قومی مفاد، سیاست اور میڈیا‎۔۔سید عمران علی شاہ

قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں نے اپنی جان، مال اور عزتیں تک قربان کردیں،  تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین اپنا سارا مال و متاع پیچھے چھوڑ آئے تھے، دنگے اور فساد اس قدر تباہ کن تھے کہ اس وقت سکھوں اور ہندوؤں نے  مسلمان آبادیوں پر بد ترین ظلم ڈھائے، والدین بچوں سے جدا ہوئے، بھائیوں نے بہنیں کھو دیں اپنی، ہندوستان سے آنے والی ٹرینیں مہاجرین پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کی داستانیں سنا رہی تھیں،  لوگوں کو گاجر مولی کی طرح سے کاٹا گیا تھا، ظلم کی انتہا تو یہ تھی کہ بچے، بوڑھے، عورتیں اور مرد سب کو جانوروں کی طرح  ذبح  کیا گیا تھا، ارض وطن کے حصول کے لیے یہ لازوال قربانیاں اس لیے دی گئی تھیں، کہ آنے والی نسلیں غلامی کے ناسور سے نہ صرف محفوظ ہوجائیں بلکہ اپنا باوقار تشخص حاصل کرلیں،
پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرے  73واں سال رواں دواں ہے، ملک چیونٹی کی چال  سے ہی سہی جیسے کیسے آگے بڑھ ہی رہا ہے۔
معیشت کا دارومدار آج بھی بیرونی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضہ جات پر منحصر ہے، اور ملکی نظام کو چلانے کے لیے اتنا قرض لیا گیا کہ  مونچھ داڑھی  سے بڑھ گئی ہے اور مزید کتنا قرض لیا جائے گا، کچھ نہیں کہا جاسکتا، مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہے,سیاست کی تو  یہ صورتحال  ہے کہ ہر دور حکومت میں ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی وابستگی بدل  اور اسمبلی بنا  کر بینچوں پر براجمان ہوکر پچھلے دور حکومت کو کوستے نظر آتے ہیں کہ جس  کا وہ خود بھی حصہ رہے ہوتے ہیں۔
یہی حال موجودہ حکومت کا بھی ہوا، تبدیلی کے دعویداروں نے سابقہ ادوار میں اندھی مچانے والوں کو الکٹیبلز ہونے کی بنیاد پر پھر سر پر بٹھا لیا تو ایسے میں ان سے اچھائی  کی امید رکھنا دیوانے کے خواب کے مصداق ہے،ملک میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد لیڈر شپ کا بدترین فقدان رہا، اسی لیے، آج تک سیاست، موروثیت کی غلام بن کر رہ گئی ہے، ملک میں موجود تینوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز اور پاکستان تحریک انصاف، تمام پارٹیوں میں موروثی سیاست موجود ہے۔
دنیا کی دوسری اقوام عوامی فلاح کی سیاست کرتی ہیں مگر ہمارے ملک میں سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے عوام نے بہت ساری توقعات وابستہ کی تھیں مگر ڈھائی سال کے عرصے میں، ان کی کارکردگی صرف بیان بازی اور وزراء کی تبدیلی تک محدود رہی، بات اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات کی روایتی سیاست سے آگے ایک قدم نہیں بڑھی،
حکومتی وزراء کے بیانات اکثر نہایت غیر ذمہ دارانہ ہوتے ہیں۔
اور دوسروں طرف اپوزیشن کا حال تو ویسے ہی ناگفتہ بہ ہے، سابقہ سپیکر قومی ایاز صادق نے متنازعہ بیان دے کر پوری قوم کو مغموم کیا اور عوام میں غم  و غصے کی لہر نظر آئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین (National Interest) قومی مفاد کو، کسی بھی ریاست کے وقار کے حوالے سے اولین حیثیت دیتے ہیں، مگر شاید ہمارے سیاست دان اس اہم ترین موضوع کی اہمیت کا ادراک نہیں رکھتے، اپنی سیاست کو چمکانے اور پارٹی لیڈروں کو خوش کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کا تو کیا ہی کہنا ہے، بریکنگ نیوز اور TRP کی دوڑ نے، میڈیا کو بے لگام کردیا ہے، کیا دکھانا ہے کیا نہیں، ان کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا، بس بریکنگ نیوز مل جائے، چاہے اس کی قیمت ملکی وقار ہی کیوں نہ ہو، نیوز اینکرز، بیک وقت، ڈاکٹر، انجینئر، جج، دفاعی تجزیہ کار اور نہ جانے کیا کیا ہیں، اپنے ٹاک شوز میں مختلف سیاسی جماعتوں اور حکومتی ارکان کو بلا کر ٹی وی پر ایک طوفان بدتمیزی مچایا ہوا ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک صرف ان  کا ذاتی مفاد اہمیت رکھتا ہے،  پروگرام کی ریٹنگز کے لیے بے شک ملک   اندرونی معاملات کا دنیا بھر میں واویلا اور رسوائی ہوتی رہے۔
پاکستانی قوم بڑی باہمت ہے، 1947 سے لے کر آج تک قربانیاں دیتی آئی ہے، اس کی وجہ ملک اور افواج پاکستان سے جنون کی حد تک عشق ہے،خدارا سیاست دان اور میڈیا ملکی وقار اور قومی مفاد کا ادراک کریں اور ملک کو اوّلیت دیں وطن سے ہم ہیں، اس ملک کے عوام کے صبر کو مزید نہ آزمائیں، اپنا قبلہ درست کریں، یہ قوم ہر تکلیف برداشت کر سکتی ہے مگر  اپنے ملک کے وقار کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں دے گی، کیونکہ یہ ملک ہمارا ایمان اور اس کے رکھوالے ہماری جان ہیں ۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں