الطاف حسین اور کراچی کی سیاسی جماعتیں۔عبدلرؤف خٹک

کیا کراچی کی سیاست میں کوئی نیا موڑ آئے  گا؟ابھی حال ہی میں جو کچھ پی ایس پی اور متحدہ قومی موومنٹ  نے کیا اس کا تماشہ پوری دنیا نے دیکھا دونوں جماعتیں اب تک ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھتی رہیں۔ اگر پی ایس پی پر یہ چھاپ ہے کہ وہ ایجنسیوں کی منظور نظر ہے تو متحدہ پاکستان کو اب تک مشکوک نگاہوں سے اس لئے دیکھا جاتا ہے کہ وہ اب بھی لندن والوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ان تمام معاملات کو عوام کس طریقے سے دیکھتے ہیں  ؟

کراچی کے لوگوں کی اپنی خواہش یہی ہے کہ یہ جماعتیں ایک ہو ں یا نہ ہوں لیکن کراچی کا امن اسی طرح قائم ودائم ہو کیونکہ اک عرصے بعد کراچی میں امن آیا ہے لاکھ اس کا کریڈٹ سیاسی جماعتیں اپنی جھولی میں ڈالتی رہیں لیکن عوام سب جانتے  ہیں کہ اس شہر نا پرساں میں امن کون لایا؟یہ وہ شہر کراچی ہے جہاں روز بیسیوں لاشیں گرتی تھیں اور کوئی پرسان حال نہ تھا ہر سیاسی جماعت مرنے والے کو اپنے کھاتے میں ڈال دیتی تھی اور اسے شہید کا جامہ پہنا دیا جاتا تھا یہ سب تماشے میڈیا تک محدود تھے اس کے بعد کوئی ان کے گھر والوں کو پوچھتا تک نہ تھا ۔یہ سب کس کی ایماء پر ہوتا تھا یہ سب سیاسی جماعتیں جانتی ہیں لیکن اس وقت سب کے منہ میں گھنگھنیاں پڑی ہوئیں تھیں آج جب اس شہر میں امن آیا ہے تو اس کا کریڈٹ سب خود کو دیتے ہیں ،اس امن کو لانے میں جو قربانیاں سکیورٹی اداروں نے دی ہیں اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

آج اگر ہمارے سکیورٹی اداروں کی مدد سے اس شہر میں امن آیا ہے تو یہ سوال بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ  اس  شہرکا  امن بگاڑنے  میں کون لوگ تھے سیدھی سی بات ہے باہر سے کوئی نہیں آیا، سکیورٹی اداروں نے جتنے لوگوں کو بھی گرفتار کیا ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی جماعتوں سے ہی رہا اور یہ سیاسی جماعتیں باہر سے نہیں آئی تھیں، اسی ملک کی اور اسی شہر کی سیاسی جماعتیں تھیں اور ان جماعتوں کے ساتھ لوگوں کا اک بہت بڑا ووٹ بینک تھا ۔یہ ووٹ بینک زبردستی کا تھا یا واقعی اس شہر میں اس سیاسی جماعت کا ووٹ بینک تھا یہ تو آنے والے الیکشن میں پتا لگے گا

لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ گرفتار ہوۓ انھوں نے اپنے جو گناہ قبول کیے اور دوران تفتیش ان لوگوں نے جن سیاسی جماعتوں کا تذکرہ کیا یا جن سیاسی لیڈروں کا نام لیا گیا ۔کیا ان لوگوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ؟ یا بس صرف اسی پر اکتفاء کرلیا گیا کہ کراچی کی سیاست سے اک شخص کو نکال باہر  کردو ،تمام معاملات خود ہی بہتری کی طرف آجائیں گے ۔اگر صرف ایک  شخص کی وجہ سے پورا شہر جسے پاکستان کا حب بھی کہا جاتا ہے یرغمال بنا ہوا تھا تو پھر یہ سب کچھ پہلے کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا لوگوں کی جانیں اتنی بے وقعت  تھیں کہ روز انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا تھا اور شام کو سب سیاسی جماعتیں دو دو ٹسوے بہا کر اپنی سیاسی دکان چمکاکر چلے جاتے تھے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو سیاسی جماعتیں کراچی کا امن تباہ کرنے میں ملوث تھیں انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا اور انھیں نشان عبرت بناتے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو۔لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ رات کو کچھ لوگوں کو سکیورٹی ادارے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور صبح وہی لوگ جو سکیورٹی اداروں کے پاس تھے صبح اچانک میڈیا پر آکر اپنی ہی پارٹی کے سربراہ سے برآت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں ۔اچانک سے وہ شخص ہیرو سے ولن کا روپ دھار لیتا ہے ،آخر ہمارے اداروں نے ایسا کون سا چورن کھلا دیا کہ اچانک سے ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھا کہ پارٹی سربراہ سے ہی بیزاری کا اظہار اس سب تماشے کے باوجود کارکنان اپنے لیڈر کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور عوام کی اک غالب اکثریت اب بھی اپنی ہمدردیاں لندن قیادت کی جھولی میں ڈالتی ہے ۔

اس کی وجہ وہ سوچ ،وہ وژن جو اس لیڈر نے اپنی قوم کو دیا،  وہ اس احسان کو کبھی نہیں بھولتے ۔اردو  بولنے  والوں کی  غالب اکثریت  اب بھی خود کو ڈھکے چھپے انداز میں اپنی ہمدردیاں الطاف حسین کے پلڑے میں ڈالتی ہیں ۔اس لیے کراچی کی عوام اس وقت جہاں کراچی کے امن پر خوش ہے وہیں وہ اس شش و پنج میں بھی مبتلا ہے کہ آنے والے الیکشن میں کیا کچھڑی پکے گی کیوں کہ الیکشن سے قبل جو تماشہ ان دو جماعتوں نے کیا وہ عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔کیونکہ ان جماعتوں کا جو کبھی ایک جماعت تھی اب ٹکڑوں میں نظر آرہی ہے، آنے والے وقتوں میں  یہ  ایک  دوسرے کے دشمن بنتے نظر آرہے ہیں اگر ایسا کچھ ہوا تو کراچی شہر ایک مرتبہ پھر لہو لہان نظر آئےگا، ویسے اگر سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو متحدہ پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ کو ایک دوسرے میں ضم ہوجانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کاایک تو یہ فائدہ  ہوگا کہ وہ لوگ جو اب بھی اپنی ہمدردیاں الطاف حسین کے ساتھ وابستہ کیے بیٹھے ہیں وہ جب ان جماعتوں کو اکٹھا دیکھیں گے تو غالب امکان یہی ہے کہ ان کی ہمدردیاں اس جماعت کے ساتھ ہو جائیں گی کیونکہ وہ لوگ جو الطاف حسین کو اپنا مائی باپ سمجھتے تھے اور اسے اپنے ہیرو   کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ اکثر اردو بولنے والے اسے اپنا رہبر سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس شخص نے ہمیں سوچ دی، نظریہ دیا، اک پہچان دی ۔آج ہم اپنے حقوق ڈنکے کی چوٹ پر مانگتے ہیں، لہذا ایسے لوگ جو اپنے قائد کو نہیں بھول سکتے ان کی خواہش ہوگی کہ یہ تمام جماعتیں اگر ایک ہوجائیں تو شاید وہ خود کو اس جماعت سے جوڑ لیں ۔بہر حال آنے والے الیکشن کیا رنگ لاتے ہیں لیکن ہماری خواہش یہی ہے کہ کراچی میں امن ہو ۔کراچی میں امن ہوگا تو پورے ملک میں امن ہوگا!

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply