• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عوامی تحریک کی سرگرم کارکن سنیتا پرمار ۔۔۔انٹرویو ساجن پرمار/ تلخیص و ترجمہ سمانی ابڑو

عوامی تحریک کی سرگرم کارکن سنیتا پرمار ۔۔۔انٹرویو ساجن پرمار/ تلخیص و ترجمہ سمانی ابڑو

سنیتا پرمار ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں. انہوں نے بی-ایس-سی، بی-ایڈ اور ایم-ایڈ کیا ہوا ہے. میٹرک اور انٹر بھی بہت نمایاں نمبروں سے پاس کیا. دوران تعلیم بھی وہ متحرک رہی ہیں. وہ ایک گھریلو خاتون بھی ہیں جو کہ گھر کا کام کاج بھی خود ہی کرنا پسند کرتی ہیں. ان کا خاندان جوائنٹ فیملی نظام رکھتا ہے، اور 32 افراد کا کھانا ایک ہی رسوئی (بورچیخانے) میں تیار ہوتا ہے. سنیتا گھر کے کام کے علاوہ سلائی بھی کرتی ہیں. اور پڑوس کی بچیوں کو سلائی کا ہنر سکھاتی بھی ہیں. اس کے علاوہ شام کو بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں

. سنیتا سیاست میں شروع سے ہی دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ عوامی تحریک (رسول بخش پلیجو) کی سرگرم کارکن رہی ہیں. ان کا سیاسی شعور بھی پلیجو صاحب کی ودیعت ہے. تھر میں چلنے والی ایک تحریک جو کہ گوڑانو ڈیم کے خلاف اور مقامی لوگوں کے حقوق کے حق میں تھی، سنیتا اس کے لئے اسلام کوٹ تھر سے کراچی تک کیے جانے والے لانگ مارچ کا بھی حصہ رہی ہیں. تھر جیسا علاقہ جہاں آج بھی زیادہ تر لوگ عورت کو صرف گھر کی چار ديواری میں بند رکھنے کو ہی گھر کا حسن سمجھتے ہیں، ایسی جگہ پہ سنیتا کے الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا. خاص طور پہ مقامی وڈیروں کی طرف سے تمسخر اڑایا گیا. سنیتا کے رشتہ داروں اور عزیزوں پہ دباو  بھی ہے کہ وہ سنیتا سے الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کروائیں. لیکن سنیتا ببانگ دہل کہہ چکی ہیں کہ یہ کوششیں ترک کر دی جائیں کیوں کہ ان کو اپنے گھروالوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، اور وہ باقی لوگوں کی پرواہ نہیں کریں گی، کیونکہ وہ عورتوں کو ان کے حق دلانے کے لئے مستقل جدوجہد پہ یقین رکھتی ہیں. اور یہ بھی اس کا حصہ ہے.

تھر میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے، سنیتا کا کہنا ہے کہ وہ وہاں لڑکیوں کی کم  از  کم انٹر تک تعلیم کو یقینی بنائیں گی، اور لڑکیوں کی تعلیم تک آسان رسائی کے لئے ہر کوشش کریں گی. وہ کہتی ہیں کہ جہاں ہر شہر میں لڑکوں کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ہاسٹل بنائے جاتے ہیں، اسی طرح لڑکیوں کے لئے بھی بننے چاہئیں. وہ عورتوں کے لئے کمیونٹی سینٹر بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں. سنیتا فیصلہ سازی کے مرحلے میں عورتوں کی شرکت کو یقینی بنانا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے لئے بہتر فیصلے کر سکیں/کروا سکیں. وہ کہتی ہیں کہ الیکشن لڑنا ان کے لئے کسی بھی گھبراہٹ کا سبب نہیں، وہ بہت پر عزم محسوس کرتی ہیں، اور وہ الیکشن میں آخر تک مقابلہ کریں گی. چاہے وہ کم ووٹ لیں، مگر وہ استعارہ بنیں گی  کہ باشعور لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں، اور اس فرسودہ نظام کو بدلنے کی شروعات ہو چکی ہے. الیکشن کیمپین مالی معاونت کے بغیر ہونا ممکن نہیں. اور اس پہ بہت لاگت آتی ہے. سنیتا کی الیکشن کیمپین کے لئے کچھ سلجھے نوجوانوں نے چندا مہم کا اعادہ کیا ہے، عورتیں ابھی سے چندہ جمع کرنا شروع کر چکی ہیں. کچھ سیاسی جماعتیں سنیتا کو ٹکٹ دینے کا عندیہ بھی دے چکی ہیں، لیکن سنیتا ایسا کوئی بھی فیصلہ اپنے حامیوں کی رائے لیے بغیر لینے پہ یقین نہیں رکھتیں، اور وہ ان سے مستقل رابطے میں ہیں. سنیتا کے حلقے کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ پینے کے پانی کے حصول کا ہے، جس کے لیے کوششیں بھی عورت کو  کرنا پڑتی ہیں، اور یہ عورتوں کی ذمہ داری ہی سمجھی جاتی ہے.

اس کے علاوہ عورتوں کو صحت کے بہت مسائل ہیں. جہاں ڈسٹرکٹ ہاسپٹل میں گائناکولوجسٹ دستیاب نہیں، وہاں دیہی علاقوں میں کیا حالات ہوں گے، یہ بات تصور بھی کرنا تکلیف دہ ہے. اس ضمن میں سنیتا عورتوں کی فلاح و بہبود کے لئے خاص کوششیں کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں. سنیتا کا ضلع تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے. جہاں عورت کے ہاتھ میں نمائندگی دینا عیب سمجھا جائے وہاں عورت کی تعلیم کے لئے سنجیدگی بھی ایک سوال ہی ہوگی. ان جملہ مسائل کے حل کے لیے سنیتا بھرپور کردار ادا کرنا چاہتی ہیں. اس کے علاوہ نوجوانوں میں روزگار کے ذرائع کی کمی ہے، سنیتا اس کے لئے بھی سوچتی ہیں، اور اس کا حل ممکن بنائیں گی. تھر میں جہاں الیکشنز میں انجنیئرنگ ہوتی ہے، جہاں بھوتار /وڈیرہ/ پیر کلچر مقامی لوگوں کا نمائندہ بنتا ہے، ایسی جگہ سنیتا جیسی نوجوان، پر عزم، ہندو لڑکی کا الیکشن کے میدان میں اترنا ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسا محسوس ہوتا ہے. دعا ہے کہ وہ اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہوں، اور ایک مثال بن کے سامنے آئیں. (پروفائل/انٹرویو : ساجن پرمار. تلخیص و ترجمہ: سمانی ابڑو)

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply