پابندیوں سے آزادی۔۔مرزا مدثر نواز

رمضان کا بابرکت مہینہ اختتام پذیر ہوا جس کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اس ماہ مقدس میں فرزندانِ توحید رحمتوں کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کو قابو کرنے کی مشق کرتے ہیں۔ پورا ماہ اپنے نفس کے ساتھ نبردآزما رہا جائے‘ رات کو قرآن کی تلاوت سنی جائے اور دن کو خود اس کا شرف حاصل کیا جائے‘ نیند کو شکست دے کر سحری میں اٹھا جائے‘ جھوٹ‘ غیبت‘ حسد‘ بغض‘ لڑائی جھگڑے سے بچنے کی کوشش کی جائے‘ نگاہوں کو نیچا رکھا جائے‘ شہوتِ نفسانی کو قابو میں رکھنے کی لڑائی لڑی جائے لیکن جونہی چاند رات یا یکم شوال کی صبح نمودار ہو‘ خود کو تمام قسم کی پابندیوں سے مبراء سمجھا جائے‘ تلاوتِ قرآن قصہ ماضی بن جائے‘ فجر قضا ہونے لگ جائے‘ نگاہیں نفس کی پسندیدہ چیزوں کی طرف مائل ہونے لگیں‘ شہواتِ نفسانی بے لگام ہو جائیں‘ مال کی محبت پھر سے دل میں گھر کر جائے تو سمجھ جانا چاہیے کہ میری ایک ماہ کی مشق بے کار گئی اور میں مقصد رمضان حاصل نہیں کر سکا۔جس طرح بندہ مومن رمضان میں جہاد مسلسل میں مصروف ہوتا ہے‘ اسی طرح باقی گیارہ ماہ بھی اس جہاد کو ترک نہیں کرنا چاہیے‘ یہی مقصد رمضان ہے۔ نفس اور خواہشات کے ساتھ جہاد کی کتنی اہمیت ہے‘ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

جہاد کے معانی عموماََ قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاََ غلط ہے۔ جہاد کا لفظ جہد سے نکلا ہے اور لغت میں اس کے معانی محنت اور کوشش کے ہیں۔ اسی کے قریب قریب اصطلاحی معانی بھی ہیں یعنی حق کی بلندی اور اس کی اشاعت اور حفاظت کے لیے ہر قسم کی جدوجہد‘ قربانی اور ایثار گوارا کرنااور ان تمام جسمانی و مالی و دماغی قوتوں کو جو اللہ تعٰالیٰ کی طرف سے بندوں کو ملی ہیں اس راہ میں صرف کرنا یہاں تک کہ اس کے لیے اپنی ‘ اپنے عزیز و اقارب کی‘ اہل و عیال کی‘ خاندان و قوم کی جان تک کو قربان کر دینا اور حق کے مخالفوں اور دشمنوں کی کوششوں کو توڑنا‘ ان کی تدبیروں کو رائیگاں کرنا‘ ان کے حملوں کو روکنا اور اس کے لیے جنگ کے میدان میں اگر ان سے لڑنا پڑ ے تو اس کے لیے بھی پوری طرح تیار رہنا یہی جہاد ہے۔ نبی کریم ﷺ جس تعلیم و شریعت کو لے کر دنیا میں آئے وہ محض نظریہ اور فلسفہ نہیں بلکہ عمل اور سر تاپاعمل ہے۔ آپ کے مذہب میں نجات کا استحقاق گوشہ گیری‘ رہبانیت‘ نظری مراقبہ‘ دھیان اور الٰہیات کی فلسفیانہ خیال آرائی پر موقوف نہیں‘ بلکہ اللہ کی توحید‘ رسولوں اور کتابوں اور فرشتوں کی سچائی‘ قیامت اور جزا و سزاکے اعتقاد کے بعد انہی کے مطابق عمل خیراور نیک کرداری کی جدوجہد پر مبنی ہے ۔

جب جہاد کے معانی محنت‘ سعی‘ بلیغ اور جدوجہد کے ہیں تو ہر نیک کام اس کے تحت میں داخل ہو سکتا ہے۔ جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم خود اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے اور اسی کا نام جہاد اکبر ہے۔ خطیب نے تاریخ میں حضرت جابرؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ان صحابہ سے جو ابھی ابھی لڑائی کے میدان سے واپس آئے تھے فرمایا’’تمہارا آنا مبارک‘ تم چھوٹے جہاد (غزوہ) سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو‘ کہ بڑا جہاد بندے  کا اپنے ہوائے نفس سے لڑنا ہے‘‘۔

ایک دوسری روایت کے مطابق ابن نجار نے حضرت ابوذرؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا   ’’بہترین جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنی خواہش سے جہاد کرے‘‘۔ یہی روایت دیلمی میں ان الفاظ میں ہے کہ بہترین جہاد یہ ہے کہ تم اللہ کے لیے اپنے نفس اور اپنی خواہش سے جہاد کرو۔ ایک اور حدیث میں آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ ’’ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے‘‘۔

اسی طرح ایک دفعہ آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم پہلوان کس کو کہتے ہو؟ عرض کیا جس کو لوگ پچھاڑ نہ سکیں‘ فرمایا نہیں پہلوان وہ ہے جو غصہ میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔ یعنی جو اس پہلوان کو پچھاڑ سکے اور اس حریف کو زیر کر سکے جس کا اکھاڑہ خود اس کے سینے  میں ہے۔خطرناک سے خطرناک موقع پر حق کے اظہار میں بے باک ہو نا بھی جہاد ہے‘ آپ نے فرمایا ’’ ایک بڑا جہاد کسی ظالم قوت کے سامنے انصاف کی بات کہہ دینا ہے‘‘ (ترمذی ابواب الفتن)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مخالفین اسلام سے جہاد بالسیف کا موقع ہر وقت اور ہر کسی کو میسر نہیں آ سکتا مگر حق کی راہ میں دائمی جہاد وہ جہاد ہے جو ہر مسلمان کو ہر وقت پیش آ سکتا ہے ‘ اس لیے فخر کائناتﷺ کے ہر امتی پر یہ فرض ہے کہ دین کی حمایت ‘ علم دین کی اشاعت‘ حق کی نصرت‘ غریبوں کی مدد‘ زیر دستوں کی امداد‘ سیاہ کاروں کی ہدایت‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ اقامت عدل‘ ردِظلم اور احکام الہیٰ کی تعمیل میں ہمہ تن اور ہر وقت لگا رہے‘ یہاں تک کہ اس کی زندگی کی ہر جنبش و سکون ایک جہاد بن جائے اور اس کی پو ری زندگی جہاد کا ایک غیر منقطع سلسلہ نظر آئے۔سورہ آل عمران کی آیت نمبر 200 میں ہے: ’’اے ایمان والو! مشکلات میں ثابت قدم رہواور مقابلہ میں مضبوطی دکھاؤ اور کام میں لگے رہو اور اللہ سے ڈرو شاید کہ تم مراد کو پہنچو‘‘۔
یہی وہ جہاد محمدی ہے جو مسلمانوں کی کامیابی کی کنجی اور فتح و فیروزی کا نشان ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply