استقبالِ رمضان ،قرآن اور اقامتِ دین کی جدوجہد

(سید عبدالوہاب شیرازی)

Advertisements
julia rana solicitors

حضورﷺ استقبال رمضان میں تین بار صحابہ سے پوچھتے تھے”مَاذا یَستَقبِلُکم وَ تَستَقبِلُون؟ قالھا ثلاثا، فقال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ: یا رسول اللہ وحی نزل؟ قالا لا۔ قال: عدو حضر؟ قال لا۔ قال فماذا؟ قال: ان اللہ یغفر فی اول لیلۃ من شہر رمضانَ لکل اہل ہذہ القبلۃ۔ واشار بیدہ الیہا (ابن خزیمہ۔ شعب الایمان۔ منذری۔ الترغیب والترہیب)
کون تمہارا استقبال کررہا ہے ا ور تم کس کا استقبال کررہے ہو؟ یا فرمایا” ایک آنے والا تمہارے سامنے آرہا ہے اور تم اس کا استقبال کروگے”؟ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا” کیا کوئی وحی آنے والی ہے” ؟ فرمایا نہیں۔ عرض کیا” کیا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے”؟ فرمایا، نہیں۔ عرض کیا پھر کیا بات ہے؟ فرمایا۔۔”عن انس بن مالک: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم، اذا دخل رجب قال اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان”(احمد۔بیہقی)انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو حضور ﷺ دعا فرماتے: اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔
صحابہ کرام کی تیاری!
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ انہ قال: کان اصحاب النبی ﷺ اذا نظروا الی ہلال شعبانَ اَکَبُّوْا علی المصاحِفِ یقرئونہا۔ وَاخرجَ المسلمون زکوۃ اموالہم لِیَتَقَوّٰی بِھَا الضعیفُ والمسکینُ علی صیام شہر رمضان۔ ودعاالولاۃُ اہلَ السجنِ فَمن کان علیہ حدٌ اَقاموہُ واِلا خَلوا سبیلہٗ۔ وانطلق التجار فقضوا ما علیہم وَقَبَضُوْا مَالہم حتیٰ اذا نظروا الی ہلال رمضانَ اِغتَسَلُوا وَاعتَکفوا۔(الغنیہ لطالبی ج1) ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جب ماہ شعبان کا چاند دیکھتے تو قرآن کو سینہ سے لگائے رہتے اور تلاوت میں مصروف رہتے۔ مسلمان اپنے اموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ کمزور اور مسکین اس کو حاصل کرکے ماہ رمضان کے روزے رکھنے پر قوت حاصل کریں۔ حکام قیدیوں کو طلب کرتے اور ان میں جو حد شرعی کے مستحق تھے ان پر حد جاری کرتے ورنہ ان کو رہا کردیتے۔ تاجر حضرات اپنے ذمہ جو حقوق ہیں انہیں ادا کردیتے اور جو چیزیں وصول طلب تھیں انہیں حاصل کرلیتے حتی کہ جب رمضان کا چاند دیکھ لیتے تو غسل کرکے اعتکاف کا اہتمام کرتے۔
ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا۔ روزے فرض ہوئے۔ جنگ بدر ہوئی۔ فتح مکہ ہوا۔ شب قدر رکھ دی گئی۔ ہر دن رات کو رحمتوں اور برکتوں سے بھر دیا گیا۔ لہٰذا اس مہینے کے شایان شان اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ رمضان المبارک سے قبل ہی ہم اپنے ظاہر وباطن کو اس کے لئے تیار کرلیں۔ ظاہر وباطن کو پاک کرنے میں سب سے زیادہ مددگار روزہ ہے، اسی لئے حضور ﷺ شعبان میں روزے رکھتے تھے۔
زکوۃ!
زکوۃ کا تعلق اگرچہ رمضان سے نہیں لیکن رمضان میں لوگ اس لئے ادا کرتے ہیں کہ اول تو انہیں اپنی تاریخ یاد نہیں ہوتی اس لئے لوگ رمضان کو مقرر کردیتے ہیں کہ چلو ہر سال رمضان میں زکوۃ ادا کریں گے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ رمضان میں نوافل اور فرائض کی ادائیگی کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے اس لئے بھی لوگ رمضان میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔
اقامت دین کی جدجہد کرنے والوں کے لئے زکوۃ کی اہمیت۔
اللہ تعالیٰ سورہ حج آیت نمبر41 میں اسلامی ریاست کے اصول چہارگانہ بیان فرماتے ہیں۔
اَلذین اِن مکنٰہم فی الارضِ اَقامواالصلوۃ واٰتَوالزکوہ وَامَروا باالمعروف ونہوعن المنکر۔
(اہل حق، اللہ کی مدد ونصرت کے مستحق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں اقتدار عطا کریں تو یہ نظام صلوۃ قائم کریں۔ زکوۃ ادا کریں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔تو جب تک ہمارے پاس ملک کا اقتدار نہیں اس وقت تک ہم اپنے گھر میں تو نظام صلوۃ وزکوۃ قائم کریں جہاں بلاشرکت غیرے ہماری مکمل حکومت قائم ہے۔ اگر ہم اپنے گھر میں نظام صلوۃ نہیں قائم کرسکتے۔ اگر ہم اپنی بیوی سے ہی زکوۃ نہیں لے سکتے ، اگر ہم اپنے گھر میں امرباالمعروف نہی عن المنکر کا نظام نہیں نافذ کرسکتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد پورے ملک میں کرلیں گے؟؟۔آج جو عذر ہمارے پاس اس چھوٹی سی حکمرانی میں ہیں یہ عذر بڑی حکمرانی ملنے کے بعد مزید بڑھ جائیں گے۔ ہمارے ملک کے حکمران کیوں اسلام نافذ نہیں کرتے ؟ ان کے پاس بھی اسی طرح کے عذر ہیں جو ہمارے پاس گھر میں اسلامی ماحول بنانے میں درپیش ہوتے ہیں۔اس لئے اپنے جسم پر نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں اسلام نافذ کریں تاکہ بڑی حکمرانی چلانے کا تجربہ حاصل ہو۔
قرآن!
دنیا میں بعض چیزیں بعض سے افضل ہوتی ہیں۔ جس چیز کی بھی نسبت قرآن سے جڑی ہے وہ افضل ترین ہو گئی ہے۔ چنانچہ جو فرشتہ قرآن لے کر آیا وہ سب فرشتوں سے افضل، جس رسول پر قرآن آیا وہ رسول سارے رسولوں سے افضل، جس مہینے میں قرآن آیا وہ سارے مہینوں سے افضل، جس رات میں قرآن آیا وہ سب راتوں سے افضل، جس شہر میں قرآن آیا وہ سب شہروں سے افضل، پھر جس بھی انسان کی نسبت قرآن کے ساتھ جڑ گئی، جو قرآن کی تعلیم وتعلم سے جڑا وہ سب انسانوں سے افضل ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ”تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔احادیث میں قرآن اور رمضان کے تعلق اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ” جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر شب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور قرآن کا دور کرتے تھے”۔دن کا روزہ رات کا قیام،رمضان کی خصوصی عبادات میں سے ایک دن کا روزہ اور رات کا قیام بھی ہے۔چنانچہ اس تعلق اور اس کے فوائد کو ایک حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت والے دن روزہ اور قرآن بندے کے حق میں سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا میں نے اسے کھانے پینے سے روکے رکھا لہٰذا اے میرے رب میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے اسے رات کو آرام سے روکے رکھا اے میرے رب میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش اس بندے کے حق میں قبول کرلی جائے گی۔
اسلاف کاتعلق باالقرآن اور رمضان!
٭امام مالکؒ رمضان المبارک میں احادیث کا پڑھنا پڑھانا بند کردیتے تھے اور سارا وقت قرآن کی تلاوت میں صرف کرتے۔
٭امام بخاریؒ تراویح کے بعد روزانہ رات کو دس سپارے تلاوت کرتے، دن کی تلاوت اس کے علاوہ ہوتی تھی۔
٭سفیان ثوری ؒرمضان میں تمام نفلی عبادات ترک کرکے صرف تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے۔
٭شیخ الہندؒ پوری رات مختلف حفاظ سے قرآن سنتے رہتے تھے۔ ایک بار گھر والوں نے حافظ سے کہا تم بیماری کا بہانہ کرکے چھٹی کرلو تاکہ حضرت صاحب کو آج آرام کرنے کا موقع ملے۔ حافظ صاحب تراویح کے بعد چھٹی کرکے سو گئے، آدھی رات کو کیا دیکھتے ہیں کہ شیخ الہندؒ ان کے پاؤں دبا رہے ہیں اور فرمایا آپ بیمار ہیں اس لئے آپ کے پاؤں دبا رہا ہوں۔
٭شاہ عبدالرحیمؒ ملاقات اور ڈاک بند کردیتے تھے۔ خاص خدام سے بھی صرف چائے کے وقفے کے دوران بات چیت کرتے۔
پلاننگ!
کوئی بھی کام بغیر پلاننگ کے نہیں ہوتا۔ جس طرح دنیا کی کامیابی بہترین پلاننگ سے ملتی ہے اسی طرح آخرت کے لئے بھی پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ رمضان المبارک کے معمولات کا تعین کریں۔
2۔دکان اور کاروبار کا وقت مقرر کریں۔
3۔ رزق کے معاملے میں اللہ کی ذات پر بھروسہ اور یقین پختہ کریں۔ ایک مہینہ کاروبار سے مکمل یا جزوی چھٹی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
4۔ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت اور دینی مشاغل کے لئے وقف کریں۔
5۔ روزے کے ساتھ ساتھ تلاوت اور فہم قرآن کا اہتمام بھی کریں۔
6۔ زیادہ سے زیادہ انفاق کریں۔ حضورﷺ سب سے زیادہ سخی تھے لیکن آپ کی سخاوت رمضان میں مزید بڑھ جاتی تھی۔
غلط فہمی!
بعض احباب اور رفقاء انفاق تو خوب کرتے ہیں لیکن اقامت دین کی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتے۔ قرآن حکیم میں اس رویے کی مذمت کی گئی ہے،سورہ توبہ(18) میں پہلے اللہ تعالیٰ تعمیر مساجد میں حصہ لینے والوں کے اوصاف ارشاد فرماتے ہیں”اِنما یَعمُرمساجد اللہ مَن اٰمن باللہ والیوم الاٰخرِ واقام الصلوۃ واٰتی الزکوۃ ولم یخش الااللہ فعسٰی اولئک اَن یکونوا من المہتدین”۔اللہ کی مسجدں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ وہ صحیح راستہ اختیار کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔” اَجَعَلْتُم سِقایۃ الحآج وعمارۃ المسجد الحرام کَمَن اٰمن باللہ والیوم الاٰخر وجٰہَدَ فی سبیل اللہ لا یستون عنداللہ واللہ لایہدی القومَ الظٰلمین۔الذین امنوا وھاجروا وجاہدوا فی سبیل اللہ باموالہم وانسفسہم اعظم درجۃ عنداللہ واولئک ہم الفائزون”۔”کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص کے ( اعمال کے) برابر سمجھ رکھا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے، اور جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے اللہ کے نزدیک یہ سب برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ ظالم لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا”
7۔دعاؤں کا اہتمام کریں۔ اقامت دین کی جدوجہد، قبولیت اور کامیابی کے لئے دعا کریں۔
8۔ دعوت کا کام بڑھا دیں۔ رمضان المبارک میں لوگوں کے دل دعوت حق کو قبول کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اعتکاف!
اعتکاف اجتماعی عبادت نہیں بلکہ انفرادی اور تعبدی چیز ہے۔ اس میں اللہ سے لو لگائیں۔ فطرتا انسان اللہ کے ساتھ خصوصی تعلق اور باتیں کرنا چاہتا ہے اس کے لئے وہ رہبانیت کے راستے پر چلتا ہے ۔ اسلام میں اس رہبانیت کی گنجائش نہیں جسے سابقہ اقوام نے اختیار کیا تھا۔ البتہ اعتکاف کے دس دن اس طرح گزارنے کی گنجائش ہے۔
رمضان اور اقامت دین!اسلامی تاریخ کے تین اہم واقعات رمضان میں ہوئے۔
1۔قرآن کا نزول رمضان میں ہوا۔ لہٰذا ہم قرآن کے ساتھ تعلق رمضان میں بڑھا دیں۔
2۔ حق وباطل کا پہلا معرکہ رمضان میں ہوا۔ یہ واقعہ حق وباطل کے فرق کو کھول کر رکھنے کا واقعہ ہے۔ حق کے علمبردار اللہ کی عطاء کردہ نعمتوں کو اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ عقل وفہم، علم وتجربہ، تمام تر صلاحیتیں اور مال وجان سب اللہ کے حوالے کردیا۔ عقل تو کہتی ہے کہ تین سو تیرہ کا مقابلہ ایک ہزار سے مشکل ہے۔ علم وتجربہ اور مشاہدہ کہتا ہے کہ دو گھوڑوں اور آٹھ تلواروں سے ایک ہزار کا مقابلہ نہیں ہوسکتا، لیکن حق والے یہ تمام باتیں چھوڑ کر اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔اس لئے جب تک اس درجے کا یقین پیدا نہیں ہوگا کامیابی تو درکنار اللہ کی مدد ونصرت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
یہ فضائے بدر کیا ہے؟ فضائے بدر تعداد کا نام نہیں، فضائے بدر اسلحہ اور ہتھیاروں کا نام نہیں، فضائے بدر،اسباب و وسائل کا نام نہیں، بلکہ فضائے بدر اللہ کی ذات پر یقین کا نام ہے، کہ اللہ ہے باقی کچھ بھی نہیں۔
3۔ تیسرا واقعہ فتح مبین یعنی فتح مکہ ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ باالآخر حق کے علمبردار سرخروئی حاصل کریں گے۔۔۔اس واقعہ سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ حق والوں کو جب کامیابی ملتی ہے توہ وہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply