ایک بھول ایک سبق ۔۔۔عثمان ہاشمی

 سٹٹگارٹ جرمنی کے صوبے “بادن ویوتم برگ ” کا مرکزی شہر ہے ، خوبصورت انسانوں سے بھرا یہ شہر خود بھی بہت خوبصورت، دیکھنے ،گھومنے اور رہنے لائق ہے ۔ میری رہائش سٹی سنٹر سے تقریباً  15 میل کی مسافت پر ہے ۔ میں جاب پر یا کورس میں جانے آنے کیلئے یا کسی اپائنٹمنٹ کو نمٹانے کیلئے اگر سفر کروں تو بذریعہ ٹرین ہی کرتا ہوں ۔

گزشتہ شام میں معمول سے کچھ جلد ہی واپسی کیلئے نکل آیا اس کی دو وجوہات تھیں! اول کہ مجھے افطار سے پہلے دو اپائنٹمنٹس نپٹانی تھیں ، اور دوئم یہ کہ میں کافی دن بعد گھر والوں کے ساتھ افطار کرنا چاہ رہا تھا ۔ حسب معمول سٹی سنٹر سے اپنی مطلوبہ ٹرین میں بیٹھا اور گھڑی پر وقت دیکھ کر اندازہ لگایا کہ میرے پاس کتنا وقت ہے ، تقریباً  سات بج رہے تھے اور ٹرین نے مجھے ساڑھے سات بجے میری منزل پر پہنچانا تھا ، اور میری پہلی اپائنٹمنٹ آٹھ بجے جبکہ دوسری ساڑھے آٹھ بجے تھی ۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اگر ساڑھے سات بجے پہنچوں تب بھی آدھا گھنٹہ ہے میرے پاس فریش ہو کر مزید کام نپٹانے کے لئے ۔ جب ذہن میں وقت کا حساب کر لیا تو قدرے اطمینان کا احساس ہوا اور میں نے اپنے فون پر ایک پی ڈی ایف ناول پڑھنا شروع کردیا ۔

ناول کا  پہلا باب ختم ہوا تو دائیں بائیں نگاہ ڈوڑانے   کیساتھ ہی اندازہ ہوا کہ میں اپنی منزل سے کافی دور یعنی کہ  پنتالیس منٹ زیادہ سفر کرچکا ہوں اور ٹرین اس وقت اپنی آخری منزل پر پہنچ چکی ہے ۔ فوراً  نیچے اترا اور سٹیشن کی دوسری جانب واپسی کی ٹرین  کی جانب بھاگا ، جو ٹرین کی آمد کا وقت دیکھا تو پتہ چلا کہ  مزید پندرہ منٹ انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ٹرین ساڑھے آٹھ بجے آنی تھی جس کا مطلب تھا کہ  میں سوا نو بجے سے پہلے تو کسی طور واپس پہنچ نہیں سکتا اور اپائنٹمنٹس کا وقت بھی گزر چکا تھا ( یہاں اپائنٹمنٹس پر بلا مطلع کیے نہ آنا کسی طور بھی معمولی نہیں سمجھا جاتا اور بعض صورتوں میں کافی نقصان کا سبب بھی بنتا ہے ) اور گھر افطار کرنے کی بھی کچھ امکانات نہیں تھے ۔

خیر مرتا کیا نہ کرتا کچھ ہی دیر بعد واپسی کی ٹرین لی اور موبائل کو جیب میں ڈال لیا ،قبل اسکے کہ میں دوبارہ سٹی سنٹر پہنچ جاتا ۔ بظاہر تو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا مگر اس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ۔ انسانی زندگی بھی ایک سفر کی مانند ہے ، اگر ہدایت قرآنی کی روشنی میں انسان اپنی منزل کو جان بھی لے اور صراط مستقیم کی صورت ٹھیک سواری پر سوار بھی ہوجائے تو اسکے باوجود بھی ہر اک لمحہ خود کو چوکنا رکھنا ضروری ہے ۔ اپنی منزل سے آگاہی ہونا اک علیحدہ بات ہے (جیسا کہ مجھے معلوم تھا کہ میری رہائش کون سے سٹیٹشن پر ہے ) لیکن یہ ضروری ہے کہ باقی معاملات زندگی پر ہمیشہ اپنی منزل کو فوقیت دی جائے ۔ کسی بھی شغل ،مصروفیت یا کام کو اس قدر خود پر سوار نہ کر لیا جائے کہ اس دوران انسان اپنی منزل سے ہی دور نکل آئے ۔

شاید انسان کے اسی ضعف کے پیش نظر بندہ مومن کو ہر نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ کے اندر سیدھے رستے کی ہدایت مانگنے کا پابند کردیا گیا ہے ۔ انسان ایسا ہی ہے ، جانتا ہے کہ اس کی ٹھیک منزل آخرت میں جنت کی صورت ہے ، انسان کو معلوم ہے کہ ٹھیک رستہ اطاعت ربانی ہے مگر اس کے باوجود وہ بعض چھوٹے موٹے مشاغل میں اس قدر انہماک سے مصروف ہوجاتا ہے کہ منزل کے خطا ہونے اور گمراہ ہونے کا احساس ہی نہیں کر پاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا واقعہ تو دنیا کی اک منزل چھوٹ جانے کا تھا تو واپسی کی صورت بھی بن گئی ، لیکن جب آخرت کی منزل چھوٹ جائے تو واپس ہونا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ میں انہی  سوچوں میں گم تھا کہ اندازہ ہوا   میرا سٹیشن آچکا ہے ۔ گو کہ میں اک بھول کی وجہ سے کافی نقصان اٹھا چکا تھا مگر یہ نقصان مجھے اک خوبصورت سبق دینے کے ساتھ ساتھ سفر زندگی میں منزل بارے کافی محتاط کرگیا تھا ۔

Facebook Comments

عثمان ہاشمی
عثمان ھاشمی "علوم اسلامیہ" کے طالب علم رھے ھیں لیکن "مولوی" نھیں ھیں ،"قانون" پڑھے ھیں مگر "وکیل" نھیں ھیں صحافت کرتے ھیں مگر "صحافی" نھیں ھیں جسمانی لحاظ سے تو "جرمنی" میں پاۓ جاتے ھیں جبکہ روحانی طور پر "پاکستان" کی ھی گلیوں میں ھوتے ھیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply