• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • اروندھتی را ئے کی خصوصی تحریر — آج کے وقت میں دوسروں کے لیے بولنا اور بھی ضروری ہے/دوم،آخری حصّہ

اروندھتی را ئے کی خصوصی تحریر — آج کے وقت میں دوسروں کے لیے بولنا اور بھی ضروری ہے/دوم،آخری حصّہ

اب میں اپنی گفتگو کے دوسرے موضوع یعنی ‘ہماری اس جانی پہچانی دنیا کے بکھرنے پر’ آنا پسند کروں گی،اور اب میں مہارانیوں اور ان کے جنازوں کے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت چاہوں گی۔

جب برطانیہ کی ملکہ کا انتقال ہوا تھا تووہاں کے کچھ اخباروں نے مجھ سے ان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے کہا تھا۔میں ان کی اس درخواست سے خاصے پس و پیش میں مبتلا ہوگئی تھی۔شاید اس لیے کہ میں کبھی انگلینڈ میں نہیں رہی ۔کوئین الزابیتھ ضرور میرے ذہن کے کسی کونے میں موجود رہی ہوں گی۔ میں نے ان اخبار والوں سے کہا تھا کہ میں ضرور لکھوں گی، لیکن میری یہ تحریر اُن ملکہ کے بارے میں نہیں ہوگی جو آپ کے ذہن میں ہیں۔

میں جس ملکہ کے بارے میں سوچ رہی ہوں،وہ میری ماں ہیں۔ جنھوں نے ایک ہائی اسکول بنایا تھا اور اسے وہ چلاتی رہی تھیں۔ ان کا اسی مہینہ کے اوائل میں انتقال ہوا ہے۔ اچھے یا برے، انھوں نے ہی میری زندگی پر سب سے گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے نہایت خطرناک دشمن اور ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے بیتاب اور بے چین رہنے والے دوست تھے۔

میں نے بچپن سے اپنے آپ کو جس راہ پر چلنے کے لیے تیار کیا تھا،وہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔لیکن اب کہ وہ میرا دل توڑ کر ہی نہیں بلکہ کچل کر چلی گئی ہیں،مجھ کو اب اپنے ان طور طریقوں میں کوئی معنویت نظر نہیں آتی ہے۔

میرا دل چاہ رہا تھا کہ آج میں ان دو جنازوں کی سیاست کا ذکر کروں،ایک وہ جو عالمی اسٹیج پر، اور دوسرا وہ جو ہندوستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں موجود تھے۔ لیکن پھر میں نے اپنی اس خواہش کو دبا دیاتھا لیکن شاید اب میرے لیے وہ وقت آگیا ہے کہ پہلی بار میں وہ سب کہوں جو ‘نہیں کہنا چاہیے’خاص طورپر یہاں لندن میں۔

میرے لیے ملکہ کے جنازے کی رسومات کی تڑک بھڑک اور رونق اور کبھی نہ ختم ہونے والی ٹیلی ویژن نشریات ناقابل یقین تھیں۔میں ان سیاہ فام لوگوں کے خلوص اور احترام کو دیکھ کر مسحورسی ہوگئی تھی جو ان کی،ان سابقہ کالونیوں میں،اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تھے،جن کو اب’دولتِ مشترکہ’کہاجاتا ہے، لیکن جہاں دولت کے نام پر کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔  بلکہ یہ سب تو یکطرفہ لوٹ کی مانند تھا۔

ہم نے ان نوآبادیاتی ممالک میں، ان کے قیمتی فر، زریں پوشاکوں،زیورات، ہیرے جواہرات اور ان کے سونے کے شاہی عصاؤں کی بھاری قیمت چکائی ہے۔

ان کو لونیوں اور کولونیل ازم اور ان حکمرانوں کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے جنھوں نے تاریخ کے اس نہایت ظالمانہ دور میں حکومت کی تھی۔اس کہانی کو اسٹوارٹ ہال سے بہتر کون ہم کو سنا سکتا ہے؟ لیکن یہ کیا ہے؟ جیسے دیوار پر مبنی تصویر کی مانند، گھوڑسواروں کا کوئی مغموم واداس دستہ گزر رہا ہو۔

مؤرخ مارک ڈیوس کے مطابق انیسویں صدی کے اواخر میں، نوآبادیاتی ہندوستان،چین اور برازیل میں30اور60 ملین افراد خود انسانوں ہی کے تشکیل کردہ قحط میں بھوک اور پیاس سے مر گئے تھے،جس کووہ لوگ وکٹورین ‘ہولو کاسٹ’کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ہم لوگ کیوں اُن لوگوں سے محبت کرتے اور ان کے گُن گاتے ہیں جوہمیں بے عزت کرتے ہیں۔ آج یہ ایک نہایت اہم سیاسی  سوا ل ہونے کے ساتھ ہی ذاتی سوال بھی ہوسکتا ہے۔

میں معافی چاہوں گی،اگر آپ کو یہ سب باتیں، کلونیل ازم یا نو آبادیاتی نظام پر ایک غیرمعمولی تبصرے کے مانند نظر آئیں، کیوں کہ میں اپنے آپ کو ان ہندوستانی دانشوروں میں شمار نہیں کرتی ہوں جو صرف نو آبادیاتی نظام پر غم و غصہ  کا اظہار کرتے رہتے ہیں،لیکن خود اپنے سماج میں موجود خامیوں کے بارے میں خاموش رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہندو ذات پات کا نظام، سماجی تفریقی اور اونچ نیچ کا دنیا میں سب سے زیادہ ظالم اور سفاک نظام ہے،اس طرح کا نظام دنیا میں کہیں بھی نہ ہوگا۔یہ ذات پات کی تفریق کا نظام ہندوستان میں برٹش نوآبادیاتی نظام سے پہلے بھی موجود تھا اور اُن کے جانے کے بعد آج بھی موجود ہے۔ یہی ذات پات کا نظام وہ انجن ہے جو آج جدید ہندوستان کے نظام کو چلا رہا ہے۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان کے زیادہ تر ادیب اور دانشور ذات پات کے سوال کو یکسر نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس چیز کو نظر انداز کرنے کے لیے جوہر روز بلکہ ہر لمحہ ہماری نظروں کے سامنے موجود رہ کر ہمیں گھورتی رہتی ہے۔ان لوگوں کو کوئی علمی یا ادبی نہایت مفصل اور پیچیدہ قسم کا یوگا، آسن لگانا ہوتا ہو گا۔

بہرحال ان سب موضوعات پر تومیں اکثر و بیشتر لکھتی رہی ہوں۔اس لیے اب میں دوبارہ کوئین کے جنازے کے سلسلے میں اپنی الجھن کی طرف لوٹنا چاہتی ہوں۔میں واقعی یہ بالکل نہیں سمجھ سکی ہوں کہ اس کا اصل مقصد کیا تھا؟کیا کوئی اس کو سمجھنے میں میری مدد کرسکتا ہے؟

یہ سب اس چھوٹے سے جزیرے نما ملک کے ایک96سالہ حکمراں کے بارے میں تو ہو نہیں سکتا جس کو خود اپنی اس حکومت کے مختلف حصوں جیسے اسکاٹ لینڈ، ویلس اور شمالی آئر لینڈ کو بھی ساتھ رکھنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یا پھر کیا یہ اس سلطنت کی بھولی بسری یادوں کی ایک بازگشت تھی جس میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا تھا؟یا پھر یہ ان سب چیزوں کے علاوہ کچھ اور تھا؟ کیا اس کا تعلق ماضی سے تھا؟ یا پھر یہ مستقبل کے بارے میں تھا؟

جس طرح یوکرین میں جنگ بڑھتی جارہی ہے اسی طرح ہماری اس شناسا دنیا میں آپسی رشتے ٹوٹتے جارہے ہیں۔کیا یہ سب تماشہ ایک طرح کی خاموش اداکاری اور پینترے بازی ہے اور اپنے رفیق اتحادیوں کی اس جنگ کے لیے نمائش ہے جو ابھی شروع نہیں ہوئی ہے؟اسے دیکھ کر مجھے باربرا ٹچ مین کے ابتدائی باب کی یاد تازہ ہوگئی جوعالمی جنگ (اول) کی قیادت کے بارے میں ہے۔

مئی1910 کی صبح، انگلینڈ کے ایڈورڈ 7کے پرشکوہ جنازے کا منظر اتنا سحر انگیز تھا کہ جب نو سلاطین کی سواریاں نکلیں توماتمی لباس میں منتظر لوگوں کا ہجوم اس منظر کو دیکھ کر توصیف اور تحسین کے جذبہ سے مغلوب ہو کر حیرت زدہ سا، دم بخود رہ گیا تھا۔

لال، ہرے، نیلے اور جامنی رنگوں میں ملبوس، سلاطین کی تین تین سواریاں محل کے دروازے سے باہر نکلیں۔ ان کی جڑاؤ پگڑیاں،سنہری کلغیاں، سرخ پٹکے، جواہرات سے جڑے تمغے،سورج کی روشنی میں جگمگا کر آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد تاج کے آئندہ وارث پانچ شہزادوں کی سواریاں آئیں۔پھر چالیس دیگر شاہی شہزادوں کی سواریوں کے بعد سات رانیوں کی سواریاں تھیں اور پھر ان کے بعد دیگر ممالک کے سفیروں کا ایک جم غفیر تھا۔ تقریباً70 شاہی و غیر شاہی ممالک کا اس طرح کا اجتماع شاذ ہی اس سے پہلے کبھی ایک جگہ رونما ہوتا دیکھا گیا ہوگا۔

جب ایفل ٹاور نے اپنی لرزہ خیز آواز میں صبح کے9بجائے تھے اس وقت جنازے کا یہ جلوس محل سے نمودار ہوا تھا۔ لیکن شاید تاریخ کی گھڑ ی میں یہ سورج کے ڈوبنے کاوقت تھا،اور قدیم دنیا کا سورج اس مردہ شان و شوکت کے ڈھیر میں ڈوب رہا تھا جو پھر کبھی نظر نہیں آئے گی۔

یوکرین میں کھیلے جانے والے خطرناک داداگیری کے کھیل کو چاہے کتنا بھی،دونوں فریقین نے پروپیگنڈے کے شور و شرابے سے مبہم کر دیا ہو لیکن تاریخ کی گھڑی بہت تیزی سے سورج کے غروب ہونے کے وقت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جنگ سے متعلق مختلف نظریات میں سے چند یوگا کے آسنو ں کی طرح نہایت پیچیدہ ہوتے ہیں اور چند شدید دیکھی ان دیکھی کرتے ہیں۔ ان سب کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ خود کیا چاہتے ہیں۔

بائیں بازو کے افراد روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کا ذمہ دارقرار نہیں دے سکتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ روس کے خلاف یوکرین کو لے کر جو غصہ دکھلایا جارہا ہے وہ سب مغرب کی سامراجی طاقتوں کی بنائی اور پھیلائی جانے والی لغو باتیں ہیں۔

ان کے خیال سے1930 میں یوکرین میں کوئی قحط نہیں پڑا تھا اور نہ ہی لاکھوں افراد (تاریخ داں ٹیموتھی اسنیڈر کے اندازے کے مطابق پچاس لاکھ)اسٹالن کی زبردستی عائد کردہ’اجتماعی زراعت’ کی پالیسی کی وجہ سے مارے گئے تھے۔

ان کے خیال سے روس کا یوکرین پر یہ حملہ دراصل نیٹو کے خطرے سے اپنا دفاع کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ خیال غلط نہیں ہے لیکن سوال یہی ہے کہ یہ دفاعی جنگ اتنی جارحانہ طور پر، یوکرین میں،وہاں کے لوگوں کے خلاف کیوں لڑی جارہی ہے۔

جب سرد جنگ ختم ہوگئی تھی تو جوہری اسلحہ اور فوجوں کی تخفیف ہونی چاہیے تھی لیکن اس کے برخلاف نیٹو کے ممالک نے ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی اور جنگ جو پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے شروع کر دی تھی اور اپنے شریک اور ہمدرد ممالک کو اشتعال انگیز طور پر فوجیں جمع کرنے اور میزائلوں کے اڈے بنانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔اگر روس نے یورپ یا امریکہ میں اپنے ہمدردوں کے ذریعے وہ کیا ہوتا جو نیٹواس کے ساتھ کر رہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغربی میڈیا اخلاقی دلائل سے آسمان سر پر اٹھا لیتا۔

حالانکہ ان میں سے کوئی بھی عمل ولادمیر پتن کو ایک سامراج مخالف انقلابی یا پھر کسی بھی طرح کا جمہوریت پسند نہیں بناتا ہے۔حالانکہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر فسطائی نظریات اور ہم جنس پرستی کے مخالف ہیں اور عیسائی قوم پرستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کے پسندیدہ ماہر نظریات اسے نازی مخالف نظریہ کہتے ہیں (جو ان کے چہیتے ماہر نظریات الیکزنڈر ڈوگن اور الیکزنڈر پروخیسوف کے ذریعے پیش کیاگیا ہے)۔

اُن کا یہ دعویٰ کہ یوکرین،کریمیا اور بیلاروس،روس کا اٹوٹ حصہ ہیں،کریمیا کے ایک عیسائی پادری کے گناہوں کی توبہ کی ہزاروں سال پرانی ایک داستان پر مبنی ہے جو بجا طور پر ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ لیکن پھر یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان ہی حلقوں میں اس بات کو بھی مزاحیہ نہیں سمجھا جاتا ہے جب اسرائیل، فلسطین کے بارے میں دعویٰ کرتاہے کہ یہ خدا کی طرف سے بنایا ہوا یہودیوں کا قدیم وطن ہے جس کو وہ جدید اصطلاح میں ‘یہودی قومی ریاست’کہتے ہیں۔

یا جب ہندوستان میں آر ایس ایس جو ایک ہندو قوم پرست، عسکریت پسند ثقافتی گروہ ہے (اور پرائم منسٹر مودی جس کے ایک رکن ہیں)جب اکھنڈ بھارت کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ایک طرح کی خیالی دنیا ہے جس میں بیک وقت ماضی اور مستقبل دونوں شامل ہیں یعنی ایک طرح سے مستقبل کا قدیم ہندوستان،جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش کو زیر کر کے ملایا جائے گا،اور جہاں سب پر ہندو راج کریں گے۔

یورپ جہاں سردیوں کاموسم شروع ہو رہا ہے اور سب لوگ گرمی پہنچانے کے لیے درکار ایندھنوں کی قلت کے ساتھ سخت سردی کا مقابلہ کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔وہاں یا تو ایندھن ختم ہوچکا ہے یا قلیل مقدار میں موجود ہے اور ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔کیوں کہ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے کی وجہ سے،احتجاج کے بطور روس سے ان ممالک کو گیس کی سپلائی بند کیے جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور چونکہ اس وقت یوکرین مردانہ وار روس کا مقابلہ کر رہا ہے اس لیے کسی مصالحت کی امید بھی کم ہے بلکہ خدشہ یہی ہے کہ یہ جنگ لمبی چلے گی۔

ابھی یوکرین نے تین لاکھ مزید فوج کی جزوی بھرتی کا اعلان بھی کیا ہے۔اس سب کے معنی جو بھی ہوں لیکن بظاہر امریکہ تو خاصہ دور اور محفوظ ہے لیکن پورا یورپ اور روس،اور ایشیا کا بڑا حصہ،دنیا کی سب سے بڑی عالمی جنگ کا اکھاڑہ بن سکتا ہے۔ایک ایسی جنگ جس میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔

کیایہ سب کے لیے اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کا وقت نہیں ہے؟ کیا یہ ایٹمی اسلحہ کی مکمل تخفیف پر سنجیدگی سے بات چیت شروع کرنے کا وقت نہیں ہے؟خدا نہ کرے کہ روس بھی امریکہ کی منطق پر عمل کرتے ہوئے کبھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کرنے کا ارادہ کر لے۔

اپنے ایک آرٹیکل بعنوان’اگر ایٹم بم نہ استعمال کیاگیا ہوتا‘میں، جو 1946میں شائع ہوا تھا،کاول کومٹن (جو فزکس کے عالم اورایم آئی ٹی کے سابق صدر تھے)کہا تھا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گراکر لاکھوں کروڑوں امریکی اور جاپانی جانوں کو بچا لیا گیا تھا، کیوں کہ اگر ایٹم بم کااستعمال نہ کیاگیا ہوتا توہ جنگ کئی مہینوں تک اور چلتی رہتی اور ان کی منطق کے مطابق، جاپان جو ہار چکا تھا پھر بھی ہتھیار نہ ڈالتا اور اگر ایٹم بم ہیروشیما اور ناگاساکی پر نہ گرایاگیا ہوتا (جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے)تو جاپان اپنے آخری سپاہی تک لڑتارہتا۔

کومٹن خود سے سوال بھی کرتے ہیں،’کیا ایٹم بم کااستعمال ایک وحشیانہ اور غیر انسانی فعل تھا؟ پھر خود ہی جواب بھی دیتے ہیں،سب ہی جنگیں وحشیانہ اور غیر انسانی ہوتی ہیں’۔ان کا یہ آرٹیکل ‘دی اٹلانٹک’میں شائع ہواتھا۔پریسیڈنٹ ٹرومین نے ان کی اس منطق کی توثیق کی تھی۔

برسوں بعد، جنرل ولیٹ مورلینڈ نے ویت نام جنگ کے دوران اس منطق کو اور زیادہ نکھارا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی تہذیب میں انسانی زندگی کی وہ قدروقیمت نہیں ہے جو مغربی تہذیب میں ہے، یہاں زندگی سستی اور کثیر التعداد ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم ایشیا کے رہنے والے اپنی زندگی کی قدروقیمت نہیں جانتے ہیں،اسی لیے ہم نے ان سفیدفام افراد کو اپنی نسل کشی کرنے کے لیے مجبور کر رکھا ہے۔

دوسرے جناب رابرٹ میک نما را صاحب ہیں جن کا ایک نہایت ہی شاندار ریکارڈ موجود ہے۔ اوّل ٹوکیو میں کی گئی بمباری کی منصوبہ سازی کا جس میں دو مختلف حملوں میں تقریباً دولاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔پھر وہ فورڈ موٹر کے صدر بھی رہے تھے اور اسی کے بعد ویت نام کی جنگ کے دوران امریکہ کے ڈیفنس سکریٹری بھی رہے جس کے دوران امریکی افواج کو حکم دیاگیا تھا کہ ہر اُس چیز کوموت کے گھاٹ اتار دو جوہلتی ہوئی نظر آئے جس کے نتیجہ میں تین ملین ویت نامی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔

میسک نمارا کو آخر میں دنیا کی غربت کی دیکھ ریکھ کرنے کے لیے ورلڈ بینک کا صدر بنا دیا گیا تھا۔ایرول موریس کی ڈاکیومنٹری فلم ‘دی فوگ آف وار’ میں میک نمارا نے اپنی زندگی کے آخری دور میں ایک اذیت ناک سوال یہ دریافت کیا تھا کہ،’ہمیں اچھا کام کرنے کے لیے کتناکچھ برا کرنا پڑتا ہے؟’

ظاہر ہے آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجھ کو اس طرح کے نوادرات جمع کرنے کا شوق ہے۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پریسیڈینٹ اوباما کے پاس بھی قتل کی ایک فہرست تھی اور وہ میڈلائن البرٹ جن کے بارے میں ابھی حال میں پریسیڈینٹ جوئے بائیڈن نے کہاتھا کہ وہ نیکی، شائستگی اور آزادی کے روح رواں ہیں۔ان سے جب عراق میں امریکہ کی عائد پابندیوں کی وجہ سے مرنے والے لاکھوں عراقی بچوں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا تو کہاجاتا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ ،’یہ بہت ہی مشکل فیصلہ تھا لیکن اس کی جو قیمت چکائی گئی وہ ہمارے خیال سے ایک واجب قیمت تھی۔’

ہم کس طرف جارہے ہیں؟ ہم میں سے وہ لوگ بھی جو پوری طرح سے روسی حملے کے خلاف یوکرین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔یوکرین جنگ کے مغربی میڈیا کے کوریج کے لہجے اور انداز کو دیکھ کر حیران تو ضرور ہوں گے کہ کس طرح انھوں نے بغیر سانس لیے تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے عراق اور افغانستان پر امریکہ اور ناٹو کے حملوں کی خبروں کو نشر کیا تھا جن میں ہزاروں لاکھوں افراد ہلا ک ہوگئے تھے۔

ابھی جنوری میں اُن ٹونی بلیئر کو جو عراق کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلانے کے کاروبار کے سب سے بڑے کاروباری کہے جاسکتے ہیں اور جنھوں نے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اُن ہتھیاروں کی موجودگی کی خبر پھیلائی تھی جن کاوہاں کوئی وجود ہی نہیں تھا اور جنھیں عراق پر حملہ کے جواز کے بطور استعمال کیا گیا تھا اور پریسیڈینٹ جارج بش جونئیر کے اس حملے میں سب سے پرجوش ساتھی (یعنی نوٹی بلیئر)کے لیے برٹش راج کا بہادری کا سب سے اعلیٰ خطاب ‘نائٹ کمپینیئن کا اعلان کیا گیا تھا۔

اُس دن جب میں کوئین کے جنازے کے جلوس کو دیکھ رہی تھی، اور اُس وقت میں جو بھی پی رہی تھی اس کا پھندا پڑتے پڑتے بچا تھا جب میں نے سنا کہ ایک بشپ یا آرچ بشپ کہہ رہے تھے کہ ‘کوئین الزابیتھ (دوئم)اُن لوگوں کی طرح نہیں تھیں جو صرف طاقت اور دولت سے چمٹے رہتے ہیں بلکہ وہ خلوص اور محبت کے ساتھ کی گئی اپنی عوامی خدمات کے لیے یاد کی جاتی رہیں گی۔’

اب اُن کے صاحبزادے انگلینڈ کے نئے بادشاہ،اور ان کے وارث کے بطور ملک اور مال کے مالک ہوں گے۔ اب ان کی عیش و آرام کی زندگی ان کی اپنی دولت سے نہیں گزرے گی جوتقریباً ایک ارب پونڈ کی بتلائی جاتی ہے،بلکہ اب ان کی یہ عیش و آرام کی زندگی برطانوی عوام کے پیسے سے گزرے گی،اُس عوام کے پیسے سے جنھوں نے،گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک وقت کا کھانا اس لیے ناغہ کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ زندگی کا ڈھرّا چلتا رہے۔

شاید ہمارے جیسے غیر برطانوی افراد کے لیے برطانیہ کے عوام کا اپنے شاہی خاندان کے لیے اس پر اسرار محبت اور خلوص کو سمجھنا کافی مشکل ہے۔شاید اس کا تعلق اس قومی شناخت اور فخر کے ساتھ منسلک ہے جس پر معاشی ‘واہیاتوں’ کا کبھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔لیکن اب میں آپ سے ان ہی’واہیات’باتوں کا تھوڑا سا ذکر کرنے کی اجازت چاہوں گی۔

فنانشیل ٹائمز کے مطابق امریکہ اور برطانیہ، دونوں ملکوں میں، آمدنی کی تفریق شدید ہے کہ ان کے سماج کے بارے میں باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ‘چند امیر افراد کا ایک غریب سماج ہے۔’یہ سب لوگ بھی اب،ہم تیسری دنیا کے لوگوں کی طرح کے ہیں، یعنی ایک ایسی ڈھونگی جمہورت کی مانند جس کے چند امیر افراد خلاؤں میں کمندیں ڈالنے میں کامیاب ہورہے ہیں،وہیں غریب عوام غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔

آکسفیم کے 2022 کے ایک مطالعے کے مطابق ہندوستان کے صرف 98امیرترین افراد کی مجمو عی دولت ہندوستان کے 552ملین غریب افراد کی مشترکہ دولت کے برابر ہے۔اس بے ادبی کے لیے ہندوستان میں آکسفیم کے آفس پر چھاپہ پڑا تھا اور غالباً جلد ہی اسے بھی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل ور دوسری ان تنظیموں کی طرح جو مودی گورنمنٹ کی تنقید کرتی ہیں، بند کر دیا جائے گا۔

کنگ چارلس دوئم،گو کہ بہت دولت مند ہیں، لیکن غالباً گوتم اڈانی کے مقابلے میں ایک مفلس اور فقیر نظر آئیں گے، جو دنیا کے تیسرے سب سے بڑے امیر آدمی ہیں۔وہ گجراتی ساہوکاروں کے سپہ سالار ہیں اور نریندر مودی کے چہیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریبا137بلین ڈالر کے مالک ہیں۔اُن کی یہ دولت کووِڈکی وبا کے دوران بہت تیزی سے بڑھی تھی۔

سال 2014 میں جب مودی پہلی بار ہندوستان کے پرائم منسٹر منتخب ہوئے تھے اس وقت وہ گجرات میں اپنے آبائی شہر احمد آباد سے دہلی اڈانی کے ذاتی جیٹ میں آئے تھے جس پر (اڈانی کا منقش نام اور نشان خوب چمک رہا تھا)، ابھی حال میں اڈانی این ڈی ٹی وی نیوز چینل پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں جو واحد ایسا چینل تھا جو ابھی نہایت عمدگی اور انہماک کے ساتھ مودی حکومت پر تنقید وتبصرہ کرنے کی ہمت کرتا ہے۔کیوں کہ اس کے علاوہ بیشتر میڈیا یا تو بک چکا ہے یا پھر صرف پیسہ بنانے میں مصروف ہے۔

وہ سب بڑی ساہوکار کمپنیاں جو پہاڑوں کو دھماکوں سے تباہ کررہی ہیں،جنگلوں کو کاٹ رہی ہیں،کورل ریف کی چٹانوں کے رنگوں کو اڑا رہی ہیں،اب وہی کمپنیاں تفریحی پروگراموں جیسے فلموں، کھیلوں کے مقابلوں اور ادبی جشن اور کانفرنس وغیرہ کے انعقاد کے لیے بھی پیسہ دیتی ہیں۔ وہ باہمت ادیبوں اور فنکاروں کو وہ پلیٹ فارم مہیا کرواتی ہیں،جہاں وہ بولنے کی آزادی نہ ہونے کے خلاف بول سکیں،جہاں وہ امن،انصاف اور انسانی حقوق کے سلسلے کے اپنے عزائم کو دہرا سکیں، یعنی وہ سب کہہ سکیں جو عموماً نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بس کھیل ختم،پیسہ ہضم۔

دراصل سرمایہ داری اپنا آخری کھیل کھیل رہی ہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری اس دنیا کوبھی اپنے ساتھ لیے جارہی ہے۔ جوہری عقاب ا ور کان کنی کی کمپنیاں دونوں نیچے کی سطح پر پہنچنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔

آئیے صرف دل بہلانے اور ہلکی پھلکی تفریح کی خاطر، ہم سب مل کر ان باتوں پر لڑائی جھگڑا کرنے کا کھیل کھیلیں کہ کس کا خدا عبادت کے لیے سب سے بہتر ہے یا کون سا جھنڈا ہمیں لہراناچاہیے یا کون سا گانا ہمیں گانا چاہیے وغیرہ۔ اگر میں نے واقعی آپ کو اداس اور ناامید کر دیا ہے تو میں آپ کو اپنا ایک ای میل پڑھ کر سنانے کی اجازت چاہوں گی جو میں نے اپنے سامعین میں سے ایک کے جواب میں لکھا تھا جنھوں نے نہایت متانت کے ساتھ مجھ پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ میں گوری لنکیش کی یاد میں تقریر کرتے ہوئے بہت پُر امید نظر آرہی تھی:

اگر ہم پُر امید بھی نہ ہوں تو کیا کریں۔کیا پھر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں؟ دنیا میں لاکھوں ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں مایوس کرتی ہیں اور قنوطی بناتی ہیں۔اسی لیے میں کہتی ہوں کہ امید کے لیے کسی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کو تو ایک خود رو پودے کی طرح بالکل آزاد اور خودسر اور غیرمعقولیت کی حد تک بے وجہ ہونا چاہیے۔

اس لیے ہر لائن جومیں لکھتی ہوں،ہر لفظ جو میں بولتی ہوں،اس میں میں یہی کہتی ہوں کہ ابھی ہم مرے نہیں ہیں،نہ ہی پوری طرح سے مغلوب ہوئے ہیں۔

دنیا میں چاروں طرف سے مصیبتوں میں گھرے لاکھوں افراد کے لیے اس طرح کی’امید اور نا امیدی’کی بحثیں، ایک طرح کے عیش و عشرت کے مترادف ٹھہرائی جائیں گی،یہاں تک کہ لندن جیسے دولت اور ثروت کے شہرتک میں، باہر سے آنے والا ہر شخص، ایک طرح کے تناؤ اور اس بے چینی کو محسوس کرسکتا ہے،جو کسی ٹرین کے پلیٹ فارم کے قریب آنے سے پہلے پیروں کے نیچے محسوس ہونے لگتی ہے۔

لیکن ایٹمی جنگ میں ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔وہ تو ہم کو یکسر ختم کر دے گی۔اسی لیے یہ وقت دونوں فریقوں کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے کا ہے اور باقی دنیا کے لوگوں کو سامنے آنے کا ہے۔یاد رکھیے عالمی جنگوں کے ضابطے میں دوسرے موقع کے لیے کوئی شق موجود نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ دی وائر

  • julia rana solicitors
  • julia rana solicitors london
  • merkit.pk

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply