ساحر لودھی پبلک سوال کرتی ہے!!!

گزشتہ شب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گزری جسے دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوا اور دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ ویڈیو دیکھ کر جتنے پاکستانیوں کے دل دکھے ہیں انکی آواز بن کر اس ویڈیو کے حوالے سے موقف عوام کے سامنے لایا جائے ، قصہ مختصر بات ہو رہی ہے ہمارے مایا ناز ایکٹر، ڈائریکٹر ، پروڈیوسر ، آرٹسٹ جناب ساحر لودھی صاحب کی، جو ان چند سیلیبریٹیز میں سے ہیں جو اکثر و بیشتر اپنی مضحکہ خیز حرکتوں کے سبب ہیڈ لائنز میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ،اس مرتبہ بھی وہ ایک رمضان ٹرانسمیشن ہوسٹ کر رہے ہیں اور اس ٹرانسمیشن کے دوران انہوں نے ایک تقریری مقابلہ منعقد کیا ،جس میں ایک خاتون کو خواتین کے حقوق اور پاکستان میں انکی حالت زار کے حوالے سے اظہار خیال کا موقع دیا ۔
اس خاتون نے ان تمام معاشرتی مسائل کی جانب عوام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی جن سے ہمارے معاشرے کی خواتین دو چار ہیں ، جن میں غیرت کے نام پر قتل ہو ، گینگ ریپ ہو ، خواتین پر تشدد ہو، کم سنی کی شادیاں ہوں یا پھر کاروکاری جیسی غیر انسانی رسوم ہوں۔آخر میں خاتون نے اپنے ہمارے سب کے قائد محمّد علی جناح کو پکارتے ہوۓ یہ کہا کہ “اے قائد آؤ دیکھو اپنا پیارا پاکستان ” یہ الفاظ ابھی خاتون کے حلق میں ہی تھے کہ جانے موصوف ساحر لودھی پراچانک ریٹنگز کا کیسا سحر طاری ہوا اور انہوں نے اس خاتون کو ٹوکتے ہوۓ ایک فصیح اور بلیغ قسم کی تقریر کر ڈالی ، جس میں وہ مسلسل چیختے چلاتےاور چنگھاڑتے رہے اور بار بار اس خاتون کو یہ کہتے رہے کہ آپ نے قائد کو کیسے “للکارا “ہے ۔
جناب موصوف کو للکار اور پکار میں شاید بنیادی فرق معلوم نہ ہو ، جب کہ وہ ویڈیو دیکھنے والا کوئی بھی ناظر اس بات سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس خاتون کی تقریر کا لب لباب فقط یہ تھا کے وہ اپنے قائد کو مخاطب کر کے یہ دہائی دے رہی تھی کے میرے گلشن کے معمار آؤ دیکھو تو سہی کہ جس پاکستان کا خواب آپ نے دیکھا تھا آج اس پاکستان کی حالت کیا ہوئی ؟مگر شاید موصوف یہ طے کر کے آئےتھے کہ درست یا غلط وہ آج ریٹنگ کے ریکارڈ توڑ کر ہی گھر جائیں گے، مگر انہیں یہ احساس نہ ہوا کہ وہ ساری قوم کے سامنے اپنی قوم کی بیٹی کو رسوا کر رہے ہیں ، کتنے شوق ، لگن تیاری اور محنت سے وہ لڑکی گھر سے آئی ہوگی اپنے دوستوں ،رشتہ داروں اور والدین کو بتا کر آئی ہوگی کہ آج مجھے ٹی وی سکرین پر ضرور دیکھئے گا اور اس وقت اسکے والدین پر کیا گزری ہوگی جب ان کی بیٹی کی خود اعتمادی کی عمارت پل بھر میں زمین بوس ہو گئی ہوگی۔
سچ تو یہ ہے کہ اس لڑکی نے جتنی باتیں اپنی تقریر میں کیں … ساحر لودھی صاحب!!!! آپ کے ناپسندیدہ اقدام نے ان تمام باتوں پر ایک لمحے میں مہر تصدیق ثبت کردی ۔ مگر افسوس تو یہ بھی ہے اس بھرےمجمع میں کسی فرد ،کسی جج میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ اٹھ کھڑا ہو اور ساحر لودھی کو ٹوک کر یہ کہے کہ جناب آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ آپ سر عام کسی کی توہین کریں ۔میں سوچتا ہوں کہ ایک وہ زمانہ تھا جب معین اختر ، جمشید انصاری ، نعیم بخاری ، طارق عزیز جیسے زرخیز اذہان ہماری ٹی وی سکرین کی زینت تھے اور ایک یہ قحط آن پڑا ہے کہ ادب اور اسکے اسلوب سے نابلد افراد یہاں براجمان ہیں جن کا مقصد ادب کی ترویج اور تربیت کے بجاۓ فقط ریٹنگز کمانا ہے۔سوال تو میڈیا انڈسٹری سے بھی بنتا ہے کہ کسی کو دانشوراور اینکر بنانے کا پیمانہ کیا ہے ؟ کیا ٹی وی پر آنے کے لئے فقط چرب زبان ہونا کافی ہے !!!! یا اسکے لئے بنیادی تربیت اور متعلقہ شعبے میں مہارت بھی ضروری ہے ؟
ساحر لودھی پنلک سوال کرتی ہے … کیا آپ قوم کی بیٹی سے معافی مانگیں گے!!!! چونکہ اب تک کے سوشل میڈیا کے رد عمل سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو ہی چکا ہوگا کہ آپ نے جو کیا درست کیا یا غلط مگر اس بات کی مبارکباد تو ضرور بنتی ہے کہ آپ ریٹنگ کمانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ تحریر لکھنے کا مقصد کسیپر بے جا نقد کرنا نہیں ،مگر انکو یہ باور کروانا ہے کہ بہن بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں انکو عزت دینا اور انکی عزت کرنا سیکھیں خدا آپ کو عزت دے گا ….

Facebook Comments

رفعت سبزواری
انجینیرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہونے کے باوجود علم و ادب سے شغف ہے ، سلگتے سماجی مسائل پر لکھتا ہوں ،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply