سوشل میڈیا اور فروٹ بائیکاٹ مہم۔ ایک جائزہ

سین نمبر ون:
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب سوشل میڈیا نہیں تھا۔ ملیشیا کوالالمپور جانے کا اتفاق ہوا۔ جن انکل کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ انہوں نے صبح ناشتے پر ڈبل روٹی نہ ہونے کی معذرت کی۔ وجہ یہ بتائی کہ کچھ دن پہلے اچانک بغیر کسی وجہ کے تمام بیکری والوں نے قیمت بڑھا دی۔ جو ملیشیا کرنسی میں صرف آٹھ آنے تھی۔ پوری کے ایل کی کمیونٹی نے صرف ٹیلیفون کے سہارے بیکریوں کا بائیکاٹ شروع کیا۔ اس کمیونٹی میں ہر کوئی شامل تھا، مسلمان سے لے کر سکھ، چائنیز، ملیے، پاکستانی، انگریز، انڈین، ہندو وغیرہ۔ صرف پانچ دن میں انہوں نے اپنی “کنزومر پاور”کے ذریعے قیمت کو اصل قیمت پر لانے پر کامیاب ہو گئے۔

سین نمبر دو:
2013 کے الیکشن میں پختون خواہ میں پی ٹی آئی جیتی۔ اس زمانے میں، عمران خان کو کامیاب بنانے میں حکومت کا ساتھ بیوروکریسی سے لے کر آرمی، غیر ممالک اور عام بندے تک نے دیا۔ 2013 کی پہلی عید پر پورے ملک میں ٹماٹر تقریباً 150 روپے کلو تک جا پہنچے تھے۔ واحد پشاور تھا جہاں پر مینجمنٹ نے قیمتوں کو کنٹرول میں رکھ کر پچپن روپے سے اوپر بیچنے نہ دیا۔ اس زمانے میں پورے پشاور میں ہر علاقے میں، ہر چیز کا ایک ریٹ ہوتا تھا۔کسی کو مصنوعی مہنگائی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔اس مصنوعی مہنگائی کرنے میں آرتھی سے لے کر غریب ریڑھی والا تک شامل تھا۔

سین نمبر تین:
تقریباً آٹھ ماہ پہلے پشاور میں چکن کی قیمت اچانک ایک سو نوے روپے کلو ہو گئی۔پشاور میں اس وقت کے ایک کمشنر نے فوری ایکشن لیا اور چکن کی قیمت کو ایک سو پندرہ تک لے کرآیا۔ ہماری ایک محفل میں ان سے ملاقات ہوئی تو یہ پوچھا کہ آخر بے چارہ مرغی والا کیسے نقصان میں چکن بیچے گا۔ جواب میں انہوں نے مسکرا کر پوری تفصیل کے ساتھ چکن کی کاسٹ نکال کر بتائی اور کہا کہ اس ایک سو پندرہ روپے میں بھی ریٹیلر کو دس روپے بچ رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اوپر سے لے کر نیچےتک یہ لوٹ مار باقاعدہ ایک کارٹل بنا کر کی جا رہی تھی۔ جس میں غریب ریڑھی والا بھی برابر کا شامل تھا۔
سین نمبر چار:
ہمارے آفس کے پلازہ کے باہر ایک افغانی، ریڑھی پر آلو کے چپس بیچتا ہے۔ اس کی ڈیلی کی انکم پندرہ سو روپے ہے، خرچہ نکال کر۔ ایک بندہ چھوٹی سی دکان میں صرف پکے ہوۓ میوہ ،چنا چاول پیچتا ہے۔ دن میں وہ دس دیگیں بیچ لیتا ہے۔ ہر دیگ سے سے تقریباً دو ہزار بچتے ہیں۔ مرغی مارکیٹ میں ایک ریٹیلر/ہول سیلر سے واقف ہیں جو ایک ہفتے میں پچاس ہزار کلو تک چکن بیچ لیتا ہے، اگر ایک روپے کلو بھی اس کی بچت ہو تو مہینے کے دو لاکھ بغیر کسی خرچے کے۔ ایک گاڑی کا ریڈیٹر ٹھیک کرنے والے کاریگر سے واقف ہوں، جس کا اپنا چھوٹا سا پلازا ہے، جس کی مالیت تقریباً تین کروڑ ہے۔ یہ کچھ مثالیں بتائی ہیں ان غریب لوگوں کی جن کے پیچھے رو رو کر ہلکان ہو رہے ہیں، ہمارے کچھ دوست، جن میں سے زیادہ تر ملک سے باہر رہتے ہیں، سکس فگر سیلری لینے والے، باپ کے پیسے پر عیاشی کرنے والے سٹوڈنٹ۔ یہ سب لوگ ایک بلبلہ میں جی رہے ہیں۔ ان کو ککھ نہیں پتا کہ مارکیٹ میں کیا ہو رہا ہے۔
مائیکل پورٹر، جو کے ہاورڈ بزنس اسکول کے ایک پروفیسر تھے، انہوں نے 1979 میں ایک تھیوری پیش کی۔ اس تھیوری کے مطابق ایک صارف کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ بزنس مین پر پریشر ڈال سکے کہ اسے اچھی کوالٹی کی چیز، اچھی کنزومر سروس کے ساتھ ساتھ کم قیمت پر ملے۔ پورٹر کے مطابق صارف کے پاس خریدنے کی جو طاقت ہے، وہ انڈسٹری کو مجبور کر سکتی ہے کہ انڈسٹری اسے معیاری چیز اچھی قیمت پر دے سکے۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو ایک بالکل فری مارکٹ کا کوئی وجود نہیں، یہ صرف اکنامکس کی کتابوں میں آپ کو ملے گی۔ ہر ملک اپنے اپنے علاقے کے حساب سے قیمتیں کنٹرول کرتا ہے۔ کوئی ملک بھی مناپلی کو برداشت نہیں کرتا کہ عام صارف کو نقصان ہو اور بزنس مین زیادہ کما جاۓ۔ حتئ کہ یورپین کیپٹلسٹ ممالک بھی ایسے لا اور ریگولیشنز اسمبلی سے پاس کرواتے ہیں جن سے عام پبلک کو زیادہ فائدہ ہو۔ ان کی ہر وقت کوشش ہوتی ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں مہنگی نہ ہونے پائیں۔ جب بھی بات عام پبلک کے کھانے پینے کی ہوتی ہے تو جہاں بادشاہت ہوتی ہے ، وہاں بھی بادشاہ اپنی عوام کا خیال رکھتے ہوے، تاجر کو زیادہ کمانے نہیں دیتے۔ اس کی ایک مثال سعودیہ کی ہے، جہاں 1992 میں روٹی کی قیمت ایک ریال تھی اور پچھلے سال تک ایک ریال کی ہی تھی۔
پہلی بات یاد رکھیں، ہماری بیوروکریسی اگر کام کرنا چاہے تو بہت زیادہ اہل اور موثر ہوتی ہے اور اس کو تمام پروڈکت کی لاگت، پرافٹ مارجن اور قیمتوں کا پتہ ہوتا ہے۔ اگر وہ کنٹرول کرنا چاہیے تو بہت کچھ کر سکتی ہے۔
دوسری بات پاکستان میں اکنامکس کے فری مارکیٹ کے اصول کام نہیں کرتے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام تاجر کارٹل بنا کر قیمتوں کو خود کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کے لیے حکومتی کنٹرول بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر چینی، سیمنٹ، چاول، کاریں، چکن، دالیں، سبزی وغیرہ شامل ہیں، جن کے کارٹل بنا کر تاجروں نے ہمیں خوب لوٹا۔
تیسری بات، ہم ایک انسان ہونے کے ناطے ہرگز بھی نہیں چاہتے کہ دکان دار کو نقصان ہو مگر ہم ایک کنزومر ہونے کے ناطے بھی ہرگز ان کو لوٹنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم ان کو اور چارجنگ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں حکومت سے لے کر عام غریب ریڑھی والا تک صرف لوٹ رہا ہے۔
چوتھی بات برانڈڈ چیزیں کچھ امیر لوگ لیتے ہیں، جبکہ کھانے پینے کی چیزیں تمام امیر اور غریب لوگ لیتے ہیں۔ برانڈڈ چیزوں کی قیمت یکساں ہے، کراچی سے پشاور تک۔ مگر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ایک دکان سے ساتھ والی دکان تک۔ ہمیں اس “اوور چارجنگ”کو روکنا ہے۔ پیپسی کی بوتل کی قیمت اگر ستر ہے تو ہم کیوں نوے روپے دیں؟
پانچویں بات کہ قیمتیں ہمیشہ ہر دور میں، ہر ملک میں، کھانے پینے کی چیزوں کی کم رکھی جاتی ہیں۔ نہ کہ برانڈڈ کپڑوں ، جوتوں اور عیاشی کی چیزوں کی۔
کچھ سوالات ہمارے پاکستان میں رہنے والے غریب نواز دوستوں سے۔ کیا آپ ایک غریب آدمی کو اس بات کی اجازت دیں گے؟
کہ وہ آپ کی گاڑی کو ٹکر مار کر چلا جاۓ اور آپ اس کو کچھ نہ کہیں کیونکہ وہ غریب ہے؟
کہ وہ ہیروئن بیچ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالے کیونکہ وہ غریب ہے؟
کہ وہ آپ کے گھر ڈاکا ڈالے کیونکہ وہ غریب ہے؟
کہ وہ آپ سے گاڑی اور موبائل چھین لے کیونکہ وہ غریب ہے؟
کہ وہ ایک دہشتگرد حملہ کر کے سو بندہ مار دے کیونکہ وہ غریب ہے؟
کہ وہ آپ کے مکان کے ایک کمرے پر قبضہ کر لے کیونکہ غربت کی وجہ سے اس کے پاس رہنے کو جگہ نہیں ہے؟
اب ایک سوال ہمارے باہر رہنے والے دوستوں سے، کرسمس پر ڈیمانڈ زیادہ ہو جاتی ہے، مگر قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔ آخر کیوں؟ یورپ اور امریکہ میں جہاں کی مارکیٹ آزادانہ معیشت پر مبنی ہے، وہاں اکنامکس کا بنیادی اصول کیوں نہیں کام کرتا؟
“اور اگر ان کو پھر بھی لگتا ہے کہ یہ ظلم ہے تو ان سے مودبانہ التجا ہے کہ ہر پاکستانی کو ہر مہینے دس دس ڈالر، پاونڈ یا یورو ہی بھیج دیا کریں کہ وہ مہنگا فروٹ یا سبزی لے کرمظلوم اور غریب ریڑھی والے کی مدد کر سکیں۔”
آخری بات اس فروٹ بائیکاٹ مہم کا تعلق صرف اور صرف “اوور چارجنگ” کے ساتھ ہے۔ اگر رمضان سے ایک دن پہلے آلو کی قیمت بیس روپے کلو تھی تو ایک دن بعد آخر کیسے ڈبل سے بھی زیادہ ایک دم پچاس روپے ہو گئی؟ اس زائد قیمت کا بالکل بھی اکنامکس کے اصولوں کے ساتھ تعلق نہیں۔ یہ صرف “لوٹ مار” ہے۔
اس تحریک کا مقصد ہرگز ہرگز بھی کسی غریب تاجر کو نقصان پہنچانا نہیں، بلکہ ہمیں ان تاجروں کو روکنا ہے “اوور بلنگ”سے۔ یہ تحریک ایک آئس برگ کا اوپر کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جو کل کو ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے اور حکومت کو بھی مجبور کر سکتا ہے کہ وہ کم قیمت پر بجلی، گیس اور پیٹرول دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آیئے روکتے ہیں اس “اوور چارجنگ اور لوٹ مار”کو۔ ہمارا ساتھ دیں اس کو روکنے میں۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply