیا انسان ہے ۔ امریکا کی عوام کی بہتری کیلئے ہیلری کا کامیاب ہونا ضروری ہے ۔
پاکستانی عوام اور صحافی یہ تاثر د ےرہے تھےکہ اگر ٹرمپ کامیاب ہوگا تو؛
1- مسلمانوں کا امریکا میں زندگی گزارنا ناممکن ہوجائیگا ۔
2- دنیا کی جمہوریت کو خطرہ ہے کیونکہ ٹرمپ جمہوریت میں ملبوس ڈکیٹٹر ہے ۔
3- امریکا سمیت دنیا میں نسل پرستی اور صوبائیت کو ہوا ملے گئی ۔
4- فلسطین اور کشمیر کی آزادی ناممکن ہے ۔
5- ٹرمپ بھارت کا اتحادی ہوگا اور اس کی مداخلت سے خطے کا امن تباہ ہوجائیگا اور سی پیک کو بھی خدشہ ہے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر پاکستانی عوام اپنے ملکی حکمران کے چناوْ اس قدر سنجیدہ ہوتی اور ان کو اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے اس قدر فکر مند ہوتی جتنی ہزاروں میل دور ترقی یافتہ امریکی قوم کے بارے میں ہے تو آج پاکستان کے حالات کچھ اور ہوتے ۔ پاکستانی عوام غربت کی چکی میں پس نہ رہی ہوتی ۔ خود تو الیکشن کے دنوں میں کبھی نعروں سے متاثر ہوکر حکمران کا انتخاب کیا اور کبھی سیاستدانوں کے وقتی وعدوں کے جھانسے میں آگئے ، اس لیے کبھی وہ حکمران چنے جنہوں ملک کو دو لخت کیا کبھی وہ جنہوں عوام کو لوٹ کر سوئس بینکوں میں اکاوئٹ کھول لیے اور آف شور کمپنیاں بنالیں اور ہم کو امریکا کے الیکشن پر بحث کرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔

اور ٹرمپ کو ظالم حکمران کہنے والوں نے ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اپنا موقف تبدیل کرلیا اوراب اس عدل اور رحم دل کے خطاب نوازا ۔ اس کی وجہ ہونے سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اب ٹرمپ نے آئی لو یو پاکستان بولا اور اپنی ویب سائٹ سے مسلمانوں کے خلاف مواد بھی ہٹ دیا ۔ لیکن اصل وجہ یہ تھی آقا کا انتخاب ہوگیا ہے اور ہم اُس کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور دوسری بات یہ کہ ہیلری نے بھی اُسی گندے کنویں کا پانی پیا ہے جس کا ٹرمپ نے پیا ہے ۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کہتاہے تمھارے منہ پر طمانچہ رسید کروں گا اور دوسری بولتی تیرا منہ لال کردوں گئی ۔ دونوں میں کوئی بھی مسلمانوں کا حامی نہیں ہوسکتا ۔ اور رہی کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی بات تو تب تک ان ریاست میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی بربریت کا نشان بنتے رہیں گے جب تک ہم خود ان کیلئے اُٹھ کھڑے نہیں ہوتے ۔ امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر اور فلسطین آزاد ہوں ۔ ہم کو اب اپنے دنیاوی آقا کو خیرباد کہنا ہوگا اور مسلمانوں اور وطن پاکستان کی بہتری کیلئے امریکا سے امیدیں وابستہ کیے بغیر اپنے حق کیلئے لڑانا ہوگا ورنہ عنقریب ہمارا نام ونشان بھی نہیں ہوگا دنیا کی قوموں میں ۔

Facebook Comments

ثقلین مشتاق کونٹا
آپ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد میں کیمیکل انجنیئرنگ کے طالبعلم ہیں۔صحافت سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں ۔ پاکستان کو ایسی ریاست بنانے کے خوہاں ہیں جہاں اللہ کے بعد عوام کی حکمرانی ہو نہ کہ جمہوری آمروں کی آمریت قائم ہو ۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر صحافی برداری عوام میں شعور بیدار کرنا کا بیڑہ اُٹھا لیں تو یہ مشکل کام جلد ممکن ہوسکے گا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply