• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مجذوبِ مزاح اور ابرِ زعفران زار مشتاق احمد یوسفی۔۔۔مرزا یاسین بیگ

مجذوبِ مزاح اور ابرِ زعفران زار مشتاق احمد یوسفی۔۔۔مرزا یاسین بیگ

مشتاق یوسفی سے پہلے اردو مزاح غریب تھا . ان کے آنے سے مزاح کھاتا پیتا اور بینک بیلنس والا نظر آیا . پہلے مزاح صرف مصنوعی مسکراہٹ رکھتا تھا بعدازاں دانت دکھانے اور قہقہے لگانے لگا . یوسفی نے اگر 5 ارب جملے لکھے تو شکر ہے ان میں سے ایک بھی عرب جیسا نہ تھا , سب کے سب خاندانی شگفتہ مزاج تھے . ان کی کتابوں کی وجہ سے اردو مزاح نے دندان شکن جواب دینا سیکھا اور اردو دانوں میں مسواک کی جگہ ٹوتھ پیسٹ کا رواج بڑھا .

یوسفی صاحب چہرے سے بینکر نظر نہیں آتے تھے مگر ادب کو گن گن کر اصلی نوٹ تھمائے . وہ تیراندازی کی بجائے طنزاندازی کے قائل تھے . شگفتگی لفظوں میں یوں پروتے تھے جیسے “ہار” میں پھول اور فول پروئے جاتے ہیں . ان کی کتابیں مزاح میں ڈھل کر آتی تھیں اور جو پڑھ لے وہ قہقہوں میں ڈھل جاتا تھا . ساری عمر نوٹ گننے میں گزاری اور مزاح لکھ کر اس کا کفارہ ادا کیا . لوگوں کو دیکھ کر ہنسی چھوٹتی ہے اور انھیں پڑھ کر . شاید ان کی زندگی میں کوئی  رنج ہو مگر ان کی تحریر میں نظر نہیں آتا . وہ دشمن اور جملوں کو ہنسا ہنساکر زیر کرتے تھے .

خود “چراغ تلے” رہے مگر اردو ادب کو روشن روشن کردیا . ان کی تحریروں میں بجلی بھری رہتی تھی جسے لوگ استعمال کرتے اور مسکراہٹوں سے بل ادا کرتے . وہ “مجذوبِِ مزاح” تھے . ان کی تحریروں میں درویشی تھی . جو کچھ لکھتے لگتا مزاح پاشی کررہے ہیں . ان کے دماغ میں مزاح بھرا ہوا تھا لہٰذا جب بھی غصہ کرتے سب ہنسنے لگتے . وہ اپنی ذات میں ابرِ زعفران زار تھے . ان کا نام والدین نے سنجیدگی سے رکھا تھا مگر بڑے ہوکر انھوں نے یہ نام مزاح کو دان کردیا . وہ مزاح کا جزدان اور قلم دان تھے . مزاح کی روح سے کھیلتے اور ہر بار چوکے چھکے لگاکر اٹھتے .

Advertisements
julia rana solicitors

حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص تعزیت کیسے کرتا ہوگا? جیسے آج ان کی تعزیت کیلئے غمگین , اداس الفاظ مل ہی نہیں پارہے . انھیں مزاح سے روٹھتے کبھی نہ دیکھا گیا مگر آج وہ ہم سب سے روٹھ گئے . کیا خبر آج فرشتوں کیلئے عید کا دن ہو اور جنت میں شامِ مزاح رکھی گئی  ہو . مجھے قوی امید ہے کہ دس سال بعد عالمِ بالا سے یوسفی کی نئی  کتاب چھپ کر ضرور آئےگی . وہ لکھنے میں دیر اس لئے لگاتے تھے تاکہ پڑھنے والا ہنسنے میں دیر نہ لگائے .  خوشی ہے کہ وہ اپنے پیچھے جو ترکہ چھوڑگئے وہ “رہتی مزاح” تک ہمیں ہر پل اور ہر گھڑی ہنسائےگا . شاید آج میں رو بھی رہا ہوں مگر یوسفی کی کتابیں مجھے گدگدارہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کیا ہماری شکل میں تمھیں یوسفی کی نصیحت سمجھ میں نہیں آرہی ہے . مجبوراً میری رونی شکل مسکراتی چلی جارہی ہے .

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply