• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کی نظریاتی الجھنیں اور ریاستی دانشور۔۔۔ایوب ملک

پاکستان کی نظریاتی الجھنیں اور ریاستی دانشور۔۔۔ایوب ملک

میرا یہ  آرٹیکل جنگ اخبار میں نہیں چھپ سکا۔ اس میں صفدر محمود کے ان الزامات کا جواب دیا گیا تھا جو انھوں نے میاں افتخارالدیں اور دوسرے ترقی پسند انقلابیوں پر لگائے تھے ۔
———————————–

دنیامیں دانشوروں نے اپنی تحقیق،مدلل علم اور مطالعے سے انسانی صلاحیتوں کو یوں بروئے کار لایاکہ جس کے فروغ سے معاشرہ تہذیب و تمدن کی بقا سے روشناس ہوا۔عقل و خرد نہ صرف شرف انسانیت کی بلکہ تہذیب و تمدن کی بھی محافظ و پاسبان بنی۔ہردور میں دانشور اپنی جبلتوں کی تسکین تو ضرور کرتا ہے لیکن اس کا پیرایہ اظہارہمیشہ لطیف و شائستہ رہتا ہے۔پاکستانی ریاست نے جب سے نظریاتی ہونے کا دعوی کیا ہے اس نے روشن خیال اور عوام دوست دانشوروں کے لیے بہت ساری مشکلات کھڑی کر دی ہیں کیونکہ ایک نظریاتی ریاست میں دوسرے نظریات سے سیکھنے کا عمل ممکن نہیں رہتا اور یوں نئے خیالات و نظریات معاشرے میں ظہور پذیر نہ ہونے کی وجہ سے قدامت پرستی کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے 9جولائی 2019ء کو جنگ اخبار میں اپنے کالم بعنوان”الجھانے والے“ میں روشن خیال اور انقلابی مصنفین پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اپنی خواہشات کو تحقیق کا نام دے کر”مقصدِ پاکستان“ کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔میاں افتخارالدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میاں صاحب بڑے زمیندار بروزن جاگیر دار تھے جنہوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ محروم اور پسے ہوئے طبقات کی فلاح کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھائے۔کیونکہ ذہنی عیاشی اور عملی اقدامات میں ایک خلیج حائل ہوتی ہے جو دین مخالف سوشلسٹ لبرل دانشور عبور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔آگے چل کر انہوں نے بغیر کسی دلیل و تحقیق کے روشن خیال دانشوروں کو اسلام دشمن قرار دیا ہے اور ان پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ آدھا سچ لکھ کر تاریخ سے انتقام لیتے رہتے ہیں۔انہوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ ”ایک دن جب وہ میاں افتخارالدین کی بیگم سے ملنے گئے تو وہ قران پاک کی تلاوت کر رہی تھیں،واہ سبحان اللہ،قدرت کا نظام،کہاں کیمونزم کا پرچار اور کہاں قران پاک کی تلاوت“۔یاد رہے جب بھی کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو سب سے پہلے بولنے اور لکھنے کی شائستگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،اس کا اندازہ اس کالم کی زبان پڑھ کر بخوبی ہوسکتا ہے جس میں ذاتی نوعیت کی شدید تنقید کی گئی ہے۔یہ صورتحال ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جب نام نہاد دانشور اور تجزیہ نگار ایسی گفتگوکرتے ہیں جو سماجی پسماندگی اور گراوٹ کا باعث بنتی ہے۔ان کی تحریروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں روشن خیال دانشوروں سے دلی طور پر نفرت ہے جس کا اظہار وہ جنگ کے صفحات پر گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کی نظریاتی ہیئت کے بارے میں صحت مندانہ دلائل کے ساتھ بات کی جاتی اور فکری الجھنیں پیدا کرنے کی وجوہات کااحاطہ کیا جاتا جس سے تحقیق کی نئی راہیں کھلتیں۔مورخین کا ایک کام یہ ہوتا ہے کہ وہ تحقیق کی بنیاد پر بحث کو اس طرح آگے بڑھائیں کہ عام آدمی بھی اس تاریخی تسلسل کا حصہ بن جائے لیکن پاکستانی ریاستی دانشوروں کا مقصد ان مباحث سے پاکستانی ریاست کو ایک ایسے ڈھانچے میں ڈھالنا تھا جس سے وہ سب اداروں اور تہذیبی اقدار پر اپنی دھاک بٹھانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف لفظوں اور اصلاحات پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں بلکہ ان کو ہمیشہ کے لیے نظریاتی معنی بھی پہنا دیں جس کے ذریعے وہ بہت آسانی سے عوام دوست دانشوروں کو اسلام دشمن اور غدار قرار دے سکتے ہیں۔صاف ظاہر ہے یہ اہداف عقل اور دلیل کی بجائے جذباتی اور اشتعال انگیز طرز تحریر کے سہارے سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
غیر منقسم پنجاب میں جن رہنماؤ ں کا پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم کردار تھا ان میں میاں افتخارالدین کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ان کا تعلق لاہور کے کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔مغلیہ دور میں شالامار باغ کے انتظام کا ذمہ ان کے خاندان کے ذمے تھا۔انہوں نے برطانیہ میں اعلی تعلیم حاصل کی۔وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے سوشلسٹ نظریات کے حامی تھے اسی لیے وہ کانگرس میں شامل ہوئے مگر جب کانگرس نے مسلم لیگ کے پاکستانی آئیڈیے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔انہوں نے مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات کے نکات شامل کرائے۔پنجاب میں پاکستان کا پیغام پہنچانے کے لیے انہوں نے جناح صاحب کی ہدایت پر لاہور سے پاکستان ٹائمز کا اجراء کیا جس نے پاکستان اور قائداعظم کا پیغام سندھ،پنجاب،بلوچستان اور سرحد کے دوردراز علاقوں تک پہنچایا۔انہوں نے فیض احمد فیض کو پاکستان ٹائمز اور چراغ حسن حسرت کو امروز کا نا صرف ایڈیٹر بنایا بلکہ اخبارات میں ایڈیٹر کے ادارے کا باقاعدہ اجراء بھی کیا۔ان اخبارات نے جو اعلی صحافتی معیار قائم کیے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔1958ء میں جب فوجی حکومت قائم ہوئی تو سب سے پہلے پاکستان ٹائمز اور امروز پر قبضہ کیاگیا۔میاں افتخارالدین پاکستان بننے کے بعد آباد کاری کے محکمے کے وزیر بنے۔وہ اس خواب کے ساتھ پاکستان کی تحریک میں شامل ہوئے تھے کہ نئے ملک میں محکوم قوموں اور محروم طبقات کے حقوق کے حصول کے لیے جمہوری نظام قائم ہوگالیکن پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگیوں کی لوٹ مار سے مایوس ہوکر انہوں نے اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے وزارت چھوڑ دی۔میاں افتخارالدین نے میاں محمود علی قصوری کے ساتھ مل کر آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے منشور میں مشرقی پاکستان کو حکومت کا حق،تمام شہریوں سے یکساں سلوک،مزدوروں اور کسانوں کے حقوق و نفرت کا خاتمہ شامل تھا۔میاں افتخارالدین کا انتقال 1960ء میں ہوا۔جب پاکستان امریکہ کا اتحادی اور روس کے خلاف فرنٹ اسٹیٹ بن رہا تھاتب میاں افتخارالدین اور دوسرے ترقی پسند رہنماؤں نے خارجی امور میں تمام ممالک سے برابری کے تعلقا ت قائم کرنے پر زور دیا تھا اورجن ممالک میں چین اور روس وغیرہ بھی شامل تھے،ان کے منشور پر اگر اس وقت عمل ہوجاتا تو آج پاکستان کے حالات نہ صرف محکوم قوموں اور مظلوم طبقات کے لیے مختلف ہوتے بلکہ پاکستان دولخت ہونے سے بھی بچ جاتا۔یہ وہ نظریہ ِ پاکستان تھا جس کا میاں افتخارالدین اور ان کے ساتھیوں نے پرچار کیا لیکن ریاستی دانشوروں نے روایت شکن،ترقی پسند اور قدامت پرستی کے مخالفین کو ہمیشہ کے لیے پاکستانی ریاستی نظریے کے مخالف کھڑا کردیا۔آج بھی پاکستان میں ریاستی دانشور روایت پسندی اور قدامت پرستی کو مختلف توجیحات کے ذریعے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ وہی دانشور آج مقبول عام بھی ہیں، انہوں نے نصاب کے ذریعے قومی شعور اورقومی تفاخر کے احساسات کو ابھار کر عوام کے مائنڈ سیٹ کو کنٹرول کیا ہواہے۔نصاب کی کتابوں کے ذریعے ان نظریات کا فروغ ہوا جس سے طالب علموں اور سماج میں تنگ نظری اور نفرت کے جذبات پروان چڑھے جس کا شاخسانہ آج دہشت گردی کا عروج ہے۔حالانکہ قائداعظم محمد علی جناح ایک لبرل اور ریاست اور عقائد کے درمیان غیر جانبداری کا رویہ رکھتے تھے لیکن ریاستی دانشوروں نے قائداعظم کے خیالا ت کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری کو بھی نظریہ پاکستان کو اجاگر کرنے کے لیے ریاستی مشینری کے طور پر استعمال کیا۔ترقی پسند دانشوورں نے پچھلے ستر سال میں اپنے نظریات کے آدرش میں جو زندگی گزاری ہے اس کے لیے قربانیاں ہی دینی پڑتی ہیں اور آج سے کچھ عرصے بعد جب پاکستان جاگیرداروں،سرمایہ داروں،اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری سے جان چھڑا لے گا تو ان دانشوروں کی کاوشوں کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔روشن خیال اور ترقی پسنددانشوروں کی ساری زندگی خالد علیگ کے ان دو مصرعوں کی مصداق ہے!
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ کالم ایوب صاحب کی فیس بک وال سے کاپی کیا گیا ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply