• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میری ذات شکست ِ ذات اک آواز تو ہے۔۔۔۔۔روبینہ فیصل

میری ذات شکست ِ ذات اک آواز تو ہے۔۔۔۔۔روبینہ فیصل

محبت جتانے کے ہزار طریقے ہیں مگر کیا کیجیے ،کئی دفعہ ہم محبت صرف تب جتاتے ہیں جب نفرتوں کی پچکاریاں چاروں طرف چل رہی ہوں ۔ حضورِ پاکﷺ سے محبت کا بھی یہی پیمانہ مقرر کر دیا گیا ہے اور اللہ کی کتاب سے عقیدت کا اندازہ بھی ایسی ہی نفرتوں سے لگایا جاتا ہے کہ کس کافر یا مرتد نے قرآن پاک کے ساتھ کیا کِیاا اور کس موذی نے پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ ان گستاخوں کوجب تک کیفر ِ کردار تک نہیں پہنچا دیا جاتا، محبتیں مشکوک اور نامکمل تصور کی جاتی ہیں۔ لیکن کیا کبھی کسی نے کسی غیر مسلم کی نبی پاک ﷺ سے محبت کو سراہا؟ اور اسے انعام و کرام سے نوازا جیسے ہم گستاخی کرنے والوں کو پتھروں اینٹوں سے یا آگ لگا کر مار چھوڑنے پر یقین رکھتے ہیں؟ سزا تو منٹوں میں گھر کی دہلیز پر پہنچا دی جاتی ہے تو کیا محبت کرنے والوں کی کبھی کسی نے جزا دی؟

یہ سوال میرے ذہن میں اس وقت اٹھا جب بہت سال پہلے میں نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی نعتیں پڑھیں۔۔ ایسی عقیدت میں ڈوبی ہو ئی نعتیں تھیں کہ مزہ آگیا۔ان کی دو شاعری کی کتابیں ” لہو بولتا ہے” اور” آنے والی سحر بند کھڑکی ہے”۔۔ میری چھوٹی سی ذاتی لائبریری کا حصہ ہیں۔ ان دونوں کتابوں کا آغاز ایک ہی نعت سے ہے جو انہوں نے 14دسمبر 1992 کو سعودی عرب ائیر پورٹ پر اترتے ہی پانچ منٹ میں لکھی تھی۔میں جب بھی ان کتابوں کی ورق گردانی کرتی ہوں تو اکثر ایسے ہو تا ہے کہ کافی کافی دیر اسی نعت کو پڑھتی رہتی ہوں اوراس محبت پر فخر محسوس کرتی ہوں جو ایک غیر مسلم کو ہمارے پیارے محمدﷺ سے ہے۔ آپ بھی سنیے:
حضورﷺمیرے
فقیر اک پائے لنگ لے کر
ہزار کوسوں سے آپ کے در پہ آگیا ہے
نبیﷺبرحق
یہ حاضری گرچہ نامکمل ہے
پھر بھی اس کو قبول کیجیے
حضورﷺآقا محترم
یہ فقیر اتنا تو جانتا ہے کہ قبلہ دید
صرف اک فاصلے سے اس کوروا ہے
اس کے نصیب میں مصطفےﷺ کے در کی تجلیاں
دور سے لکھی ہیں
نبی اکرم ﷺ
وہ سایہ رحمت پیمبرﷺ
جو صف بہ صف سب نمازیوں کے سروں پہ
اس کا ایک پر تو
ذرا سی بخشش
ذرا سا فیضان عفو و رحمت
اسے بھی مل جائے،جوشہ مرسلینﷺ
دست دعا اٹھائے کھڑا ہے ایک فاصلے پہ لیکن
نمازیوں کی صفوں میں شامل نہیں ہے آقا!

ستیہ پال آنند جی کی یہ نعت مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔۔ بہت سالوں تک تو میں ان کی ان کتابوں کو کھولتی اور اس نعت سے آگے نہ بڑھ پا تی۔۔ اس لائن کو سوچیے۔۔
” اس کے نصیب میں مصطفےﷺ کے در کی تجلیاں دور سے لکھی ہیں۔۔ ”

ہمیں خود پر فخر کیوں محسوس نہیں ہو تا جب آنند جی جیسا امریکہ کی یو نیورسٹی میں سالہا سال سے انگریزی ادب پڑھانے والا، شاعری میں عام سطحی محبت کو پس ِ پشت ڈال کر فلسفہ، سماجی،نظریاتی اور سیاسی معاملات، تاریخ اور مذہبی کرداروں کو کہانیوں میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کرنے والا ہندو غیر روایتی شاعر اور مفکر ہمارے پیارے پیغمبر کا عاشق نظر آتا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟

جو پاکستان کے صوبے پنجاب اور ضلع اٹک میں 1930میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی نبی سے محبت ﷺ کسی مولوی کے درس کے خوف یا کسی اسلامی گھرانے میں پیدا ہو نے کی مجبوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ خالص محبت ہی محبت ہے۔

وہ،کوئی تین سال پہلے میرے ٹاک شو،دستک میں آئے تو میں نے اس محبت کی وجہ پو چھی تو اپنے مخصوص دھیمے انداز میں مسکراتے ہو ئے بولے:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدﷺ پہ اجارہ تو نہیں
(کنور سنگھ بیدی)

میں انہیں بتانا چاہتی تھی کہ اس وجہ سے انہیں پاکستانی مسلمان، انڈین ایجنسی را کا ایجنٹ سمجھتے ہیں لیکن ان کی مسکان میں چھپی طنز کی جھلک سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ میرے سوال میں چھپے خدشے کو بہت دفعہ پہلے بھی سہار چکے ہیں۔ تب تک ان کی چار جنموں کی کتھا (ان کی آپ بیتی) پبلش نہیں ہو ئی تھی، بعد میں سنا میرا نام بھی اس میں شامل تھا۔۔ابھی تک خود پڑھنے سے محروم ہوں۔۔خیر۔۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند انگریزی،پنجابی،ہندی اور اردو میں لکھتے ہیں۔ ہندو ہونے کے باوجود اردو زبان کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں حالانکہ پاکستان بننے کے بعد اردو کو مسلمانوں کی جھولی میں ڈال کر ہندوستان سے پاکستان روانہ کر دیا گیا تھا مگر ڈاکٹر صاحب پاکستان سے اردو کو ہندوستان کیا امریکہ بھی ساتھ ہی اٹھا ئے اٹھائے پھرتے رہے۔۔ پھر بھی ہم نے ڈاکٹر صاحب کو،را کا جاسوس ہو نے کے علاوہ اور کوئی اعزاز نہیں بخشا۔ جس انسان نے قرآن پاک کی آیتوں کے اوپر بھی نظمیں لکھی ہوں۔ جس نے ہماری ثقافت اور مذہب دونوں کو ہم سے زیادہ پیار سے اپنایا ہو، ہم نے اسے نہ اپنایا۔ ڈاکٹر صاحب بھی جب یہ سوچتے ہوں گے تو انہیں تکلیف ہو تی ہو گی۔۔۔ شاید اسی لیے لکھتے ہیں:
مجھ سے پہلے جو لوگ آئے تھے
اچھے شاعر تھے، خوب کہتے تھے
ان سے بہتر نہیں، مگر میں بھی
ایک شاعر ہوں، خوب کہتا ہوں
درجنوں بار میرے مجموعے
شائع ہو کر نہیں بکے،مجھ کو
درس و تدریس کے نصابوں سے
دور رکھا گیاہزاروں کوس
اعلیٰ  معیار کے جرائد میں
مجھ پر بحثیں نہ ہوئیں، مجھ کو
ناقدوں نے نہیں کہا، میں بھی
اس صدی کا عظیم شاعر ہوں
میں تو سرکار کا مخالف تھا
کون دیتا مجھے کوئی ایوارڈ
حاکم وقت کے حریفوں کو
کس نے بخشے ہیں چیک، سند، اعزاز؟

ڈاکٹر صاحب کا 1960میں ایک ہندی ناول چھپا تھا جسے ہندوستانی حکومت نے قابل ِ اعتراض سمجھ کر ضبط کر لیا تھا اور کافی دیر انہیں ہراساں کرتی رہی تھی۔ شاید وہ انہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھتے ہوں۔۔ خیر یہ ایجنٹی کے لیبل عام سادہ لوگوں پر بھی لگتے ہی رہتے ہیں آج کے دن تک، ہم بھی کہاں اس سے محفوظ ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی ادبی خدمات کا اعتراف تو شاید ہم کرنے کی ہمت نہیں رکھتے مگر ایک دن ظفر اقبال کا ایک کالم نظر سے گزرا جو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی کسی پنجابی کتاب کی اشاعت پر لکھا تھا۔ سوچا شاید کتاب کی تعریف ہو گی مگر عجیب طنز سے بھرا ہوا کالم تھا، جس کے لکھنے کی مجھے وجہ ہی سمجھ نہ آسکی حالانکہ وہ کالم میں ڈاکٹر صاحب سے کہہ رہے تھے: “اس کتاب کو لکھنے کی بجائے کچھ اور کام کر لیتے۔۔۔۔ ”

محترم ظفر اقبال اردو کے بڑے شاعر ہوں گے، مگر یہ بات مجھے چھوٹی لگی، کیونکہ اگر ادبی تنقید ایسے ہی ہو نے لگ جائے تو ظفر صاحب کی بہت سی جنسی شاعری پڑھ کر مجھ جیسی بے ادب بہت آرام سے منہ پھاڑ کر یہ کہہ سکتی ہے کہ ایسے شہوتی جذبات کے اظہار کے لئے شاعری جیسا میڈیم اپنانے کی بجائے” پورنوگرافی” کا انتخاب کیا جائے۔۔۔۔ مگر میں ایسا نہیں کہہ سکتی کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں،پنجابی میں لکھیں یا اردو میں، الٹا لکھیں یا سیدھا، ایک نام بنا چکے ہیں۔ میں تو ہاتھی کے منہ میں زیرہ برابر بھی نہیں ہوں۔

اسلامی سکالر یا مولوی صاحبان ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی نعتوں کو فخر سے پیش کرنے کی بجائے انہیں نظر انداز کر دیں یا ملامت شروع کر دیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ مذہبی تنگ نظریوں سے کون واقف نہیں مگر ادبی لوگ یوں کسی قد آور شاعر کی تضحیک کر یں تو امن کا پیغام پھیلانے کی توقع کس سے کی جائے گی؟ عام لوگ تو ویسے ہی مذہب کے نام پر نفرتوں کے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے کمر کس کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ نہ کرو تو وہ ہو جائے گا وہ کرو گے تو یہ ہو جائے گا۔میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو اتنی خوبصورت نعتیں لکھنے کی وجہ سے ایک خاص مقام پر رکھتی ہوں۔ یہ میرا اپنے حضور پاکﷺ سے محبت کے اظہار کا طریقہ ہے کہ جو، انﷺ سے محبت کرے میں اس کا احترام کروں۔

ڈاکٹر صاحب کی ایک اور نظم “سنو اینجل “جو انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں لکھی تھی،مجھے ان کی عزت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا اردو شاعری میں ایک منفرد مقام ہے۔ چار جنموں کی کتھا ڈاکٹر صاحب نے لکھی ایک کتھا ان پر وقت لکھے گا۔۔۔اور تب شاید ان کا حق ادا ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(یہ کالم 2018 میں مکالمہ ویب پر ہی شائع ہوچکا ہے)

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply