انسان کا گوشت کیوں حرام؟ تحقیق

کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں آدم خوری یعنی انسان کو کھانا ایک مشہور علاج تھا۔ 17ویں صدی میں یورپی لوگ  سر درد کے علاج کیلئے انسانوں کی ممی کو کھاتے تھے، جبکہ ان کی چربی، ہڈیوں اور خون کو پھوٹی ہوئی نکسیر سے لیکر پائوں کے درد تک ہر چیز کے علاج کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔

آج کل آدم خوری کو اخلاقی طور پر بہت زیادہ بُرا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر اخلاقیات سے پرے بھی دیکھا جائے تو انسانی گوشت کو کھانا اس لئے بھی غلط ہے کہ اس کے بہت سے نقصانات ہیں۔ انسانی گوشت میں دیگر جانوروں کے گوشت کے مقابلے میں بہت کم کیلوریز پائی جاتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق  فی کلو انسانی گوشت میں 1300 کیلوریز پائی جاتی ہیں، جبکہ گائے کے فی کلو گوشت میں 2040 کیلوریز، بھالو اور جنگلی جانور کے گوشت میں 4000 کیلوریز فی کلو موجود ہوتی ہیں۔ تو شاید آپ سوچیں کہ آپ ڈائیٹ پر ہیں اس طرح آپ ایک کم کیلوریز والکا ایک انسانی برگر کھا سکتے ہیں، کیونکہ اس میں کم کیلوریز ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ کسی حادثے کی صورت میں آپ کہیں پھنس جائیں اور کھانے کو انسانی گوشت کے علاوہ کچھ موجود نہ ہوتو یہ کم کیلوریز آپ کو مصیبت میں ڈال سکتی ہیں۔ کیونکہ انسانی خون اور گوشت میں ایڈز، ہیپاٹائٹس اور ایبولا جیسی متعدد خطرناک بیماریاں موجود ہوسکتی ہیں۔

ادھر آُپ  نے کسی کو کچّا چبایا اور ادھر آپ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئے۔  لیکن اگر آپ اس گوشت کو پکا بھی لیں تب بھی یہ کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچاتا۔ مچال کے طور پر پاپوا نیوگینی میں ایک قبیلہ موجود ہے جو اپنے مردہ رشتے داروں کے جسم اور دماغ کو پکا کر کھاتا ہے۔ لیکن پھر 50 اور 60 کی دہائی میں اچانک سینکڑوں لوگوں کی اموات ایک دماغی بیماری کے باعث ہونا شروع ہوگئیں۔ کورو نامی یہ بیماری انفیکشن زدہ انسانی دماغ کو کھانے کے باعث پیدا ہوتی ہے، دماغ میں پریونز نامی پروٹین ہوتے ہیں جو دماغ میں اسفنج جیسے دوراخ پیدا کر دیتے ہیں۔

یہ پروٹینز پکانے کے باوجود نہیں مرتے۔ دنیا کی کئی ریاستوں میں آدم خوری قانونی طور پر جرم ہے، یعنی آپ کسی دوسرے انسان کو نہیں کھا سکتے۔ لیکن اگر آپ خود کو کھائیں تو یہ جرم نہیں مانا جائے گا۔ اس کی مثال کچھ اس طرح ہے ، آج کل ایک نیا ٹرینڈ چلا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کو اس کا اپنا آنول کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ پلیسنٹا ماں کی کوکھ میں بننے والا وہ عضو ہے جو بچے کو آکسیجن اور خوراک مہیا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیلیوری کے بعد پلیسنٹا کو کھانے سے ماں میں طاقت پیدا ہوتی ہے۔ کچھ ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو آپ کے پلیسنٹا کا پائوڈر بنا کر اسے کیپسول کی شکل دیتی ہیں تاکہ انہیں کسی بھی دوسری دوا کی طرح کھایا جاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن طبی ماہرین نے اسے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے، کیونکہ اس عمل سے ماں کے دودھ کے زریعے بچے میں خطرناک انفیکشنز منتقل ہوجاتے ہیں۔  خبیرں ہیں کہ مشہور سیلیبریٹیز کم کرداشین اور ایلیسیا سلوراسٹون نے بھی یہ کریہہ کام کیا ہے۔ شاید اسی لئے اسلام میں ہمیں آدم خوری منع کیا گیا ہے۔ اگر گوشت کھانا ہی ہے تو حلال کھائیں۔ .

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply