شجاعت بخاری اور گوری لنکیش ۔۔۔سلیم خان

شجاعت بخاری کا قتل تاریخ کے ایک ایسے چوراہے پر ہوا جہاں دہلی سے جانے والی  جنگ بندی کی سڑک قریب الختم تھی۔ اقوام متحدہ سے آنے والی  حقوق انسانی کی پگڈنڈی ابھی آکر ملی ہی تھی۔ ایک شاہراہ سےٹرپ امن عالم کے قیام کی خاطر سنگاپور جارہے تھے اور دوسرے سے گوری لنکیش کے قاتلوں کو گرفتار کرکے لایا جارہاتھا۔ شجاعت بخاری اور گوری لنکیش کے درمیان بہت کچھ مشترک اور بہت کچھ مختلف تھا۔ دونوں بے باک صحافی تھے حالانکہ ایک شمالی اور دوسرا جنوبی ہند میں رہائش پذیر تھا۔ دونوں امن کے علمبردار تھے حالانکہ ایک اردو اورانگریزی  تو دوسرا کنڑ اور انگریزی میں اپنے قلم کی جولانیاں بکھیرتا تھا۔ دونوں  کو جان سے مارنے کی دھمکی ملتی تھی لیکن  کو سرکار اور دوسرے کو شدت پسند تنظیموں  سے خطرہ تھا۔ دونوں کےمشترکہ دشمن ہندو احیاء پسند تھے  حالانکہ انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔ دونوں پر گولیاں چلائی گئیں لیکن ایک موت پر کچھ لوگوں نے خوشی کااظہار بھی کیا مگر دوسرے کے قتل کی سبھی نے مذمت کی۔ دونوں  نامعلوم حملہ آوروں کی گولی کانشانہ بنے لیکن  ایک کے قاتل گرفتار ہوچکے ہیں اور دوسرے کے قاتلوں کی ہنوز شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

شجاعت و صداقت کے پیکر شجاعت بخاری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ  وادی کشمیرمیں ؁۱۹۹۰ سے اب تک ۲۶ صحافیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ کون جانتا تھا کہ ۲۷ ویں وہ خود ہوں گے؟ لیکن شاید شجاعت کو اس کی سن گن لگ گئی تھی۔ معروف کشمیری صحافی  افتخار گیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شجاعت بخاری پر ماضی میں متعدد بار قاتلانہ حملے ہو چُکے تھے تاہم وہ گزشتہ چند ماہ سے بہت زیادہ دباؤ میں تھے اور انہیں عدم تحفظ کا احساس شدت سے ہو رہا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ بخاری کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ کشمیر جیسے شورش زدہ علاقے میں پیش آنے والے ایسے واقعات کے بارے میں کبھی بھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ’کشمیر جیسے بحران زدہ علاقے میں فیلڈ میں جا کر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘۔ گیلانی نے بھی اعتراف کیا کہ پچھلے بیس سالوں میں یہ ساتواں یا آٹھواں صحافی ہے جسے جان سے مار دیا گیا لیکن اس طرح کی قتل و غارتگری سے نہ شجاعت  خوفزدہ ہوئے اور نہ افتخار ہوں گے اس لیے بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؎

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی 

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

معروف سماجی  کارکن پروفیسر اپوروانند نے شجاعت بخاری کو اپنے خراج عقیدت  کا آغاز اس یاددہانی سے کیا کہ  جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کشمیر میں ہندوستانی ریاست کی زیادتیوں کو اجاگرکرنے والی  رپورٹ شائع ہوئی ’’شجاعت بخاری مارڈالے گئے‘‘، یہ خبر گولی کی طرح کانوں میں پہنچی۔ اپوروانند نے شجاعت بکاری کو ہندوستان کے ایک ایساثالث کے طور پر یاد کیا کہ  جو سرکاری تشددپرکسی طرح کاسمجھوتہ کئے بغیرتنقیدکرتے ہوئے بھی اس کے ساتھ سب سے اچھے اندازمیں بات چیت کی وکالت کرتاتھا۔ شجاعت کا گفت وشنید پر اصرار علٰحیدگی پسندوں کو ناراض کرتا تھا اور حکومت پر تنقید دہلی کے لیے سمِ قاتل بن جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو دوبار اغواء کیا گیا۔  ایک باراخوان نامی تنظیم  نے ان کا اغوا کیاتھا جوسرکاری دہشت گردی کاگروہ ہے۔ دوسری باران کااغوادعسکریت پسندوں نے کیا لیکن وہ دونوں بار بچ گئے۔

دی وائر  میں منوج جوشی نے شجاعت کا موازنہ میرواعظ فاروق، عبدالغنی لون اورپھرفضل حق قریشی سے کیا  جوہندوستانی ریاست کے طرفدارنہ تھے لیکن امن چاہتے تھے مگر سب کے سب ہلاک کردیئے گئے۔ نوج جوشی کے مطابق، اس کے پیچھے حکومت کاہاتھ ہے جیساکہ پہلے ڈاکٹرعبدالحمدگرواورڈاکٹرفاروق آشائی کے قتل میں شبہ کیاگیاتھاجن کے قاتل گمنام کے گمنام ہی رہے؟۔ جوشی کے قیاس کو اس لیے خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ شجاعت بخاری نے تقریباً ایک ماہ قبل حالیہ جنگ بندی پر لکھا تھا ’حکومت پربھروسہ نہیں کیاجاسکتاکیونکہ آج تک اس نے امن کوصرف وقت کواورلمباکھینچنے یعنی ٹال مٹول کے لیےاستعمال کیاہے۔ کشمیری عوام اس کی ترجیح نہیں ہیں، کشمیرپراپنااختیارہے پھربھی چونکہ فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے تشددکاایک ایساسلسلہ شروع ہوگیاہے جس میں معمولی لوگ اپنی جان گنوارہے ہیں۔ اس کے باوجود  موقع غنیمت جان کر اسےنہیں گنوانا چاہیے۔

کشمیر ٹائمز کی انورادھا بھاسن جاموال ۲۸ سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ انہوں نے شجاعت  کی تعزیتی تحریر کا کاتمہ ان الفاظ سے کیا کہ ’’یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ یہاں لوگ ایک لمحہ جیتے ہیں اور دوسرے میں مرجاتے ہیں۔ وہ اپنی قبر میں داخل ہونے سے قبل لاکھوں مرتبہ مرتے ہیں۔ جنت نشان کشمیر کی ایسی منظر کشی کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

By AnuradhaBhasinJamwal

ShujaatBukhari was killed by three unidentified gunmen who came in broad day-light in a crowded area where incidents of arson since the 2000s have been virtually unknown. He was sitting in his car after leaving his office in the crowded Press Enclave in Residency Road area just before iftaar when they came, pumped a volley of bullets in his body and also shot at his two guards, who also tragically died in the incident.

How did the killers manage to shoot him in a crowded area and escape with great ease? Normally any gun shots in a conflict region like Kashmir would catch the attention of the huge security paraphernalia that is usually conspicuously present in the area and invite their prompt action. On any other day, multiple gun shots would have been followed by an immediate cordon and encounter. Patrols and deployment in the area are routine. But the assailants went unnoticed. Some reports reveal that there was delay in shifting Shujaat and his two guards, after they were shot at, to the hospital. All these aspects of the case deserve to be thoroughly investigated. Kashmir has a history of cases of violence and murders that remain mired in mystery and open to multiple theories but no concrete evidence and no way to unearth the truth.

After the initial shock, the natural question that comes to the mind is who killed him and why. To answer the first, it is important to answer the latter. It is difficult at this juncture to precisely pinpoint the exact motive of his assassins. There are two plausible reasons for killing him. One is to silence him for the kind of work he was doing. The other is to deflect attention or create an impact enough to sabotage any move for peace initiative even before it began.

This is a conflict zone. People live one moment and die another. They die a million deaths before they enter their graves.

News Updated at : Saturday, June 16, 2018MajidHydri

While the Press Enclave remains a highly fortified area, including cops in civvies from the intelligence wing, why were such faces mysteriously absent when a volley of bullets pierced through Shujaat’s body? As per the locals, it took the police some 20 minutes, a precious time to save lives in such cases, to reach the spot even though the police station is within a stone’s throw. Why?

Also, why was Shujaat not provided adequate security when those close to the government are enjoying Z-category cover? If human life is precious, chief minister Mehbooba Mufti and director general of police SP Vaid owe Kashmiris answers to many such questions.

As preparations for Shujaat’s funeral were underway, Rising Kashmir team brought out the next day’s edition amid great personal grief and pain. The newspaper hit the the stands as usual with its front page dedicated to Shujaat — their editor-in-chief.

Although Shujaat’s elder brother Syed BasharatBukhari is a senior minister in the PDP-led government in Jammu and Kashmir, the personal relationship never came in the way of journalistic duties.

Once when Basharat’s cavalcade was stoned by protesters, Rising Kashmir was first to report it. In fact, the PDP-led government often choked government advertisements for Shujaat’s ventures, though such revenue is seen as a lifeline for the local dailies. But then, Shujaat had been braving all ups and downs, including previous attempts on his life and abduction too.

It’s an open secret that in the past four years, the PDP-led government blessed some local journalists loyal to them including undergraduates, with high profile Z-category security cover. Yes, your read it right, Z-category security for undergraduate journalists. But this veteran journalist was left to be preyed on.

The big question is — who killed Shujaat and why? It becomes more perplexing when key militant outfits like the Lashkar and Hizb are condemning the killing. While many mourners at the funeral believed that he had been a victim of “agency war”, no one is willing to name, which agency.

“You left all too sudden, but you will always be our leading light with your professional conviction and exemplary courage. We won’t be cowed down by the cowards who snatched you from us. We will uphold your principle of telling the truth howsoever unpleasant it may be

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply