کیا ہند میں فاشزم فروغ پا رہا ہے؟ : رشید انصاری

آر ایس ایس کے مودی راج کو لوگ اب ’’جنگل راج‘‘ کہنے لگے ہیں۔ آج ملک کی حالت جنگل راج سے بھی بدتر ہے۔ جنگلی خونخوار جانور بھی کچھ اصول کچھ روایات کے پابند ہوتے ہیں۔ مودی راج میں اصول اور روایات کو کوئی اہمیت کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ آج ملک بھر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ملک میں فاشزم کے فروغ کو ظاہر کرتے ہیں۔ فاشزم کو قبول کرنے والے یا اپنانے والے ممالک یا حکمران خود کو ’’فاشسٹ‘‘ کبھی نہیں کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی مطلق العنان آمریا ڈکٹیٹر نہیں کہتا خواہ وہ ہٹلر ہو یا اسٹالن یا مسولینی ہو، خود ہمارے ملک میں ماضی قریب میں اندرا گاندھی نہ صرف اہم جنسی کے نفاذ کے دوران یا اس سے پہلے عملاً آمر بن کر آمریت کا مظاہرہ کرتی رہیں لیکن کبھی خود کو آمر نہیں کہا بالآخر جمہوریت کے راستے پہلے وہ اقتدار سے محروم ہوئیں اور جمہوریت کے ذریعہ ہی وہ دوبارہ سند اقتدار پر براجمان ہوسکی تھیں۔ بی جے پی جمہوریت سے بظاہر تو ضروری دلچسپی رکھتی ہے لیکن دراصل سنگھ پریوار کو جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے بارے میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ آر ایس ایس صدرنشین یا سپریمو کا کبھی انتخاب ہو۔ یوں تو آج کل زمانے سے ہم نے کسی بھی سیاسی جماعت کے تنظیمی یا اندرونی انتخابات ہوتے نہیں دیکھے بلکہ اب تو موروثیت کا چلن ہر طرف ہے۔

یہ کالم نویس ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی لکھنے والے مودی کے آر ایس ایس کے راج کے قیام کے بعد ملک کے ہندو راشٹربن جانے کے خطرے سے زیادہ ملک میں فاشزم کے فروغ پانے کے خطرات کی وجہ سے فکر مند تھے بلکہ اب اور زیادہ ہیں۔ ملک سے سوشلزم تو خبر عرصے سے رخصت ہوچکا تھا سیکولرازم پر عمل ہونہ ہو ملک جمہوریت اور سیکولرازم کی وجہ سے ایک خاص شہرت کا مالک ہے۔ اندراگاندھی اور نرسمہا راؤ کے ادوار میں سیکولرازم کو اتنا کمزور کردیا گیا کہ ہندتوادی اقتدار پر قابض ہوگئے۔ منموہن سنگھ (دراصل سونیا گاندھی) کے راج میں سیکولرازم کا نام ہی نام رہ گیا اور اب مودی راج میں سیکولرازم نام کے لئے بھی نہیں رہا ۔ مودی سے پہلے تک ہر وزیر اعظم نے سیکولرازم کا احترام کرکے داد و تحسین حاصل کی۔ ان میں بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی بھی شامل ہیں۔ اٹل جی سیکولرازم کے قائل ہوں نہ ہوں وہ ملک کے سیکولر اور جمہوریت کا احترام کرتے تھے۔ واجپائی فسطائیت کے قائل نہ تھے۔ لیکن مودی سیکولرازم کے قریب سے بھی گذرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ ان کو آر ایس ایس نے فسطائیت کو اپنانے کی تربیت دی تھی سووہ تربیت کا بھر پور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ فسطائیت میں عوام سے کئے ہوئے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ فاشزم عوامی بہبود کا قائل نہیں ہے سو مودی جی نہ کوئی وعدہ پورا کیا اور نہ ہی درحقیقت سب کا ساتھ سب کا وکاس کی رٹ لگائے رہنے کے باوجود وکاس (ترقی) یا عوامی فلاح و بہبود کا کوئی کام کیا ہے۔

مودی کے وزرأ اور ان کے قریبی ساتھی بالکل ہٹلر اور اسٹالن کے وزیروں اور ساتھیوں کی طرح ہیں۔ عام طور پر ہرجمہوری حکومت پارٹی کے منشور اور پارٹی کے پروگرام یا دستور العمل کی پابند ہوتی ہے۔ مودی کی حکومت کے وزرأ ہی نہیں بلکہ اراکان پارلیمان، اسمبلی یا پارٹی قائدین (بہ شمول سادھو اور سادھوی) پارٹی کے پروگرام، دستور، قواعد اور نظم و ضبط سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا ہے۔ سادھوی پراچی نے کہا کہ نعوذ باللہ قرآن پر پابندی لگادینا چاہئے۔ کیونکہ حکمراں جماعت فسطائیت کی قائل ہے اس لئے کسی سے جواب طلبی کا سوال نہیں ہے۔

دہلی میں جمہوری اصولوں پرعوام کی منتخبہ حکومت کو کوئی مرکزی حکومت اس قدر تنگ نہیں کرتی ہے جس قدر کہ مودی حکومت اپنے غلام گورنر نجیب جنگ کے ذریعہ کجریوال کو تنگ کررہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ انصاف پسند عدلیہ پر ناجائز دباؤ ڈالا جارہا ہو۔ دہلی کی پولیس بڑے سے بڑے خطرناک مجرموں کو آزاد رکھتی ہے لیکن آپ کے ایم ایل اے کو کسی کی بھی طرف سے ایک ایف آئی آر درج کروانے پر ہی گرفتار ہی نہیں بلکہ مقدمہ چلاتی ہے۔ کسی بھی ایم ایل اے کے خلاف صرف دھمکی دینے کی شکایت بھی ہوتو اس کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ نجیب احمد طالب علم جے این یو کی گمشدگی پر جے این یو پر دباؤ ڈال کر ان کو ایف آئی آر درج نہیں کروائی گئی۔ نجیب احمد کی والدہ کی طرف سے ایف آئی آر پولیس نے اپنی مرضی سے درج کی ہے نہ کہ جس طرح شکایت کرنے والے درج کروانا چاہتے تھے ۔ بی جے پ کی اے پی وی پی کے ان غنڈوں کا نام درج نہیں کیا گیا جنہوں نے نجیب احمد کو اس کی گمشدگی سے بہیمانہ طور پر زدوکوب کیا گیا تھا۔ یہ سب آمرانہ اور فسطائیت پر مبنی نظام حکومت ہیں۔ ممکن ہے آج کل کے حالات حکومت کا ہر عمل فسطائیت کی غمازی کررہا ہے۔

فاشسٹ حکومت نسلی یا مذہبی تفاخر کا شکار ہوتی ہے۔ ہٹلر جرمن قوم کو اور اسرائیل یہودیوں کو دنیا کی بہترین قوم مانتا ہے ۔ آر ایس ایس بھی اعلیٰ ذات کے ہندووں کو سب سے برتر مانتی ہے۔ مسلمانوں، دلتوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہی ہمارے دعوے کا ثبوت ہے۔ روہت ویمولا کنہیاکمار، عمر خالد اور اب نجیب احمد کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر گاؤ رکھشکوں کی کھلم کھلا غنڈہ گردی آج بھی قابو سے باہر ہے ۔ وزیر اعظم مودی کا ایک عدد نمائشی بیان محض دکھاوا تھا۔ گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں گائے مارنے یا ان کو فروخت کرنے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے جرم میں ملک بھر میں اخلاق کی شہادت سے جو درندگی شرو ع ہوئی اور آج بھی جاری ہے اس کو صرف اور صرف فسطائیت پر ایقان رکھنے والی حکومت ہی گوارہ کرسکتی ہے۔

مطلق العنانیت، آمریت، عدم رواداری اور تعصب فاشسٹ حکومتوں کا مزاج ہوتا ہے۔ یہی آج ہورہا ہے۔ تمام غیر سرکاری اہم اداروں پر پریار رفتہ رفتہ قبضہ کرتا جارہا ہے۔ چاہے وہ فلم کے ادارے ہوں یا کھیل کے یا سماجی خدمات کے ادارے ہوں۔ شیوسینا بظاہر بی جے پی کی مخالف ہے لیکن حکومت کی حلیف ہے جو کام مصلحت کی بنا پر حکومت اور خود نہیں کرنا چاہتی ہے۔ وہ بی جے پی شیوسینا سے مطالبہ کرواکے کرلیتی ہے۔ چاہے وہ کسی فلم کی نمائش ہو یا پاکستانی فن کاروں اور کھلاڑیوں سے بدسلوکی کا معاملہ ہو۔ اسی طرح عالمی شہرت کی حامل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا معاملہ ہے جس کو ابتداء سے مسلمانوں کی ملکیت مانا جاتا رہا ہے لیکن اب حکومت پارلیمان کا فیصلہ بدل کر اس کو اقلیتی بلکہ مسلم کردار کے حامل مسلم ادارہ کا موقف ختم کرکے اس پر قبضہ کرکے سنگھ پریوار اے ایم یو سے اپنا قدیم انتظام لینا چاہتی ہے۔ اس سے فسطائیت کیا ہوگی؟

جموں و کشمیر کو اٹوٹ انگ اٹوٹ انگ کہتے کہتے نہ تھکنے والی مرکزی حکومت کشمیری عوام سے جو سلوک کررہی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اس سطور کو تحریر کرتے وقت وادی میں روز مرہ کی عام زندگی کومعطل ہوئے 123 دن گذر چکے ہیں لیکن مرکزی حکومت، سنگھ پریوار اور میڈیا کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ عام زندگی کو بحال کرنے کی کسی مساعی کا دور دور تک پتہ نہیں ہے ۔ حکومت ہند کے خلاف آواز اٹھانے والا ’’آتنک وادی (دہشت گرد) یا ان کا ہمدرد ہے۔

مسلم پرسنل لاء کو منسوخ کرکے یکساں سول کوڈ کا نفاذمسلمانوں کو ذہنی اذیت دینے کی خاطر سپریم کورٹ کو درمیان میں لایا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ مسئلہ متنازع ہے اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔ حکومت نے اپنے زر خریدوں سے ڈرامے کرواکے معاملہ عدالت عظمیٰ میں پہنچایا۔ حکومت عدالتی عظمیٰ کو مشورہ دے سکتی تھی کہ وہ معاملہ مسلمانوں پر چھوڑ دے لیکن حکومت کی آمرانہ فاشسٹ ذہنیت کو یہ گوارہ نہیں ہے۔
فاشزم مخالفت برداشت کرتا ہے اور نہ ہی عدلیہ کو آزادا دیکھنا چاہتا ہے ۔ حکومت کی مخالفت اور کسی سے جواب طلب یا سوال کرنے حق پر قدغن لگانے کی تیاری ہے۔ فاشسٹوں کو اپنے سوا کوئی ملک و قوم کا وفادار نظر نہیں آتا ہے اس لئے غداروں ’’دیش دروھی‘‘ کا خطاب بہ کثرت لوگوں کو دیا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مختصر یہ کہ وطن عزیز میں بی جے پی کے رہتے ہوئے ’’وکاس‘‘ (ترقی) کی نہیں بلکہ فاشزم کو ہی فروغ حاصل ہورہا ہے۔ فاشزم پوری طرح آگیا تو ہندوراشٹر چورراستوں سے خود بہ خود آجائے گا۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply